سونا: ستاروں کے ٹکراؤکا نتیجہ

سید بابر علی  اتوار 18 اگست 2013
سونا ایک ایسی دھات ہے جس کی قدو ر قیمت بنی نوع انسان کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ فوٹو: فائل

سونا ایک ایسی دھات ہے جس کی قدو ر قیمت بنی نوع انسان کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ فوٹو: فائل

سونا ایک ایسی دھات ہے جس کی قدو ر قیمت بنی نوع انسان کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ ہزاروں لوگوں نے سونا بنانے یا اسے تلاش کرنے میں اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال جنگلوں، بیابانوں میں خاک اڑاتے گذار دیے۔

پیلے رنگ کی اس قیمتی دھات کو کہیں دیوی دیوتائوں سے اظہار عقیدت کے لیے چڑھاوے چڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو کہیں اسے سکو ں کی شکل میں ڈھال کر بطور کرنسی استعمال کیا گیا ہے۔ مصری بادشاہوں نے اسے تاج اور ممیاں بنانے میں استعمال کیا ہے۔ زمانۂ قدیم سے ہی ہر قوم اس قیمتی دھات کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے اپنے اپنے طریقے سے استعمال کرتی چلی آرہی ہے۔ آج تک جتنی بھی اقوام گزری ہیں ان سب کے خیالات سونے کے بارے میں ایک ہی رہے ہیں۔ خواتین کی تو زندگی کا محور ہی سونے اور اس سے بنے زیورات ہیں۔ شادی بیاہ ہو یا کوئی اور تقریب آج بھی تحفہ دینے کے لیے سونے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

سونا وہ واحد دھات ہے جو ازل سے دنیا کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی چلی آرہی ہے۔ سونا حاصل کرنے کی اس دوڑ میں صرف عوام ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر ملک شامل ہے جو معاشی ترقی کے لیے سونے کے زیادہ سے زیادہ ذخائر رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سرمایہ کاری کے مقصد کے لیے متعارف کرائے گئے ’’بلین کوئنز‘‘ کاغذ سے بنی کرنسی نہیں بلکہ 24قیراط خالص سونے سے بنا ٹکڑا ہے۔

دنیا کی سب سے طاقت ور کرنسی کی قدر و قیمت بھی اس پیلے رنگ کی دھات سے مشروط ہے۔ اگر تمام ممالک نے سونے کے ذخائر بڑھانا شروع کردیے تو پھر ڈالر، یورو، پائونڈ یا دیگر کرنسیاں اپنی قدر و قیمت کھو دیں گی۔ اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک سونے کو بہ حیثیت کرنسی استعمال کرنے کے مخالف ہیں۔دوسری جانب اچھا برقی موصل اور لچک دار ہونے کی وجہ سے سونے کو صنعتی اور برقی مصنوعات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جوڑوں کے درد، تپ دق اور دافع سوزش ادویات میں بھی سونے کا استعمال عام سی بات ہے لیکن یہ بات آج تک معمہ ہی کہ سونا بنتا کس طرح ہے یا اس کا ماخذ کیا ہے اور یقیناً یہ بات ہمارے قارئین کے لیے نہایت دل چسپی کا باعث ہوگی کہ سونا خلا میں ہونے والے ستاروں کے تباہ کن ٹکرائو کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دھات ہے۔

ہارورڈ اسمتھ سن سینٹر فار آسٹرو فزکس کے محققین نے کہا ہے کہ دنیا میں پایا جانے والا سونا درحقیقت  ستاروں کے آپس میں ٹکرانے اور ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دھات ہے۔

اس حوالے سے ہارورڈ اسمتھ سن سینٹر فار آسٹرو فزکس کے محقق ایڈو برجر کا کہنا ہے کہ ایک بہت مشہور کہاوت ہے کہ ’’ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی‘‘ لیکن دنیا میں موجود سارا سونا ایک چمک کا ہی نتیجہ ہے اور یہ خلا میں ہونے والے ایسے فلکیاتی واقعات سے ہوا ہے جو بے تحاشا ہائی انرجی روشنی پیدا کرتے ہیں اس روشنی کو ہم نے ’’سونے کی چمک‘‘ کا نام دیا ہے۔

برجر نے بتایا کہ طویل تحقیق کے بعد ہمیں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ سونا خلا میں نیوٹرون ستاروں کے ٹکرائو اور پھر آپس میں ضم ہونے کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔ برجر کے مطابق ہماری کہکشاں میں ان ستاروں کا ٹکرائو 10ہزار سال میں ایک بار ہی ہوتا ہے جب کہ دوسرے عام ستارے تقریباً ہر ایک صدی بعد ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔

ہم اس تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تمام سونے کا حساب کر سکتے ہیں۔ نیوٹرون ستارے دراصل بڑے ستاروں کے مردہ اجسام ہوتے ہیں جو وزن میں سورج سے تقریباً ڈیڑھ گنا بھاری ہوتے ہیں اور یہی نیوٹرون ستارے اس تصادم اور ہائی انرجی روشنی کے ذمہ دار ہیں جن کا مشاہدہ برجر اور ان کی ٹیم نے کیا۔

جب یہ دو ستارے مدار میں ایک دوسرے سے تیزرفتاری سے ٹکراتے ہیں تو ایک بلیک ہول کو جنم دیتے ہیں۔ ٹکرائو کے بعد ملاپ سے ان نیوٹرون ستاروں کا مرکب بہت بھاری ہوجاتا ہے اور وہ بلیک ہول میں گر جاتے ہیں۔ ان ستاروں کے ٹکرانے کی وجہ گریوی ٹیشنل (کثافت اضافی کی وجہ سے کھینچنا) ریڈی ایشن (تابکاری) ہے جو ان کے مدار میں موجود انرجی کو ختم کر دیتی ہے۔ ان میں سے ہر مردہ ستارہ ایک قوی ہیکل جوہری دم دار ستارے کے سر کی طرح ہے۔

ان دونوں کے ایک ساتھ روشنی کی رفتار سے قریبی ٹکرائو پر بہت بڑے پیمانے پر ہونے والی آتش بازی (فائر ورک) کی توقع کر سکتے ہیں۔

برجر او ر ان کی ٹیم نے اپنی تحقیق میں مختصر مدت کے لیے ہونے والے گاما ریز برسٹ کا مشاہدہ کیا۔ GRB130603B کے نام سے شناخت کی گئی ان شعاعوں کی معلومات رواں سال جون میں ناسا کی سوئفٹ ایکسرے ٹیلی اسکوپ سیٹلائٹ نے دی تھیں۔ برجر اور ان کی ٹیم کو یقین تھا کہ یہ شعاعیں نیوٹرون ستاروں کے ٹکرائو سے پیدا ہوئی تھیں۔ برجر کے مطابق اس گاما ریز برسٹ سے ہائی انرجی روشنی کی ایک چمک پیدا ہوئی۔ یہ چمک ایک سیکنڈ کے دو دہائی حصے کے لیے پیدا ہوئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اسے ’’مختصر مدت‘‘ تصور کیا گیا تھا۔

یہ برسٹ زمین سے3.9ارب نوری سال (ایک نوری سال تقریباً 5.9 کھرب میل پر محیط ہوتا ہے ) کے فاصلے پر ہوا۔ گر چہ یہ بہت دور تھا لیکن سائنس دانوں کو نظر آنے والا یہ سب سے قریبی ’’گاما ریز برسٹ‘‘ تھا۔

اس گاما ریز برسٹ نے اپنے پیچھے روشنی کی ایک لہر چھوڑ دی جس کے ساتھ انفرا ریڈ ریز (زیریں سرخ شعاعیں) کی نمایاں مقدار شامل تھی۔ سائنس دانوں کے مطابق ٹکرائو کے بعد نیوٹرون ستاروں کے ملاپ سے ایک جوہری عنصر پیدا ہوا اور اس جوہری عنصر کے مرجھانے کے بعد اس سے ایک مادہ خارج ہوا۔ اور یہ مادہ ہی خالص سونا تھا۔

برجر کے مطابق اس بات کے امکانات بھی موجود تھے کہ وہ زیریں سرخ روشنی جس کا ہم نے پتا لگایا تھا وہ جوہری مادے کے مرجھانے کا نتیجہ نہ ہو اور وہ گاما ریز برسٹ کے ساتھ پیدا ہونے والی دوسری مختلف روشنی ہو۔

برجر نے بتایا ہمیں اس بات کا سو فیصد یقین نہیں تھا کہ اس فلکیاتی تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والا مادہ سونا ہی ہے، کیوںکہ بظاہر یہ ماننا مشکل تھا کہ سونا اس طرح پیدا ہوسکتا ہے۔ کائنات میں سونے کے کچھ ٹکڑوں میں فلکیاتی عوامل کا حصہ ہو سکتا ہے، لیکن مزید تحقیق سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ ہماری کائنات میں سونا پیدا کرنے میں نیوٹرون ستاروں کے ٹکرائو کے بعد ملاپ کا زبردست میکانزم (میکانی) کارفرما ہے۔ اور ہمیں یقین ہے کہ نیوٹرون ستاروں کے ملاپ کے بعد نکلنے والا مادہ سونا ہے بہت سارا سونا۔

برجر نے بتایا کہ ہمارے اندازے کے مطابق دو نیوٹرون سیاروں کے ٹکرائو کے بعد ملاپ سے 10چاند کے حجم کے برابر سونا پیدا اور خارج ہوتا ہے۔ اور اگر ہم آج کے مارکیٹ ریٹ کے حساب سے اس سونے کی قیمت کا تعین کریں تو 10 آکٹیلین ( 10ہزار کھرب) ڈالر بنتی ہے۔

اس بارے میں تحقیق کرنے والے سائنس داں ووسلے کا کہنا ہے کہ سونے کے علاوہ پلاٹینیم اور یورینیم جیسی دھاتیں بھی ٹکرائو کے طریقۂ کار سے بنتی ہیں۔ یہ تمام عنصر ستاروں کے درمیان گھومتے رہتے ہیں اور آخر کار ہمارے سورج کی طرح کے دوسرے ستاروں کی تشکیل میں ان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہماری انگوٹھیوں میں استعمال ہونے والا سونا اور پلاٹینیم، بموں اور جوہری ری ایکٹرز میں استعمال ہونے والا یورینیم ان ہی نیوٹرون اسٹارز کے چھوٹے ٹکڑے ہیں جو ہماری کہکشاں میں سورج کی تشکیل سے بھی پہلے ملے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ جب زمین کی تشکیل ہوئی اس وقت یہاں سونا موجود نہیں تھا۔ لیکن ہم کان کنی کر کے زمین سے ہی سونا نکالتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سونا بعد میں زمین پر گرنے والے شہاب ثاقب کی وجہ سے آیا ہے۔ 2011میں سائنسی جریدے ’’دی جرنل نیچر‘‘ کی جانب سے کی گئی ایک اسٹڈی بھی اس بات کو گواہی دیتی ہے کہ تشکیل کے وقت زمین پر پلاٹینیم، سونا اور یورینیم جیسی دھاتوں کا وجود نہیں تھا۔

اس مطالعے کے مطابق زمین کی تشکیل کے تقریباً20کروڑ سال بعد زمین پر شہاب ثاقب کی بارش ہوئی تھی اور یہ شہاب ثاقب اپنے ساتھ سونا، پلاٹینیم اور یورینیم جیسی دھاتیں بھی لا ئے تھے۔

جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار آسٹروفزکس کے سائنس داں ہینس تھوماس جانکا کا کہنا ہے کہ ہارورڈ ٹیم نے وہ’’اسموک گن‘‘ دریافت کرلی ہے، جس سے ہماری کائنات کا سب سے پرانا معما حل ہوسکتا ہے کہ زمین پر پائے جانے والے پلاٹینیم، سونا اور دیگر بھاری دھاتوں کے بننے میں کس چیز کا عمل دخل ہے۔ تاہم گاما ریز برسٹ کے نتائج صرف ایک مشاہدے پر ہیں۔ برجر اور ان کی ٹیم کو یہ بات اعتماد کے ساتھ ثابت کرنے کے لیے کہ سونا نیوٹرون ستاروں کے ٹکرائو اور ملاپ سے پیدا ہو تا ہے۔ مزید چند سال اس طرح کے بلاسٹ کا مشاہدہ ضروری کرنا ہوگا۔

گذشتہ ایک دہائی میں سونے کی کھپت سب سے زیادہ 2011 میں رہی۔ اس سال مجموعی طور پر4ہزار 88ٹن سونا استعمال کیا گیا، جب کہ زیورات بنانے کے لیے سب زیادہ سونا2000 میں استعمال کیا گیا۔ اس سال 3ہزار204ٹن سونے کے زیورات بنائے گئے۔ اسی عرصے میں معاشی مقاصد کے لیے 2009میں617ٹن سونا محفوظ کیا گیا۔

اور ہمیں امید ہے کہ اب جب بھی آپ سونے کی انگوٹھی پہنیں گے تو آپ کو پتا ہوگا کہ یہ سونا اس زمین کا نہیں بلکہ فلک پار کہکشائوں میں ہونے والے تباہ کن تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ایک دھات ہے۔

سونے کے بارے میں دل چسپ حقائق:

امریکا میں ہر سال جوڑوں کے درد اور تپ دق میں مبتلا ہزاروں مریضوں کو سونے کے انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ اس طریقۂ علاج میں سونے کو کیمیائی طریقے سے مائع میں تبدیل کرکے پٹھوں میں بذریعہ انجکشن لگایا جاتا ہے۔

سونا کیمیائی طور پر بے عمل ہے، سونے کو کبھی زنگ نہیں لگتا اور نہ ہی یہ جلد پر سوزش پیدا کرتا ہے۔ اگر سونے کے زیورات جلد پر جلن یا سوزش کریں تو اس کا مطلب ہے کہ ان میں کسی دوسری دھات کی ملاوٹ ہے۔

دنیا بھر میں اب تک تقریباً1لاکھ 68 ہزار میٹرک ٹن سونا نکالا جاچکا ہے۔

سطح زمین پر پائی جانے والی چٹانوں کے ہر ایک ارب ایٹم میں ایک ایٹم سونے کا ہے۔

سمندروں میں سونے کے بے تحاشا ذخائر موجود ہیں۔ یہ مقدار اب تک نکالے گئے سونے کی مقدار سے تقریباً 8گنا زیادہ ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق ہر کیوبک میل پر تقریباً2.5 ٹن سونا موجود ہے۔ تاہم اسے نکالنے کے لیے ہونے والے اخراجات اس سونے کی قیمت سے زیادہ ہیں۔

سونا انتہائی لچک دار دھات ہے۔ ایک اونس سونے کو کوٹ کر تقریباً 100 اسکوائر فٹ لمبی شیٹ بنائی جا سکتی ہے۔ یعنی ایک فٹ بال کے میدان کو مکمل طور پر ڈھکنے کے لیے 576اونس36)پائونڈ(سونے لگے گا۔

دنیا کا تقریباً 40 فیصد سونا جنوبی افریقا کی چٹانوں سے نکالا گیا ہے۔

خلا بازوں کے ہیلمٹ پر سونے کی ایک شفاف پتلی تہہ چڑھائی جاتی ہے ۔ 0.00005ملی میٹر باریک یہ تہہ انہیں سورج سے آنے والی حرارت اور چمک سے بچاتی ہے۔

ہر سال فراہم کیے جانے والے سونے کا 78فیصد حصہ زیورات،12فیصد برقی آلات، طب اور دانتوں، جب کہ بقیہ 10 فیصد سونا معاشی لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بھارت دنیا بھر میں سونے کا سب سے بڑا صارف ہے۔

دنیا میں معاشی مقصد کے لیے جمع کیے گئے سونے کا سب سے بڑا ذخیرہ فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک کے پاس ہے، جس کی مالیت تقریباً 147ارب ڈالر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔