- پولر آئس کا پگھلاؤ زمین کی گردش، وقت کی رفتار سست کرنے کا باعث بن رہا ہے، تحقیق
- سندھ میں کتوں کے کاٹنے کی شکایت کیلئے ہیلپ لائن 1093 بحال
- کراچی: ڈکیتی کا جن قابو کرنے کیلیے پولیس کا ایکشن، دو ڈاکو ہلاک اور پانچ زخمی
- کرپٹو کے ارب پتی ‘پوسٹربوائے’ کو صارفین سے 8 ارب ڈالر ہتھیانے پر 25 سال قید
- گٹر میں گرنے والے بچے کی والدہ کا واٹر بورڈ پر 6 کروڑ ہرجانے کا دعویٰ
- کرپٹو کرنسی فراڈ اسکینڈل میں سام بینک مین فرائڈ کو 25 سال قید
- کراچی، تاجر کو قتل کر کے فرار ہونے والی بیوی آشنا سمیت گرفتار
- ججز کے خط کی انکوائری، وفاقی کابینہ کا اجلاس ہفتے کو طلب
- امریکا میں آہنی پل گرنے کا واقعہ، سمندر سے دو لاشیں نکال لی گئیں
- خواجہ سراؤں نے اوباش لڑکوں کے گروہ کے رکن کو پکڑ کر درگت بنادی، ویڈیو وائرل
- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، فل کورٹ اعلامیہ
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
دریائے سندھ کی اندھی ڈولفن کی آبادی میں 55 فیصد اضافہ
کراچی: صوبہ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے چار روزہ انتھک سروے کے بعد قوم کو اچھی خبر دی ہے کہ معدومیت کے خطرے سے دوچار سندھ کی نابینا ڈولفن ’بھلن‘ کی تعداد میں 55 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے کئے گئے سروے میں 500 نئی ڈولفن شمار کی گئی ہیں یعنی 2019 میں ان کی کل تعداد 1419 ہوچکی ہے جبکہ 2011 میں ڈولفن کی تعداد 918 تھی۔ ماہرین نے اس کے لیے سکھر سے گدو بیراج تک 200 کلومیٹر کا پانیوں کا جائزہ لیا ہے۔
’ ماضی میں کئے گئے سروے جون اور جولائی میں ہوئے جب دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ اپنے عروج پر ہوتا ہے اور اطرافی نالوں اور آبی راستے بھی پانی سے بھرے ہوتے ہیں۔ لیکن اس بار اپریل میں کیا گیا ہے جبکہ پانی کا بہاؤ کم تھا لیکن بیراجوں کی اطراف میں پانی کی شدت تھی،‘ محکمہ وائلڈ لائف کے کنزرویٹر جاوید مہر نے بتایا۔
جاوید مہر نے اس سروے میں 58 شرکا کو خشکی پر تعینات کیا اور 22 اراکین کو دو کشتیوں میں سوار کرکے ڈیٹا جمع کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نایاب سندھو ڈولفن سندھ ڈیلٹا سے لے کر پنجاب میں اٹک تک کے مقام پر دیکھی جاتی تھی۔ لیکن آج کوٹری بیراج سے آگے تک پانی کے بہاؤ نہ ہونے کی وجہ سے اب اس کی آبادیاں ایک محدود علاقے تک رہ گئی ہیں جسے ’انڈس ڈولفن ریزرو‘ کے نام سے تحفظ گاہ کا مقام حاصل ہے۔
پاکستان میں دریائی ڈولفن کا پہلا باقاعدہ سروے 1974 میں سوئزرلینڈ کے پروفیسر جورجیو پیلری نے کیا تھا اور 150 ڈولفن شمار کی تھیں۔ اس کے بعد ڈولفن کے لیے آبی تحفظ گاہ قائم کی گئی تھی۔
جاوید مہر نے بتایا کہ میٹھے پانی میں چار اقسام کی ڈولفن پائی جاتی رہیں جن میں سے اب تین اقسام کی ڈولفن ہی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے چین کے دریائے یانگزی میں پائی جانے والی ڈولفن ناپید ہوچکی ہے۔ دریائے ایمیزون کی ڈولفن ابھی موجود ہے جبکہ پاکستانی ڈولفن دنیا کے کسی اور علاقے میں نہیں پائی جاتیں۔
جاوید مہر نے کہا کہ ایک قسم کی ہموار بالوں والی اودبلاؤ (Lutrogale perspicillata) کے آثار کے متعلق بھی کہا جس کے فضلے اور قدموں کے نشانات کی بنا پر اس کی شناخت کی گئی ہے اور اس نسل کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ وہ اب ختم ہوچکی ہے۔
اس سروے میں دوخواتین ماہرِ حیوانیات ڈاکٹر زیب النسا میمن اور ڈاکٹر کومل عارف ہنگورو نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ دونوں ماہرین نے تمام مشکلات کے باوجود اس اہم تجربے کو بہت اہم قرار دیا ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔