اینٹی بایوٹکس (جراثیم کش) ادویہ کا مستقبل اور پاکستان

جاوید جی  جمعرات 18 اپريل 2019
اینٹی بایوٹکس ادویہ کی اثر پذیری دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اینٹی بایوٹکس ادویہ کی اثر پذیری دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

غالباً 2016 کی بات ہے جب عالمی ادارہ صحت نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہوگیا ہے جہاں ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ اور ایکسٹینسو ڈرگ ریزسٹنٹ ٹائیفائیڈ کے جرثومے موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، یہ صوبہ سندھ کا شہر حیدرآباد تھا، جہاں کچھ لوگ اس خطرناک مرض کا شکار ہوئے تھے۔

پاکستان میں ٹائیفائیڈ کو متعدی بخار کے نام سے جانا جاتا ہے، جو آلودہ کھانے اور پانی کے ذریعے پھیلتا ہے اور اگر اس کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو مریض کی جان بھی جاسکتی ہے۔ عام ٹائیفائیڈ کے برعکس ’’ایکسٹینسو ڈرگ ریزسٹنٹ ٹائیفائیڈ‘‘ میں وہ ادویہ جن کی مدد سے ٹائیفائیڈ کا علاج کیا جاتا ہے، بے اثر ہوجاتی ہیں۔

دسمبر 2018 میں عالمی ادارہ صحت نے دوبارہ اپنی رپورٹ میں پاکستان اور بالخصوص سندھ میں ’’ایکسٹینسو ڈرگ ریزسٹنٹ ٹائیفائیڈ‘‘ کے جرثومے کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور بدقسمتی سے اس مرتبہ جن مریضوں میں اس جراثیم کی موجودگی کا پتا چلا، ان کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کرگئی تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان کے علاوہ اس فہرست میں صرف افریقہ شامل ہے جہاں ’’ایکسٹینسو ڈرگ ریزسٹنٹ ٹائیفائیڈ‘‘ رپورٹ ہوا تھا۔ اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد امریکا اور برطانیہ نے اپنے شہریوں کےلیے ایک الرٹ جاری کیا جس میں ان ممالک کی متعلقہ اتھارٹیز نے اپنے شہریوں کو متنبہ کیا کہ وہ افریقہ اور پاکستان کا غیر ضروری سفر کرنے سے احتراز کریں؛ اور اگر جانا ناگزیر ہو تو ٹائیفائیڈ کی ویکسین کروا کر جائیں۔

2016 میں شارجہ، متحدہ عرب امارات میں معدے کے السر کا ایک پاکستانی مریض رپورٹ ہوا۔ ڈاکٹر نے اسے مختلف ادویہ کا کورس تجویز کیا، جس میں ’’لیووفلاکساسن‘‘ نامی ایک دوا بھی شامل تھی جسے بین الاقوامی طور پر ’ایک طاقتور‘ جراثیم کش دوا تسلیم کیا جاتا ہے اور معدے کے علاوہ دیگر بیماریوں جیسے ٹائیفائیڈ، سانس کی نالیوں کے انفیکشن اور مختلف جلدی امراض میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مریض نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق پورے دو ہفتے کا کورس تو مکمل کرلیا لیکن بیماری کی علامات کم ہونے کے بجائے بڑھ گئیں۔ ڈاکٹر نے مریض کو دوبارہ ٹیسٹ کروانے کو کہا اور اس کی رپورٹس کے مطابق ’السر‘ جوں کا توں تھا۔ ڈاکٹر نے دوبارہ مریض کی ہسٹری لی تو اس پر یہ انکشاف ہوا کہ مریض کو پاکستان میں یہ دوا ’گلے کی خرابی اور معمولی نزلہ، زکام‘ میں نہ صرف استعمال کروائی جاچکی ہے، بلکہ مریض کو اس دوا کی معمول کی خوراک کے بجائے ڈبل ڈوز دی جاتی رہی ہے۔ ’’لیووفلاکساسن‘‘ نامی اس دوا کے بلاوجہ استعمال کی وجہ سے یہ دوا اب السر جیسے خوفناک مرض میں کام نہیں کررہی تھی۔

یاد رہے کہ اوپر عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں جس ’’ایکسٹینسو ڈرگ ریزسٹنٹ ٹائیفائیڈ‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے، اس میں بھی ’’لیووفلاکساسن‘‘ اور اس جیسی کئی دوسری طاقتور اینٹی بایوٹکس ادویہ کام نہیں کرتیں، بلکہ ’’سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن‘‘ کے جاری کردہ الرٹ کے مطابق، ٹائیفائیڈ کی اس قسم میں صرف ایک دوا کے علاوہ جس کا نام ’’ازیتھرومائی سن‘‘ ہے، کوئی بھی دوا کام نہیں کرتی۔ لہٰذا صحت کے شعبے سے وابستہ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ’’ازیتھرومائی سن‘‘ کا استعمال ٹائیفائیڈ کے علاوہ دیگر بیماریوں میں، سوائے ناگزیر صورتحال کے، بالکل نہ کریں ورنہ خدشہ ہے کہ مذکورہ دوا ٹائیفائیڈ میں بھی کام نہیں کرے گی۔

اس مشکل صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ اور کیا مستقبل میں موجودہ اینٹی بایوٹکس ادویہ کارگر رہیں گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کیے بغیر شاید مسئلے کا حل نہ ڈھونڈا جاسکے۔

موجودہ صورتحال گمبھیر ہے اور آنے والے برسوں میں یہ مزید گمبھیر ہوتی جائے گی کیونکہ سائنسدان اپنی انتہائی کوشش کے باوجود، 1987 کے بعد سے اینٹی بایوٹکس کی کوئی نئی کلاس یا گروپ دریافت نہیں کرسکے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اس وقت وہ تمام اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جن سے ہم دستیاب اینٹی بایوٹکس کی کارکردگی برقرار رکھ سکیں۔

کیا پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام طور پر معالج اپنے مریضوں کو موسمی نزلہ، زکام اور فلو میں بھی بے دریغ اینٹی بایوٹکس استعمال کروا دیتے ہیں اور جہاں دو یا تین اسپتالوں کے سوا ’’اینٹی بایوگرام‘‘ پر (ان ادویہ کی مختلف بیماریاں پیدا کرنے والے بیکٹیریا کے خلاف کارکردگی کی بنیاد پر) ان کے استعمال کا فیصلہ کرنے کا تصور ہی موجود نہیں، کیا ایسا ممکن ہے؟

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عالمی ادارۂ صحت پہلے ہی اینٹی بائیوٹکس ادویہ کی دن بدن کم ہوتی ہوئی اثر پذیری کو بیکٹیریا کے خلاف ایک جنگ جیسی صورتحال کے مترادف قرار دے چکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان جہاں حکومتی ادارے، ادویہ ساز کمپنیوں اور دواؤں کی قیمتوں کو، حکومت کے طے کردہ معیار کے مطابق رکھنے پر پابند نہیں رکھ سکے وہاں اس حساس معاملے پر، جس میں بہت سے معالجوں کے ادویہ ساز کمپنیوں سے دوا لکھنے کے نام پر کمیشن جیسے مفادات وابستہ ہیں، کیا حکومت اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت کرنے والے خطرناک جراثیم کے خلاف جنگ میں کوئی مؤثر حکمتِ عملی بناسکتی ہے؟ بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

جاوید جی

جاوید جی

بلاگر صحت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور طویل عرصے سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس کےلیے کالم، مضامین، افسانے اور بلاگز لکھ رہے ہیں۔ تاریخ، تصوف، مذہب، صحت، نفسیات، سماج اور معاشرت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ ان سے ان کے فیس بک پیج @javed.ji2 اور ٹوئٹر آئی ڈی @hjavediqbal2 کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔