تیس سال بعد ایک خفیہ دستاویز کا احوال

غلام محی الدین  اتوار 18 اگست 2013
دستاویز میں ملکہ برطانیہ کا اپنی قوم کے نام اس خطاب کا متن سامنے آیا ہے۔ فوٹو: فائل

دستاویز میں ملکہ برطانیہ کا اپنی قوم کے نام اس خطاب کا متن سامنے آیا ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: برطانوی حکومت نے حال ہی میں یکم اگست 2013 کو 30 سال بعد سرکاری معلومات پر مبنی ایک خفیہ دستاویز کو قانون کے تحت عام کیا ہے۔

دستاویز میں ملکہ برطانیہ کا اپنی قوم کے نام اس خطاب کا متن سامنے آیا ہے جو ملکہ نے 1983 میں  تیسری  ایٹمی جنگ کی صورت میں تقریر کی صورت میں پڑھنا تھا تاکہ برطانوی قوم متحد اور پرعزم رہتی۔ ملکہ کی تلقین پر مبنی یہ فرضی تحریری خطاب گو کہ آج ماضی کا حصہ بن چکا ہے لیکن اس خطاب کا متن ہمارے ہولناک مستقبل کی طرف  اشارہ ضرور کرتا ہے، جہاں آگ اور خون کی ہو لی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ملکہ برطانیہ کا یہ فرضی خطاب  شاید اس وقت کی بین الاقوامی جنگی مشقوں، مغرب اور امریکا میں بننے والی جنگی فلموں کو سامنے رکھ کر لکھا گیا تھا، جب دنیا میں سرد سے گرم جنگ اور دائیں اور بائیں بازو کے بحث و مباحثے عروج پر تھے۔

اس زمانے میں  ہر وقت یہ ہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ تیسری عالمی جنگ آج ہوئی یا کل۔ اس زمانے میں سوویت یونین اور اس کے وارسا پیکٹ کے اتحادی افواج کے بلاک کی نمائندگی نارنجی رنگ  سے کی جاتی جب کہ نیلے رنگ کی فوج نیٹو کی نمائندگی کیا کرتی تھی۔ ان مشقوں کے دوران دکھایا جاتا کہ جب نارنجی فوج برطانیہ پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کرتی ہے تو نیلی فوج جوابی حملے میں محدود پیمانے پر ایٹمی ہتھیار استعمال کرکے نارنجی فوج کو مصالحتی عمل شروع کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ یہ مشقیں اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھیں جب اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے سوویت یونین کو ’’شیطانی ریاست‘‘ قرار دے دیا تھا۔

برطانوی وائٹ ہال کے حکام کی طرف سے سرد جنگ کے مشکل ترین زمانے میں تیار کردہ اس تقریر کا مسودہ نہ تو کبھی ریکارڈ ہوا اورنہ ہی نشر۔ یہ تقریر 1983 کے موسمِ بہار میں جنگی مشقوں کے حصے کے طور پرتیار کی گئی تھی۔ اس فرضی تقریر میں ملکہ نے اس اپنے ملک کو بہادر اوردرپیش خطرے کو تاریخی قرار دیا تھا۔برٹش حکومت نے اس دستاویز کو 30 سال بعد سرکاری معلومات عام کرنے کے قانون کے تحت کو عوامی سطح پر جاری کر دیا ہے۔اس خطاب کو پڑھنے والے کہتے ہیں’’ اگرچہ یہ صرف ایک مشق تھی لیکن ملکہ کے خطاب کو اس طرح لکھا گیا تھا کہ یہ جمعہ چار مارچ 1989 کی دوپہر کو نشر ہو گا‘‘۔ دراصل اس خطاب  کے ذریعے برطانوی قوم کو تیسری عالمی جنگ کے دوران پیش آنے والی شدید مشکلات کے لیے تیار کرنا تھا۔ملکہ برطانیہ کے اس فرضی تقریری مسودے کے متن میں کیا لکھا ہے، آئیے دیکھتے ہیں۔

’’جنگ کا پاگل پن اب دنیا میں مزید پھیل رہا ہے اور ہمارے بہادر ملک کو ایک بار پھر شدید مسائل کا سامنا کرنے کے لیے ضرور تیاری کرنی چاہیے‘‘۔ خطاب میں مزید کہا گیا: ’’مجھے آج تک  وہ افسوس ناک مگر قابلِ فخر دن نہیں بھولا جب 1939 میں دوسری جنگِ عظیم کے آغاز پر میں اور میری بہن ریڈیو پر اپنے والد جارج ہشتم کی پرجوش تقریر سن رہی تھیں، میں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن یہ سنگین اور خوفناک ذمے داری مجھے نبھانی پڑے گی۔ آج ہمیں دہشت کا سامنا ہے، جن خصوصیات کی بدولت ہم نے اس اداس صدی میں دو دفعہ اپنی آزادی کو قائم رکھا، آج  وہی اقدار ایک بار پھر ہماری طاقت ہوں گی‘‘۔

خطاب میں ایک ذاتی بات کرتے ہوئے  یہ بھی کہا گیا ’’میں اور میرے شوہر ملک کے ان تمام خاندانوں سے مکمل ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کے خدشات میں شریک ہیں جن کے بیٹے،بیٹیاں،بہن، بھائی اور شوہر ملک کی خدمت میں مصروف ہیں، میرا پیارا بیٹا اینڈریو بھی اس وقت اپنے یونٹ کے ساتھ میدانِ جنگ میں ہے۔ ہم ملک کے اندر اور باہر فوجی خدمات دینے والے تمام مرد و خواتین کی حفاظت کے لیے مسلسل دعاگو ہیں‘‘۔ ملکہ کے خطاب کی ایک لائن یہ بھی تھی کہ’’اگر خاندانوں کی سطح پر متحداور پرعزم رہا گیا اور غیر محفوظ اور اکیلے رہنے والوں کو پناہ دینے کا عمل جاری رہا تو ہمارے جینے کے حوصلے کو کبھی مات نہیں دی جا سکتی‘‘۔ فرضی تقریر میں کہا گیا کہ ’’آج جب ہم ایک نئے شیطان(روس) کے خلاف برسرِپیکار ہیں، آئیے ہم اپنے ملک اور اچھے ارادے رکھنے والے ایسے تمام افراد کے لیے جو چاہے کہیں بھی ہوں دعا کریں، خدا آپ کا حامی و ناصر ہو‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔