سائیکل چلائیں، صحت بنائیں، پٹرول بچائیں

غلام محی الدین  اتوار 18 اگست 2013
سائیکل کی سواری کو گھوڑ سواری کا نعم البدل قرار دیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

سائیکل کی سواری کو گھوڑ سواری کا نعم البدل قرار دیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: بائی سائیکل انیسویں صدی کے آغاز میں جب متعارف ہوا، تو دنیا بھر میں اِس کے چرچے ہوئے تھے۔

سائیکل کی سواری کو گھوڑ سواری کا نعم البدل قرار دیا گیا اور شروع شروع میں اِسے طبقہ اشرافیہ میں خوب پذیرائی ملی۔ جب اس کی طلب بڑھی تو سائیکل ساز کمپنیوں کے درمیان مقابلے کی فضاء کے باعث اس کی قیمت میں کمی واقع ہو گئی اور یوں سائیکل عوام الناس کی سواری بن گئی۔ تب ہلکے پھلکے امپورٹڈ سائیکل طبقہ اشرافیہ کے لیے اسٹیٹس سمبل بن گئے تھے اور مقامی سائیکل ساز کمپنیوں کے بھاری بھر کم سائیکل عام لوگوں میں مقبول ہوئے، انہی ایام میں دنیا بھر میں جب موٹر گاڑیوں نے خاص طور پر صاحب ثروت لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا تو بے چاری بائی سائیکل طبقہ اشرافیہ سے نکل کر غریبوں کی سواری بن گئی اور پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ اس سائیکل کی حالت زار کو معروف مزاح نگار پطرس بخاری کو ’’مرزا کی بائی سائیکل‘‘ کے عنوان سے اسے رقم کرنا پڑا۔

جو صاحب ذوق پطرس بخاری کے اس مضمون کو پڑھ چکے ہیں انہیں بہت اچھی طرح علم ہو گا کہ سائیکل دنیا بھر کی معاشرت میں کس طرح داخل ہوئی اور اس کو عوام الناس نے اسے کیا مقام دیا، دنیا بھر سائیکل بندہ برداری سے لے کر مال برداری تک کے تمام مراحل نہایت عمدگی سے طے کرنے والی سواری قرار پائی۔ اس لیے پرانے بزرگ کہا کرتے تھے کہ جس نے سائیکل چلانا نہیں سیکھی وہ کبھی کوئی مشینری عمدگی سے چلانا نہیں سیکھ سکتا۔

بائی سائیکل اور انسان کی محبت کا سفر قریباً ایک صدی پر محیط ہے، اس میں متعدد اتار چڑھائو آئے مگر آفرین ہے اس سواری پر کہ انسان نے جب بھی اس کو پکارا، اِس نے ہمیشہ لبیک کہا اور آج یہ حال ہے کہ دنیا بھر میں تیسری مرتبہ سائیکلنگ اہمیت اختیار کر چکی ہے اور یورپ میں تو خاص طور پر لوگوں کو سائیکل چلانے کا ’’کریز‘‘ ہو چکا ہے۔

دوسری جنگِ عظیم سے پہلے دنیا میں سفر زیادہ تر سائیکل پر ہی کیا جاتا تھا، مگر انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں جب موٹر گاڑیوں کا رجحان بڑھا تو جہاں اور بہت کچھ تبدیل ہوا وہاں سائیکل چلانے کے شوق کا بھی گلا گھونٹ دیا گیا۔ یوں یورپ سمیت دیگر ممالک میں گاڑیوں کا سڑکوں پر رش ہوا تو سائیکل سوار بے چارے گلیوں، فٹ پاتھوں اور پکڈنڈیوں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے، پھر دھیرے دھیرے سائیکل نے شہروں سے نکل کر دیہاتوں میں اپنی ساکھ بنانا شروع کی اوریوں اسی کی دہائی تک اپنے ہونے کے احساس کو خاصی حد تک قائم بھی رکھا لیکن جب موٹر سائیکل نے سائیکل سواروں کو اپنی طرف متوجہ کیا تو سائیکلنگ کا شوق ایک بار پھر کملا گیا اور صرف بچوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ مگر سائیکل ساز اداروں نے ہمت نہ ہاری اور یوں سائیکل نے بھی سادگی کے لبادے کو خیر باد کہا اور ماڈرن دور میں داخل ہونے کی ٹھان لی۔

جب سادہ اور وزنی سائیکلوں کی جگہ ہلکی پھلکی اور ٹیکنالوجی کی جدت سے مزین سائیکلیں تیار ہونے لگیں اورگاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے سڑکوں پر ہلاک ہونے والے افراد کی شرح میں اضافہ ، پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں،جسم پر تیزی سے چڑھتی ہوئی چربی کے باعث لاحق ہونے والے متعدد عارضوں کے اخراجات اور خاص طور پر عالمی سطح پر موٹاپے کے خطرناک رجحان سے لوگ باخبر ہوئے تو سب کو گھروں کے اسٹوروں میں پھینکی ہوئی پرانی سائیکلوں کی یاد ستانے لگی۔ اس یاد کے بعد آج دنیا بھر میں سائیکل، ایک بار پھر سب کی نظروں کا تارہ بننے لگاہے، یورپ اور امریکا سمیت ایشیا میں سائیکل چلانے کی شرح میں گذشتہ 15 سالوں میں 40 فی صد تک اضافہ ریکارڈ ہوچکا ہے اور سال 2020 تک یہ اضافہ دوگنا ہونے کا امکان ہے۔

عالمی سطح پر توانائی کی پالیسیاں بنانے والے ماہرین آج کل اس سلوگن کی مارکیٹنگ پر غوروخوض کر رہے ہیں’’کار اور بائیک کا استعمال چھوڑیں، سائیکل چلائیں،صحت بنائیں، پٹرول بچائیں‘‘۔ کیا یہ نعرہ مستقبل میں کام یاب ہو جائے گا؟ کیا لوگ سہل پسندی کی عادت اور آرام دہ گاڑیاں چلانا چھوڑ دیں گے؟ اس ضمن میں ماہرین دو گروپوں میں تقسیم نظر آتے ہیں۔ پہلا گروپ جو غیر جانب دار ہے اور جانتا بھی ہے کہ یہ کام بہت مشکل ہے، اس کے مطابق ’’ موجودہ سرمایاداری نظام معیشت میں ادویات، تیل ،آٹوموبائیل اورسڑک ساز ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسا نہیں ہونے دیں گی،اگر یہ نعرہ کامیاب ہوا بھی تو صرف لوگوں کی تسلی اور تشفی کی ایک خاص حد تک ا س سے آگے سائیکلنگ کے رجحان کو نہیں جانے دیا جائے گا‘‘۔

جب کہ ماہرین کا دوسرے گروپ کو قوی امید ہے کہ عالمی سطح پر بہت جلد سائیکلنگ سمیت دیگر ایسے اقدامات کو لاگو کرنا پڑے گا، جس سے انسانی فلاح اور بہتری کا پہلو نکلتا ہو، ملٹی نیشنل کمپنیاں نئے اوردیگر متوقع اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے خود سرمایا کاری کریں گی۔ دنیا بھر میںپٹرول،ادویات اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج اور ہڑتالوں کے سامنے اب سرمایادار زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتے۔ مہنگائی نے عالمی سطح پر عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ایران اور چین میں بھی تیل کی قیمتیں بڑھیں تھیں تو لوگوں نے سائیکلنگ شروع کردی تھی جس سے قیمتیں کم ہوگئیں تھیں، سائیکلنگ سے صحت بھی اچھی رہے گی، ماحول بھی صاف رہے گا اور پیٹرول بھی بچایا جاسکے گا۔

دنیا بھر میںآج ہالینڈ کوسائیکل سواری کے شعبہ میںسب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ ہالینڈ کے شہریوں کے پاس سب سے زیادہ ہیں۔ ایمسٹرڈیم اور ہیگ جیسے بڑے شہروں میں لوگ اپنا ستر فی صد سفر سائیکلوں پر ہی کرتے ہیں۔ جب ہالینڈ میں انیس سو اکہتر میں تین ہزار افراد موٹر گاڑیوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے جن میں ساڑھے چار سو بچے بھی تھے تواس کے ردِعمل میں ایک سماجی تحریک شروع ہوئی تھی جس کا مطالبہ تھاکہ بچوں کو سائیکل چلانے کے لیے محفوظ ترین ماحول فراہم ہونا چاہیے ۔ سڑک کے ایک حادثے میں اپنا بچہ کھو دینے والے صحافی وِک لیگ ناف کے مضمون کی سرخی ہی جوکچھ یوں تھی ’’ بچوں کا قتل روکو‘‘ اس تحریک کا نام بن گیا تھا۔

ماضی کی بات ہے دنیا بھر میں گاڑیوں کی صنعت پر اعتماد کو ایک دھچکا یوں بھی لگا تھا جب 1973 میں تیل کا بحران آیا تھا اور تیل پیدا کرنے والے ممالک نے امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک کو تیل کی برآمد روک دی تھی۔ اسی طرح کی متعدد وجوہات کی بناء پر دنیا بھر میں سائیکل سواروں کو بہتر انتظامی ڈھانچہ فراہم کرنے کے لیے سرمایہ کاری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا اور بہت سے یورپی شہروں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی سوچ گاڑیوں کے لیے سڑکیں بنانے سے ہٹ گئی تھی، جو بعد میں اس احساس کے ساتھ تبدیل ہوئی کہ گاڑیوں کے سا تھ سائیکل سواروں کے لیے الگ ٹریک بنائے جائیں ، جو اتنے چوڑے ہوں گے کہ ایک وقت میں دو سائیکلیں ساتھ ساتھ چل سکیں۔ ان راستوں کی واضح نشان دہی ہو، سطح ہموار اور ٹریفک کے علیحدہ نشان اور لائٹیں لگائی جائیں گی۔ جب کہ کچھ شہروں میں سائیکل سواروں کے لیے سڑکیں گاڑیوں کی سڑکوں سے بالکل علیحدہ بھی بنائی گیں۔ جہاں جگہ کی کمی تھی اور دونوں سواریوں کو سانجھی سڑک ملی وہاں ایک نشان بنایا گیا، جس میں سائیکل سوار آگے اور گاڑی پیچھے تھی۔ اس نشان پر لکھا ہواتھا کہ ’’سڑکیں سائیکلوں کے لیے ہیں،گاڑیاں تو صرف مہمان ہیں‘‘۔آج ترقی یافتہ ممالک میں گول چکروں پر بھی سائیکل سواروں کو ترجیح حاصل ہو چکی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ گول چکر کے گرد بہت آرام سے سائیکل چلاتے ہو ئے نظر آتے ہیں اور گاڑیاں انتظار کرتی ہوئی ۔ ان ممالک میں سائیکل کو ترجیح حاصل ہونا سیاحوں کو عجیب سا لگتا ہے۔

یورپ اور امریکا میں اب تو بچے چلنے سے پہلے سائیکل سواری کی دنیا سے متعارف ہو رہے ہیں۔ نومولود بچے سائیکلوں کی خصوصی سیٹوں پر سفر کرتے ہیں اور موسمی حالات سے بچاؤ کے لیے ان سیٹوں پر ایک پردہ بھی لگا ہوتا ہے، اب تو والدین ان خصوصی سیٹوں پر بہت خرچا بھی کرنے لگے ہیں۔ ان ممالک میں سائیکلوں کے لیے چوڑے اور محفوظ راستوں کی بدولت بچے بہت جلد  اپنی سائیکلیں چلانا شروع کر دیتے ہیں جب کہ نگرانی کے لیے والدین ان کے ساتھ پیدل چل سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں اٹھارہ سال تک بغیر نگرانی کے گاڑی چلانے کی اجازت نہیں اسی لیے بھی سائیکل کی سواری اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کے لیے آزادی کا متبادل بن جاتی ہے۔  سائیکل سواری کو نوجوانوں میں مقبول بنانے کے لیے بعض ریاست نے بھی اپنا کردار اداکیا۔ سکولوں کے نصاب میں سائیکل سواری کو شامل کیا،جس سے سکول آنے جانے کے لیے سائیکل سوار کی عزت افزائی ہوئی ، سکولوں میں سائیکل اسٹینڈ بنائے گئے اوراس کے بعد آج یورپ میں نوے فی صد طالب علم سائیکل پر ہی سکول آتے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ یورپ میں سائیکلوں کی پارکنگ کے لیے ہر جگہ اسٹینڈ موجود ہیں،  دفاتر ، بازاروں اور دکانوں کے قریب اسٹینڈ بنائے گئے ہیںاور سائیکل سواروں سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی سائیکل ان مخصوص جگہوں پر ہی کھڑی کریںگے اور اگر کسی نے غلط جگہ پر سائیکل کھڑی کر دی تو اسے اپنی سائیکل سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھونے پڑیں گے یا پھر  سائیکل دوبارہ حاصل کرنے کے لیے پچیس یورو تک کا جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ فلیٹوں میں رہنے والوں کے لیے سائیکل کھڑی کرنے کی کوئی مخصوص جگہ نہیں ہوتی لیکن وہ عمارت کے اجتماعی استعمال کی جگہ پر اپنی اپنی سائیکل کھڑی کر سکتے ہیں۔ سائیکل سواری چند لوگوں کی روز مرہ زندگی کا اتنا اہم حصہ ہے کہ وہ یہاں لوگ جدید ترین سائیکل یا آلات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ وہ اپنی سائیکل کو ایسا ساتھی سمجھتے ہیں جس پر وہ اعتماد کر سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ بھی ہے، جتنی پرانی سائیکل، اتنی بہتر اور معتبر سمجھی جاتی ہے۔ اکثر پیچھے سے آتی ہوئی سائیکل کے مڈ گارڈ پہیوں سے ٹکراتے سنائی دیتے ہیں، مگر کوئی پرواہ نہیں کرتا، جتنی پرانی سائیکل اتنا بہتر اتنی ہی طویل محبت کی علامت ۔ وہ دفتر جا رہے ہوں یا دوستوں سے ملنے، سفر سائیکل پر ہی ہوتا ہے اور وہ کپڑے بھی وہی پہنتے ہیں جو ان کے خیال میں ان کی منزل کے لیے مناسب ہوں۔

یورپ اور امریکا میں سائیکل سوار ہیلمٹ پہننے کے عادی نہیں تھے مگر اب کئی ایک ممالک میں یہ ضروری ہو گیا ہے ۔ دوسری جانب گاڑیاں چلانے والے بھی سڑک پر سائیکل سواروں کا خیال رکھتے ہیں۔ مگر ریاستی قوانین اس کے بدلے سائیکل سواروں سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی سڑک کے قوانین کا احترام کریں گے۔ اشارہ توڑنے، غیر ذمہ دارانہ انداز میں سائیکل چلانے یا غلط راستے پر چلانے کی وجہ سے جرمانہ ہو سکتا ہے۔ رات کو سائیکل پر لائٹیں نہ ہونے کی صورت میں سائیکل سوار پولیس اہل کار آپ کو ساٹھ  یورو کا جرمانہ کر سکتا ہے۔ قوانین کے تحت سائیکل پر روشنی کے ’’ریفلیکٹرز‘‘ نہ ہونے کی صورت میں جرمانہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ جب سائیکل سوار خود کو محفوظ محسوس کرتے ہوںتو ایسے میں سائیکل کی سواری اور بھی پر لطف ہو جاتی ہے۔

برطانیہ میں سائیکل سواری کا مستقبل:

برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی خواہش ہے کہ ملک میں سائیکل سواری کے شعبے میں انقلاب آنا چاہیے ۔ اس مقصد کے لیے برطانوی حکومت نے سائیکل سواری کے فروغ کے لیے تقریباً دس ارب روپے مالیت کے برابر امدادی رقم مختص کر دی ہے ۔ جوبرطانیہ کے مختلف شہروں اور پارکوں میں تقسیم کی جائے گی۔مانچسٹر، لیڈز، برمنگھم، نیو کاسل، برسٹل، کیمبرج، آکسفورڈ اور ناروچ77 ملین پاؤنڈ کی رقم آپس میں بانٹ کر استعمال کریں گے جب کہ ملک کے چار نیشنل پارکس کے لیے سترہ ملین کی رقم الگ سے مہیا کی جائے گی۔اس رقم سے موجودہ اور نئے سائیکل روٹ بنائے جائیں گے۔ حکومت نے حکومتی سرخ فیتے کو سائیکل سواری کے فروغ کے معاملے میں کم کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے ۔

دوسری جانب برطانوی لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں سڑکیں سائیکل سواری کے لیے غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ ’اولمپکس، پیرا اولمپکس اور ٹور ڈی فرانس میں برطانوی سائیکل سواروں کی کامیابی کے بعد سے سائیکل سواری میں برطانیہ بہت بہتر جا رہا ہے اور ہم اسے مزید اوپر لے کر جانا چاہتے ہیں۔مانچسٹر شہر کو اس مد میں20 ملین ملیں گے جس سے شہر میں تیس میل لمبی سائیکل لینزبنیںگی اور شہر میں بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار کے زون بھی بنیں گے۔نیشنل پارکس جنہیں اس امداد میں سے حصہ ملے گا ان میں نیو فرسٹ، پیک ڈسٹرکٹ، ساؤتھ ڈاؤنز اور ڈارٹمور شامل ہیں۔حکومت نے لندن سے برمنگھم اور وہاں سے لیڈز اور مانچسٹر تک سائیکل سواری کے لیے خصوصی راستے تیار کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے جو تیز رفتار ایچ ایس ٹو ٹرین لائن کے روٹ پر بنے گا،اس کے لیے فیزیبلٹی جائزے کا بھی اعلان کیا گیاہے۔برطانوی وزراء ملک بھر میں سائیکل سواری کی بڑھتی مقبولیت کو لندن میں دکھانا چاہتے ہیں جہاں ایک اندازے کے مطابق سائیکل سواروں کی تعداد گزشتہ سالوں میں دو گنا ہو چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔