حویلی منگل سنگھ کی سیر

ذیشان یعقوب  جمعرات 18 اپريل 2019
حویلی منگل سنگھ کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں نام کے سوا کچھ نہیںملتا۔ (تصاویر: بلاگر)

حویلی منگل سنگھ کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں نام کے سوا کچھ نہیںملتا۔ (تصاویر: بلاگر)

حویلی منگل سنگھ گوجرانوالہ شہر کے مغرب میں تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود گاؤں (کوٹ شیرا) میں واقع ہے۔ یہ حویلی ’منگل سنگھ‘ کی ملکیت تھی جسے انگریز حکومت نے مجسٹریٹ کی اہمیت دے رکھی تھی۔

آس پاس کے تقریباً 21 گاؤں میں منگل سنگھ کی چوہدراہٹ قائم تھی۔ منگل سنگھ ہفتہ وار پنچایت میں جزا و سزا کے فیصلے سنایا کرتا تھا۔ جزا کے بارے میں تو بہت سی لوک کتھائیں مشہور ہیں۔ البتہ سزا کےلیے اس نے بٹالہ چنڈا سنگھ میں ایک جیل نما عمارت تعمیر کروا رکھی تھی۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ عمارت چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل تھی، جس میں مجرموں کو سزا دی جاتی تھی۔ اب اُس جیل کو مسمار کرکے وہاں اسکول بنادیا گیا ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق منگل سنگھ ایک بہت ہی نفیس اور رحمدل شخص تھا۔ جب کبھی وہ گشت پر نکلتا تو گھوڑے کے بجائے پیدل سفر کرنے کو ترجیح دیتا۔ انصاف کا ایسا ماحول قائم کر رکھا تھا کہ ہندو، سکھ اور مسلم سب ایک جگہ اکٹھے رہتے تھے۔

طویل عرصے سے ہم اُس حویلی کو دیکھنے کی چاہ میں کوشش کررہے تھے کہ اچانک کالج کے ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو کہ کوٹ شیرا کے شریک گاؤں کا رہائشی تھا۔ جب ہم نے اس دوست سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو معلوم ہوا کہ عدنان جو ہمارا بی۔اے میں ہم جماعت تھا، وہ اسی گاؤں کا رہائشی ہے اور حویلی کے بارے میں کافی معلومات رکھتا ہے۔ ہم نے اس سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اُس حویلی میں اب بہت سے خاندان آباد ہیں۔ اس لیے ہم نے منہ اٹھا کر جانا مناسب نہیں سمجھا اور اس سے وقت اور دن کا تعین کیا۔

مقررہ دن جب ہم نے حویلی کی طرف سفر شروع کیا تو میرے ساتھ 3 نہایت ہی شفیق دوست تھے۔ اگر کوئی ایسی جگہ ہوتی جہاں جانا میرے لیے آسان ہوتا تو شاید میں اتنا لائو لشکر لے کر کبھی نہ جاتا۔

مقررہ دن کی گزشتہ رات تیز بارش ہونے کی وجہ سے سارا راستہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ راستے کی یہ حالت دیکھ کر ہمارے ایک دوست نے منصوبہ ختم کرنے کا مشورہ دیا اور پانی کو وجہ بنانا چاہا۔ مگر شوق نے ایک نہ سننے دی۔ اور پانی کو چیرتے ہوئے ہم کوٹ شیرا پہنچ گئے۔

دوست کو فون کیا تو وہ کسی بچے نے اٹھایا اور ہنستے کھیلتے ہمارے حوصلے پست کرتا رہا۔ تقریباً کوئی دس فون کرنے کے بعد ہمارے ایک دوست نے کسی سے پوچھا کہ اس گاؤں میں کوئی عدنان گجر رہتا ہے، جو فلاں فلاں کالج میں پڑھتا تھا، ہم اُس کے ساتھ کالج میں پڑھتے تھے اور آج ملنے آئے ہیں، مگر اُس سے رابطہ نہیں ہوپا رہا، مہربانی فرما کر ہمیں اس کا پتہ بتادیں تاکہ ہم اس سے مل لیں۔ وہ آدمی نہایت ہی نفیس تھا۔ ہماری بات سن کر ایک بچہ ہمارے ساتھ کیا۔ ہم اُس بچے کی رہنمائی میں عدنان کی حویلی تک پہنچ گئے۔

کچھ دیر کے انتظار کے بعد عدنان ہنستا ہوا اپنی حویلی سے باہر نکلا۔ بھرپور استقبال کے بعد حویلی کا قصہ چھڑ گیا۔ علم ہوا کہ حویلی کی زیادہ تر ملکیت اب اس کے خاندان والوں کی تھی۔

ہم بڑے سپنے سجائے فلمی مہاراجائوں کی حویلی کا تخیل کرتے ہوئے حویلی منگل سنگھ کو دیکھنے کی چاہ میں نکل پڑے۔ راستے میں ہم نے جس بھی گلی کا رخ کیا، اس میں ایک ہی عمارت سب سے اونچی نظر آتی تھی جو کہ حویلی کی چھت کی خوبصورتی دکھاتی تھی، جس پر اب کبوتروں کا کھوڈا (جنگلہ) بنایا گیا تھا۔ حویلی کی چھت کا نظارہ بہت خوبصورت تھا، جیسے پانی کی تہہ میں موجود سرخ پتھروں پر پڑتی سورج کی روشنی۔ اس نظارے کے بعد بے قراری بڑھی اور رفتار تیز ہوگئی۔

جس راستے سے ہم حویلی کے اندر داخل ہوئے وہ شاید کبھی پیچھے کا راستہ رہا ہوگا، کیونکہ ایک چھوٹا سا دروازہ تھا جو حویلی کی باقی ماندہ ساخت سے بالکل بھی میل نہیں کھاتا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی معمار کی کاریگری نے منہ سے اپنی تعریف کروا لی۔ سیڑھیاں نہایت ہی عمدہ طریقے سے بنائی گئی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے قدم اور آخر میں بیار کی لکڑی کا استعمال کیا گیا تھا جو پتھر کو رگڑ سے بچانے کےلیے لگائی گئی تھی۔ ایک صدی کے بعد بھی اُس لکڑی کا کچھ نہیں بگڑا۔

جب ہم سیڑھیاں چڑھ کر اُوپر گئے تو ایک دم ماحول بدل سا گیا۔ وہ چھوٹا سا راستہ اب کسی کھلے میدان کی طرح ہوگیا تھا۔ ہم حویلی کی پہلی منزل پر موجود تھے۔ ہمارے پاؤں کے نیچے اینٹوں کا پکا سول بچھا ہوا تھا، جو بالکل ہموار تھا۔ اس منزل پر حویلی کے کوئی 25 کمرے حقیقی طور پر رہے ہوں گے، جسے بعد میں زیاد کمروں میں تبدیل کردیا گیا۔ ہر کمرے کے ساتھ ایک چھوٹا سا صحن، بیت الخلا و غسل خانہ اور ایک بڑا سا خاندان رہائش پذیر تھا۔ ہم تقریباً 30 فٹ کی بلندی پر موجود تھے اور ہمارے اوپر کی چھت بھی کوئی 30 فٹ کی بلندی پر ہوگی۔ شہتیروں کی جگہ لوہے کے گارڈر استعمال کیے گئے تھے اور لکڑی کے بالوں کی جگہ اینٹوں کو مخروطی شکل میں لگایا گیا تھا، جس کی وجہ سے اس کی مضبوطی اور زیادہ ہوگئی تھی۔ ہم ایک کمرے سے ہوتے ہوئے دوسرے کمرے میں جارہے تھے۔ کچھ کمروں کو دیکھنے کی اجازت نہ ملی اور نہ ہم نے اصرار کیا، کیونکہ کوئی بڑا اس وقت گھر پر موجود نہ تھا۔

کمروں کی دیواروں اور دروازوں پر مختلف اشعار اور اقوال لکھے ہوئے تھے۔ معلوم کرنے پر عدنان نے بتایا کہ ایک اسکول والوں نے اس جگہ کو کرائے پر لیا تھا اور چند ماہ اس میں تدریسی عمل جاری رکھا، بعد میں بچوں اور اساتذہ کی شکایت کی وجہ سے یہ حویلی چھوڑنا پڑی۔

مقامی لوگوں کے مطابق یہ حویلی آسیب زدہ بھی ہے، جس پر کچھ لوگ یقین رکھتے ہیں اور کچھ اسے بس افوہ مانتے ہیں تاکہ حویلی کو سستے داموں میں خرید لیا جائے۔

اچانک میری نظر ایک کمرے کے دروازے پر پڑی جس میں تالہ لگا ہوا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس تالے کو ایک طویل مدت سے نہیں کھولا گیا۔ تالے پر پڑے زنگ اور چٹخنی کی حالت نے مجھے پوچھنے پر مجبور کردیا کہ آخر اس کمرے میں لوگ کیوں نہیں آباد اور یہ ہی کمرہ کیوں اپنی اصل حالت میں ٹوٹا پھوٹا ہوا پڑا تھا، جہاں کوڑا کرکٹ کا ایک انبار لگا ہوا تھا۔

عدنان نے بتایا کہ اس کمرے میں کوئی نہیں جاتا، جس شخص کی یہ ملکیت ہے وہ خود بھی اس میں نہیں رہتا۔ اس کی بات میں ایک تشویش سی تھی، جس نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ مجھے اس کمرے کو اندر سے دیکھنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ اس کے منع کرنے کے باوجود میں چور راستے سے چپکے سے اندر چلا گیا۔ اندر جاتے ہی ایک عجیب سی سنسناہٹ محسوس ہوئی جو باقی حویلی سے بالکل جدا تھی۔

کمرے کی چھت پر جب نظر پڑی تو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی مجھے ہیپناٹائز کررہا ہو، ہلکی ہلکی سرسراہٹ سی محسوس ہونے لگی۔ اس کمرے میں باقی آوازیں بھی ماند پڑگئی تھیں اور کمرے میں سناٹا چھا گیا تھا۔ کمرے میں دو الماریاں تھی۔ ایک الماری کھولنے پر تیز آواز نکلی جس نے سناٹے کو چیر کر رکھ دیا۔ اچانک عدنان کی غصہ اور تشویش میں ڈوبی آواز آئی ’’اوے تم اندر کیوں گئے؟ جلدی نکلو باہر۔‘‘ میں فوراً اُسی راستے باہر نکل آیا جہاں سے اندر داخل ہوا تھا۔

اس کمرے کے ساتھ ہی ایک اور کمرہ نما جگہ تھی، جو کبھی منگل سنگھ کی سیڑھیوں کے نام سے جانی جاتی تھی، جسے آج تقریباً ایک کمرے کی شکل دے دی گئی ہے، جس میں ایندھن رکھا جاتا ہے۔ آج بھی وہاں لکڑی کی بنی ہوئی وہ سیڑھیاں موجود ہیں، جس کو منگل سنگھ بڑی شان سے استعمال کیا کرتا تھا۔ ان سیڑھیوں پر چلنے سے جو آواز آتی ہے اسے سنتے ہی خود میں ایک نوابی سی آجاتی ہے اور انسان خود کو منگل سنگھ سمجھنے لگتا ہے۔

سیڑھیوں کے قدمچوں پر نقاشی کے ذریعے پتھر جڑے ہوئے ہیں۔ وہ پتھر اس مہارت سے جڑے گئے ہیں جیسے وہ لکڑی کا حصہ ہی ہوں۔ آج وہ سیڑھیاں تو موجود ہیں مگر وہ کسی منزل کی طرف رہنمائی نہیں کرتیں۔ اُس سے منسلک جتنے بھی کمرے ہیں سب کو بند کردیا گیا ہے اور ایک اسٹور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی ایک خاص وجہ ہے کہ وہ سیڑھیاں آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔

پہلی منزل کا بغور جائزہ لینے کے بعد اب آخری منزل کی باری تھی۔ دوسری منزل کا راستہ انگور کی بیل کی طرح بل کھاتی سیڑھیوں سے شروع ہوا، جو ایک میدان نما چھت پر ختم ہوگیا۔ اس منزل پر کوئی دس کمرے موجود تھے جن میں مختلف خاندان آباد تھے۔ چھت پر بہت سے سوراخ موجود تھے، جن کو بند کردیا گیا تھا۔ یہ سوراخ نچلی منزل کے کمروں میں موجود آتش دانوں کے تھے۔ اس منزل کا دیہاتی طور پر بہت فائدہ اُٹھایا گیا ہے۔ گاؤں کی سب سے اُونچی چھت ہونے کی وجہ سے اس منزل پر کبوتروں کا ایک خود ساختہ کھوڈا (گھر) تعمیر کیا گیا ہے، جس میں اعلیٰ نسل کے کبوتر موجود تھے۔ سرخ حویلی کی چھت پر دودھ کی طرح سفید لقا کبوتر (کبوتر کی ایک نسل جس کی دم مور سے مشابہت رکھتی ہے) اپنی غٹرغوں کرتے نہایت ہی دلکش سماں باندھ رہے تھے۔ ہمارے جانے کی وجہ سے اُن کی مستی میں خلل پیدا ہوا اوروہ ایک دم اُڑنا شروع ہوگئے۔ پروں کی پھڑپھڑاہٹ نے تان سین کے راگوں کو بھی مات دے دی۔

اسی منزل پر عدنان کے چچا رہائش پذیر تھے، جن کی ملکیت میں حویلی کا بیشتر حصہ ہے۔ رسمی گفتگو کے بعد میں نے حویلی کی تاریخ کے بارے میں سوالات کرنے شروع کردیے، کیونکہ اب ہمیں جو حویلی نظر آ رہی تھی اُس کی کوئی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ شروع کہاں سے ہوتی ہے، اور کہاں ختم۔ اس حویلی کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں بس نام کے سوا کچھ نہیں۔ ہم صرف دیواروں کا موازنہ کررہے تھے۔

وہ بتاتے ہو ئے جھجک رہے تھے کہ کہیں کوئی ان کی حویلی کو آثارِ قدیمہ میں شامل نہ کرلے اور ان کی پشتینی حویلی چھن نہ جائے۔ ان سے سوالات کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ ان کے دادا تقسیمِ ہند کے وقت امرتسر سے چلے تھے، جو لاہور سے ہوتے ہوئے گوجرانوالہ میں پڑائو ڈالے ہوئے تھے۔ ان کی منزل لائل پور (موجودہ فیصل آباد) تھی، جہاں ان کے کچھ عزیز رہائش پذیر تھے۔

دورانِ سفر ان کو ایک حویلی نظر آئی، جو بے شمار درختوں میں چھپی ہوئی تھی۔ اس حویلی کے پانچ دروازے تھے اور اطراف میں مختلف پھلوں کے باغات تھے۔ باغات اتنے گھنے تھے کہ زمین پر کھڑے ہوکر حویلی نظر نہیں آتی تھی۔ حویلی کے ایک دروازے کے ساتھ والے کمرے میں تیل پر چلنے والا جنریٹر پڑا ہوا تھا، جس سے بجلی پوری حویلی میں سپلائی کی جاتی تھی۔ حویلی کی دیواروں پر آج بھی پرانی وائرنگ کے نشانات موجود ہیں۔

حویلی میں داخل ہونے پر اُن کو تباہی و بربادی اور قتل و غارت کا وہ دردناک منظر نظر آیا جو وہ راستے میں دیکھ کر آئے تھے۔ حویلی کو بہت برے طریقے سے جلایا گیا تھا۔ جلنے کے نشانات اور کالک کی چھاپ آج بھی کچھ دیواروں پر موجود ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق حویلی کی دیواروں پر خون کے نشانات بھی موجود تھے جن کو صاف کردیا گیا۔ ایک دو لاشوں کو بھی دفنا دیا گیا اور اس حویلی کو عارضی طور پر رہائش کے قابل بنایا گیا۔ کیوں کہ لائل پور کا سفر اس جگہ سے کوئی 150  کلو میٹر مسافت پر تھا، اس لیے اس حویلی کو ہی اپنا مسکن بنالیا گیا۔

شروع میں کوئی دس خاندان اس حویلی میں آباد ہوئے اور اپنے اپنے کمرے مخصوص کرلیے۔ آہستہ آہستہ آبادی بڑھتی گئی۔ آبادی کے ساتھ ساتھ کمرے بھی زیادہ ہوتے گئے۔ ضرورت کے مطابق ایک دروازے اور تھوڑی سی اینٹوں کی مدد سے ایک نیا کمرہ تعمیر کرلیا جاتا اور لو گ اس میں آباد ہوجاتے۔ آج بھی بہت سے خودساختہ کمرے جن کو باآسانی پہچانا جاسکتا ہے، موجود ہیں۔ جب مزید کمروں کی جگہ نہ رہی تو صحن کو کمرے کی شکل دے دی گئی اور دروازہ حویلی کی حدود کو پار کرگیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ حویلی کے اردگرد پورا گاؤں آباد ہوگیا۔

یہی ایک وجہ تھی جس کی بنا پر ہمیں حویلی کا مرکزی دروازہ نہ ملا۔ نجانے اب وہ کس کا کمرہ یا صحن ہوگا، یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذیشان یعقوب

ذیشان یعقوب

بلاگر نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے ابلاغِ عامّہ میں ماسٹرز کررہے ہیں جبکہ افسانہ نگاری کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ آپ کے افسانے مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں جبکہ آپ ذاتی بلاگ بھی چلاتے ہیں۔ عمومی معاشرتی مسائل کو جداگانہ انداز سے قارئین کے سامنے پیش کرنا آپ کو پسند ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔