موازنہ دو شاعروں کا اور دو ڈکٹیٹروں کا

انتظار حسین  اتوار 18 اگست 2013
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

اگر دو شاعروں کا موازنۂ انیس و دبیر اور موازنۂ سودا و میر ہو سکتا ہے تو دو ڈکٹیٹروں کا ایسا موازنہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ تواشعر رحمن صاحب نے ایسا کر کے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ اور ان دو ڈکٹیٹروں یعنی فیلڈ مارشل ایوب خاں اور جرنیل ضیاء الحق کا موازنہ کیوں نہیں ہو سکتا جب کہ خیر سے دونوں نے شعر و ادب کے معاملات میں بھی اچھا خاصا دخل در معقولات کر رکھا تھا۔ اشعر رحمن نے ایوب خاں کے سلسلہ میں ان کے دو رفقائے کار کا بھی ذکر کیا ہے۔ قدرت اللہ شہاب کا اور الطاف گوہر کا۔ خیر وہ تو پہلے ہی سے ادیب چلے آ رہے تھے۔ جس قد و قامت کے بھی ہوں۔ ان کا موازنہ بھی ہو جاتا تو ایسا بے جا نہ ہوتا۔ بہر حال ان کے بہانے ہمیں اس موازنۂ ایوب و ضیاء میں ٹانگ اڑانے کا بہانہ ہاتھ آ گیا ہے۔

ایمانداری کی بات یہ ہے کہ جرنیل ضیاء الحق ایوب خاں کے مقابلہ میں قسمت کے ہیٹے تھے۔ ایوب خاں کو تو دو رفقائے کار بھی ایسے ملے جو اپنے فن میں ماہر تھے۔ اشعر رحمن نے انھیں رفقائے کار کہا ہے۔ ہم انھیں مجسمہ سازی کے فن کا ماہر جانتے ہیں۔ یا کہہ لیجیے کہ وہ اپنے وقت کے ماہر بت ساز تھے۔ موازنہ کیا جائے تو قدرت اللہ شہاب اس فن میں زیادہ منجھے ہوئے تھے۔ پورا بت تراش کر تو انھوں نے ہی کھڑا کیا تھا۔ الطاف گوہر کو تو زیادہ کچھ کرنا نہیں پڑا۔ ترشا ترشایا بنا بنایا بت مل گیا۔

مثل مشہور ہے کہ پیراں نمی پرند، مریدان می پرانند۔ تو صورت حال کا تقاضا یہ تھا کہ جس کا بت تعمیر کیا جا رہا ہے وہ بت بنا کھڑا رہے۔ یہ نیاز مندوں پر چھوڑ دیں کہ وہ اپنے ہنر سے بت کو بنا سنوار کر کھڑا کریں گے۔ قدرت اللہ شہاب تجربہ کار بیورو کریٹ تھے۔ ادھر ادبی معاملات کو اور اپنے یہاں کے ادیبوں کی نفسیات کو بھی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ تو اصل کام تو انھیں ہی کرنا تھا۔ رائٹرز گلڈ کی داغ بیل سلیقہ سے ڈالی گئی۔ رائٹرز کنونشن بڑے اہتمام سے منعقد ہوا۔ صدر ایوب خاں نے اپنی شرکت سے کنونشن کو عزت بخشی مگر اسٹیج پر اردو ادب کی نامی گرامی شخصیتیں بیٹھی تھیں۔ سب سے بڑھ کر بابائے اردو مولوی عبدالحق۔

ادھر جرنیل ضیاء الحق کے معاملہ میں کیا ہوا۔ ویسے تو یہاں بھی مریدوں نے بہت کمالات دکھائے تھے۔ سال کے سال اکیڈمی آف لیٹرز کی طرف سے میلہ کا اہتمام کیا۔ مگر ان میں سے کسی میں بھی قدرت اللہ شہاب والی سمجھ نہیں تھی۔ جس کا بت تعمیر کیا جا رہا تھا اس بت نے خود ہی بولنا شروع کر دیا۔ سال کے سال ادیبوں کے میلہ میں خود ہی صدر بن کر ادب پر خطبہ دینا شروع کر دیا۔ اس قسم کے بیانات کہ اب گل و بلبل والی شاعری نہیں چلے گی۔ کسی ستم ظریف نے سرگوشی میں کہا کہ جرنیل صاحب بھی ترقی پسند ہو گئے۔ ارے بابا جس کا کام اسی کو ساجھے۔ یہ ادب کے معاملات ہیں۔ دنیائے ادب کے نقادوں نظریہ سازوں کو ان سے نمٹنے دو اور وہ کتنا ناسمجھ تقریر فراہم کرنے والا تھا جس نے جرنیل ضیاء الحق کو اچھا خاصا علی سردار جعفری بنا دیا۔ اسی رنگ میں موصوف نے ہمعصر شاعروں کی شاعری پر تبصرہ آرائی شروع کر دی۔

ایسا کام ایوب خاں نے کب کیا اور اس سمجھدار ڈکٹیٹر کو خود یہ کام کرنے کی ضرورت کیا تھی۔

ایسے ادبی بحث مباحثے کے لیے رائٹرز گلڈ کا پلیٹ فارم موجود تھا۔ وہاں قدرت اللہ شہاب تھے، دائیں بائیں اشفاق احمد، جمیل الدین عالی اور گلڈ میں تو سب ہی ادیب شامل تھے۔ کیا ترقی پسند، کیا رجعت پسند۔ بس دو ہی نگ بچے رہ گئے۔ مولانا صلاح الدین احمد اور محمد حسن عسکری۔ اور مولانا صلاح الدین نے کیا قیامت کا ٹکڑا لگایا کہ شاعری جزویست از پیغمبری۔ ادیب تو پیغمبر ہوتے ہیں۔ کبھی پیغمبروں نے بھی گلڈ بنائے ہیں۔ مولانا کے اس بولتے فقرے کو پر لگ گئے۔ ضرب المثل کی طرح مشہور ہو گیا۔

مولانا نے اس سے بڑھ کر بھی ایک کام کیا۔ انجمن حمایت الاسلام کے سالانہ اجتماع میں ایوب خاں مہمان خصوصی کی حیثیت میں رونق افروز تھے۔ وہاں مولانا نے ایسا مقالہ پڑھ ڈالا کہ ایوب خاں کے چہرے پر ایک رنگ جائے اور ایک رنگ آئے۔ غصے میں چند فقرے کہے مگر بات کو بڑھایا نہیں۔ جلد ہی آگے نکل گئے۔ ویسے تو یہ فقرہ انھوں نے بہت تحقیری لہجہ میں کہا تھا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ موصوف اردو کے کسی ادبی رسالہ کے ایڈیٹر ہیں، مطلب یہ تھا کہ ان کی اوقات بس اتنی ہی ہے۔ مگر اس سے مولانا کا کیا بگڑا۔ اپنا کام تو وہ کر گزرے تھے۔ مگر خود مولانا کے مقالہ سے بھی ایوب خاں کا کیا بگڑا۔ اس کے امیج پر ایک کھرونچ بھی نہیں آئی۔ ارے یہ امیج تو ایسا تعمیر کیا گیا تھا کہ یاروں نے کہا کہ ایوب خاں پاکستان کے جنرل ڈیگال ہیں۔ اس پر کسی ظالم نے ٹکڑا لگایا کہ پھر تو قدرت اللہ شہاب پاکستان کے اندرے مالرو ہیں۔ اندرے مالرو فرانس کا نامی گرامی ادیب۔ اور پھر یہ بھی تو ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے؎

پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا

نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا

تو ایوب خاں سے ایسے کام بھی تو منسوب ہیں۔ آدم جی پرائز، اور اس ایک انعام سے کتنے انعاموں نے جنم لیا۔ اور پھر خود رائٹر گلڈ سے ادیبوں کو کتنا فیض پہنچا۔ دوسرے شعبوں میں بھی ایسے کام ہوئے تو اشعر رحمن کو اس پر تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ ایوب خاں کا ذکر اب تک کتنے لوگ اچھے لفظوں میں کرتے ہیں۔

اور پھر قدرت اللہ شہاب نے بھی تو اچھی خاصی نیک نامی کمائی۔ اچھی خاصی نہیں بہت۔ قدرت اللہ شہاب نے ایوب خاں کا امیج اس طرح تعمیر کیا کہ وہ یاروں کو پاکستان کے جنرل ڈیگال نظر آنے لگے اور خود قدرت اللہ شہاب سے ممتاز مفتی نے کرامتیں منسوب کر کر کے انھیں ولی اللہ کے درجہ پر پہنچا دیا۔ اگر اس میں کچھ کسر رہ گئی تھی تو انھوں نے شہاب نامۂ میں اپنے کراماتی تجربے بیان کر کے پوری کر دی۔

ادھر ضیاء الحق کے کیسہ میں ایسا مال کہاں تھا۔ لے دیکے ایک صدیق سالک جن کی پرواز بس سید ضمیر جعفری تک تھی۔ اور ابھی ایوب خاں کے جاری کردہ فیض کے اسباب کا ذکر تھا۔ ویسے فیض کے اسباب یہاں کہاں تھے۔ ادھر تو آدم جی پرائز تھا۔ اور ایسی ہی انعامی تقریب میں ایوب خاں اپنے درشن دیتے تھے۔ ادھر کیا تھا۔ فیض کا دریا جاری اگر تھا بھی تو کتنے پیاسوں کی تشنگی اس سے دور ہوتی تھی۔ ایک ایوارڈ احمد ندیم قاسمی کو ملنے لگا تھا تو اس میں احمد فراز نے کھنڈت ڈال دی۔ فتح محمد ملک کا بیان ہے کہ احمد فراز نے قاسمی صاحب کو بہت سمجھایا کہ اب ضیاء الحق کے ہاتھ سے انعام نہ لیں۔ مگر قاسمی صاحب نے ضد پکڑی تھی کہ انھیں یہ انعام لینا ہے۔ اور فتح محمد ملک کا کہنا ہے کہ پھر احمد فراز نے خود پرویز مشرف کے ہاتھوں سے انعام قبول کیا۔ مگر سب کی خطائوں سے یاروں نے درگزر کیا۔ مگر قاسمی صاحب کو معاف نہیں کیا۔ آخر قاسمی صاحب کو کوئی تو غصہ تھا جو فیض صاحب پر جا کر اترا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔