- بشریٰ بی بی کا شفا انٹرنیشنل اسپتال میں میڈیکل چیک اپ
- ویمن ون ڈے سیریز؛ پاک ویسٹ انڈیز ٹیموں کا کراچی میں ٹریننگ سیشن
- محکمہ صحت پختونخوا نے بشریٰ بی بی کے طبی معائنے کی اجازت مانگ لی
- پختونخوا؛ طوفانی بارشوں میں 2 بچوں سمیت مزید 3 افراد جاں بحق، تعداد 46 ہوگئی
- امریکا کسی جارحانہ کارروائی میں ملوث نہیں، وزیر خارجہ
- پی آئی اے کا یورپی فلائٹ آپریشن کیلیے پیرس کو حب بنانے کا فیصلہ
- بیرون ملک ملازمت کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ گینگ سرغنہ سمیت 4 ملزمان گرفتار
- پاکستان کےمیزائل پروگرام میں معاونت کا الزام، امریکا نے4 کمپنیوں پرپابندی لگا دی
- جرائم کی شرح میں اضافہ اور اداروں کی کارکردگی؟
- ضمنی انتخابات میں عوام کی سہولت کیلیے مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم
- وزیرداخلہ سے ایرانی سفیر کی ملاقات، صدررئیسی کے دورے سے متعلق تبادلہ خیال
- پختونخوا؛ صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے پر معطل کیے گئے 15 ڈاکٹرز بحال
- لاہور؛ پولیس مقابلے میں 2 ڈاکو مارے گئے، ایک اہل کار شہید دوسرا زخمی
- پختونخوا؛ مسلسل بارشوں کی وجہ سے کئی اضلاع میں 30 اپریل تک طبی ایمرجنسی نافذ
- پختونخوا؛ سرکاری اسکولوں میں کتب کی عدم فراہمی، تعلیمی سرگرمیاں معطل
- موٹر وے پولیس کی کارروائی، کروڑوں روپے مالیت کی منشیات برآمد
- شمالی کوریا کا کروز میزائل لیجانے والے غیرمعمولی طورپربڑے وارہیڈ کا تجربہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹی20 آج کھیلا جائے گا
- بابر کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا مشورہ
- موبائل فون صارفین کی تعداد میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی
دریائے سندھ کی اندھی ڈولفن کی آبادی میں 55 فیصد اضافہ
کراچی: صوبہ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے چار روزہ انتھک سروے کے بعد قوم کو اچھی خبر دی ہے کہ معدومیت کے خطرے سے دوچار سندھ کی نابینا ڈولفن ’بھلن‘ کی تعداد میں 55 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے کئے گئے سروے میں 500 نئی ڈولفن شمار کی گئی ہیں یعنی 2019 میں ان کی کل تعداد 1419 ہوچکی ہے جبکہ 2011 میں ڈولفن کی تعداد 918 تھی۔ ماہرین نے اس کے لیے سکھر سے گدو بیراج تک 200 کلومیٹر کا پانیوں کا جائزہ لیا ہے۔
’ ماضی میں کئے گئے سروے جون اور جولائی میں ہوئے جب دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ اپنے عروج پر ہوتا ہے اور اطرافی نالوں اور آبی راستے بھی پانی سے بھرے ہوتے ہیں۔ لیکن اس بار اپریل میں کیا گیا ہے جبکہ پانی کا بہاؤ کم تھا لیکن بیراجوں کی اطراف میں پانی کی شدت تھی،‘ محکمہ وائلڈ لائف کے کنزرویٹر جاوید مہر نے بتایا۔
جاوید مہر نے اس سروے میں 58 شرکا کو خشکی پر تعینات کیا اور 22 اراکین کو دو کشتیوں میں سوار کرکے ڈیٹا جمع کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نایاب سندھو ڈولفن سندھ ڈیلٹا سے لے کر پنجاب میں اٹک تک کے مقام پر دیکھی جاتی تھی۔ لیکن آج کوٹری بیراج سے آگے تک پانی کے بہاؤ نہ ہونے کی وجہ سے اب اس کی آبادیاں ایک محدود علاقے تک رہ گئی ہیں جسے ’انڈس ڈولفن ریزرو‘ کے نام سے تحفظ گاہ کا مقام حاصل ہے۔
پاکستان میں دریائی ڈولفن کا پہلا باقاعدہ سروے 1974 میں سوئزرلینڈ کے پروفیسر جورجیو پیلری نے کیا تھا اور 150 ڈولفن شمار کی تھیں۔ اس کے بعد ڈولفن کے لیے آبی تحفظ گاہ قائم کی گئی تھی۔
جاوید مہر نے بتایا کہ میٹھے پانی میں چار اقسام کی ڈولفن پائی جاتی رہیں جن میں سے اب تین اقسام کی ڈولفن ہی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے چین کے دریائے یانگزی میں پائی جانے والی ڈولفن ناپید ہوچکی ہے۔ دریائے ایمیزون کی ڈولفن ابھی موجود ہے جبکہ پاکستانی ڈولفن دنیا کے کسی اور علاقے میں نہیں پائی جاتیں۔
1419 Indus dolphin betw Gudu and Sukkur are recorded. Announced by @SyedNasirHShah as soon as survey team reaches sukkur after 4 day journey in Indus River. Thanks team Dr Zaib, Komal,Mir Akhtr& Nazeer @BBhuttoZardari
@AseefaBZ @amarguriro @NKMalazai @smendhro @zulfiqarkunbhar pic.twitter.com/BpMChMCtV9— Javed Mahar (@JavedMahar7) April 11, 2019
جاوید مہر نے کہا کہ ایک قسم کی ہموار بالوں والی اودبلاؤ (Lutrogale perspicillata) کے آثار کے متعلق بھی کہا جس کے فضلے اور قدموں کے نشانات کی بنا پر اس کی شناخت کی گئی ہے اور اس نسل کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ وہ اب ختم ہوچکی ہے۔
اس سروے میں دوخواتین ماہرِ حیوانیات ڈاکٹر زیب النسا میمن اور ڈاکٹر کومل عارف ہنگورو نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ دونوں ماہرین نے تمام مشکلات کے باوجود اس اہم تجربے کو بہت اہم قرار دیا ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔