- وقت بدل رہا ہے۔۔۔ آپ بھی بدل جائیے!
- خواتین کی حیثیت بھی مرکزی ہے!
- 9 مئی کیسز؛ شیخ رشید کی بریت کی درخواستیں سماعت کیلیے منظور
- ’آزادی‘ یا ’ذمہ داری‘۔۔۔ یہ تعلق دو طرفہ ہے!
- ’’آپ کو ہمارے ہاں ضرور آنا ہے۔۔۔!‘‘
- رواں سال کپاس کی مقامی کاشت میں غیر معمولی کمی کا خدشہ
- مارچ میں کرنٹ اکاؤنٹ 619 ملین ڈالر کیساتھ سرپلس رہا
- کیویز سے اَپ سیٹ شکست؛ رمیز راجا بھی بول اٹھے
- آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ جون یا جولائی میں ہونیکا امکان ہے، وزیر خزانہ
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی لاہور پہنچ گئے، مزار قائد پر حاضری
- دعائیہ تقریب پر مقدمہ؛ علیمہ خان کی درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ
- سی او او کی تقرری کا معاملہ کھٹائی میں پڑنے لگا
- ’’شاہین آفریدی نے رضوان کو ٹی20 کرکٹ کا بریڈ مین قرار دے دیا‘‘
- ’’بابراعظم کو قیادت سے ہٹانے اور پھر دوبارہ لانے کا فیصلہ بھی آئیڈیل نہیں‘‘
- والد کی جانب سے چیلنج، بیٹے نے نوٹ جوڑنے کیلئے دن رات ایک کر دیے
- مینگروو کو مائیکرو پلاسٹک آلودگی سے خطرہ لاحق
- ویڈیو کانفرنس کے دوران اپنا چہرہ دیکھنا ذہنی تکان کا سبب بنتا ہے، تحقیق
- بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی اچانک طبیعت خراب، بنی گالہ میں طبی معائنہ
- غیر ملکی وفود کی آمد، شاہراہ فیصل سمیت کراچی کی مختلف شاہراہیں بند رہیں گی
- سندھ اور بلوچستان میں گیس و خام تیل کی پیداوار میں اضافہ
سوشل میڈیا کی ذمے دارانہ تعلیم
یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے، ایک نئے فیس بک کونٹیکٹ نے مجھے چیٹ میں میسیج بھیجا۔ اپنے بارے میں بتاتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ وہ کسی عرب ملک میں رہائش پذیر ہے، اس کے والد کا تعلق کسی عرب ملک سے ہے اور والدہ کا پاکستان کے شمالی علاقے سے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ امریکا سے ایروناٹیکل انجینئرنگ میں فارغ التحصیل ہے۔ میں نے پروفائل چیک کی تو غیرمعمولی خوبصورت اور خوش لباس نوجوان کے پروفائل میں تعلیم نیوزی لینڈ کی لکھی تھی۔ مہنگے ہوٹلوں میں تصاویر موجود تھیں مگر فرینڈ لسٹ نظر نہیں آرہی تھی۔ مشترکہ دوستوں میں ایمن مصفی بہاولپور سے ہماری ایک دوست، جو چولستان میں واٹر پمپس انسٹال کررہی ہیں، وہ موجود تھیں۔ آج ان سے بات چیت کے بعد ہی یہ کالم تحریر کررہی ہوں۔
اس پس منظر کے کسی فرد نے پہلی بار رابطہ نہیں کیا، انٹرنیٹ پر کچھ لوگ ایسے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ اس پر ابھی آتے ہیں۔ میں نے چند سوال اس سے کیے اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ فیک پروفائل ہے۔ ہوسکتا ہے ایسا نہ ہو لیکن تقریباً ایسے ہی بائیو ڈیٹا کا دعویٰ کرنے والے ایک نوجوان نے دو تین ہفتوں پہلے رابطہ کیا۔ نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ ترکی کا شہری ہے۔ میرے استفسار پر کہ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی کیسے اس کے پروفائل پر موجود ہیں، اس کا کہنا تھا کہ اس کے والد کا تعلق بلوچستان سے اور والدہ کا ترکی سے ہے۔ والد فارن سروس میں تھے۔ والدہ اور والد کی قطر میں ملاقات ہوئی۔ یہ خود قطر میں پیدا ہوا اور امریکا میں تعلیم حاصل کی اور قطر میں ہی ملازمت کرتا ہے۔ ’’فرام استنبول‘‘ پروفائل کی ہیڈ لائن میں موجود تھا لیکن اس کے بیان کے مطابق اس کی ساری زندگی قطر اور امریکا میں گزری تھی۔ ایسے ہی جو عمر وہ بتا رہا تھا وہ پروفائل میں موجود عمر سے میچ نہیں کر رہی تھی۔ میں نے پروفائل چیک کی تو اس کے کچھ اور دعوے بھی پروفائل سے میچ نہیں کر رہے تھے۔
اس جھوٹے کو گھر تک پہنچایا تو وہ صرف یہ ماننے پر راضی ہوا کہ تصویر اس نے پروفائل پر غلط لگا رکھی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ تصویر تو سب غلط لگاتے ہیں۔ جھوٹ کھل جانے پر بجائے شرمندگی پر وہ مجھ پر طنز کرنے لگا کہ آپ اتنی بڑی صحافی ہیں، آپ کو اتنا ٹائم کیسے مل جاتا ہے کہ آپ لوگوں کے پروفائل چیک کریں اور ان کے بیانات کے تضادات کی نشاندہی کریں؟ مطلب قصور میرا تھا کہ میں نے اس کی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے اس کے بیانات اور پروفائل کا تقابل کیوں کیا۔
میں اس بلاگ میں صرف یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اپنے بچوں اور بچیوں کو سمجھائیے کہ فیس بک پر کسی کو بھی اس تصدیق کے بغیر ایڈ نہ کریں کہ پروفائل فیک تو نہیں۔ ایسی پرکشش اور جاذب نظر پروفائل کو خصوصاً ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیے جن کی ساری زندگی ملک سے باہر گزری ہے اور وہ امریکا یا کسی دوسرے ترقی یافتہ مغربی ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کسی عرب ملک میں پرکشش ملازمت کر رہے ہیں؛ لیکن اس کے باوجود آپ کی فرینڈ لسٹ میں ایڈ ہونے اور آپ سے چیٹ کرنے کےلیے بھی مرے جارہے ہیں۔ ان کی پروفائل پر ذرا یہ چیک کیجیے کہ جس پس منظر کا یہ دعویٰ کرتے ہیں، کیا ان کی تصویروں پر جو لاتعداد تبصرے موجود ہیں، وہ اسی پس منظر کے لوگوں کے ہیں؟
یہ لوگ عام پاکستانی لڑکیوں کو اپنی خوش شکلی اور خوشحال بیک گراؤنڈ سے کس طرح بیوقوف بناسکتے ہوں گے؟ تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے۔ آج کل انٹرنیٹ پر تصاویر اور ویڈیوز کا حصول کتنا آسان ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کسی خوبرو خوشحال لڑکے کےلیے انٹرنیٹ پر ایسی کہانیوں کے ذریعے کسی سے بھی کیا کیا کروا لینا ممکن ہے، یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
اور صرف لڑکیوں کو بیوقوف بنانے کا مسئلہ نہیں۔ کوئی دو سال قبل مجھے پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ مراکش سے ایک لڑکی نے اس سے رابطہ کیا اور کوئی نازیبا ویڈیو بنا کر اب اس گروہ کے لوگ اس سے دو ہزار ڈالر مانگ رہے ہیں۔ یاد رکھیے کہ ایسے گروہ یا مافیا بہت پلاننگ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ یہ مہینوں اور کبھی کبھی برسوں دوستیاں نباہتے ہیں۔ ان کے پاس سیکڑوں اکاؤنٹس ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی پوسٹس پر تبصرے دیتے ہیں۔ یہ لوگوں کی جھوٹی تصاویر بڑی تعداد میں لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی اسلامی اور قومی پوسٹس بہت بڑی تعداد میں ڈالتے ہیں جن سے ان کے دین اور پاکستان سے خلوص و محبت کا اظہار ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ خوبصورت خواتین کی تصاویر بھی کبھی کبھار مختلف اینگلز سے موجود ہوتی ہیں جو پاکستانی، مسلمان بلکہ دنیا کی کوئی بھی شریف خاتون کبھی خود ڈالنا نہ چاہیں۔
سوشل میڈیا کے ذمے دارانہ استعمال کی تعلیم آج کی اہم ضرورت ہے۔ اپنے بچوں اور بچیوں کو ابتدائی عمر سے ایسے لوگوں کے بارے میں تعلیم دیجیے۔ اسکولوں میں بھی ہمیں بچوں کو یہ شعور دینے کی کوشش کرنی چاہیے کہ انٹرنیٹ کا ذمے دارانہ استعمال کیسے ممکن ہے۔
خدارا سوشل میڈیا کو برا بھلا کہنا بند کیجیے، اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ سوشل میڈیا کی ذمے دارانہ تعلیم آج کی اہم ضرورت ہے۔ اسے اسکولوں میں رائج کرنے کےلیے مہم چلائیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔