انٹرٹینمینٹ انڈسٹری میں مسابقت کی دوڑ نے معیار کو نقصان پہنچایا ہے

فرخ اظہار  اتوار 26 اگست 2012
ٹیلی ورلڈ کے باصلاحیت فن کار وسیم مشتاق کہتے ہیں کہ میری بھی خواہش ہے کہ بولی وڈ میں کوئی کردار ادا کروں، اگر وہاں سے کوئی آفر ہوئی تو ضرور کام کروں گا۔ فوٹو: فائل

ٹیلی ورلڈ کے باصلاحیت فن کار وسیم مشتاق کہتے ہیں کہ میری بھی خواہش ہے کہ بولی وڈ میں کوئی کردار ادا کروں، اگر وہاں سے کوئی آفر ہوئی تو ضرور کام کروں گا۔ فوٹو: فائل

پہلی مرتبہ وسیم مشتاق کو ڈراما ’امرت منتھن‘ میں مرکزی کردار ملا، لیکن ابتدائی اقساط سے واضح ہو گیا کہ یہ شو منی اسکرین کے ناظرین کی توجہ حاصل نہیں کر سکے گا، البتہ ’’تیج ملک‘‘ کا یہ کردار اپنے اندر کافی گنجائش رکھتا ہے۔ اب وسیم پر منحصر ہے کہ وہ اسے بددلی سے نبھاتا ہے یا اپنے اس کردار کے ذریعے خود کو منوانے کی سعی کرتا ہے۔ وہ اس سے قبل ’بھاگیہ ودھاتا‘ اور زی ٹی وی کے ڈرامے ’قرول باغ‘ میں متاثر کن پرفارمینس دے چکا ہے۔ اس اداکار سے کیا گیا ایک انٹرویو آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

٭ اس کردار میں آپ کے لیے کیا نیا ہے؟

یہ ایک ہندوستانی فوجی کا کردار ہے اور یہ میرا پہلا تجربہ ہے۔ یہ عام کرداروں کے مقابلے میں زیادہ توجہ اور محنت کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ اس کے لیے مجھے ہوشیار باش، سنجیدہ، نظم وضبط کا پابند نظر آنے کے ساتھ مخصوص لب ولہجہ اپنانا پڑا جو فوج کی تربیت کا حصہ ہوتا ہے۔ میری کوشش ہے کہ میں اس کردار کے ذریعے ایک مرتبہ پھر اپنی صلاحیتوں کا بہترین اظہار کروں اور اس کے لیے محنت بھی کر رہا ہوں۔

٭ یہ ایک عورت مرکز کہانی ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ اس میں آپ کا کردار کوئی اہمیت بھی رکھتا ہے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت جتنے بھی ٹی وی ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں، وہ عورت ذات سے متعلق ہی ہیں، اور ماضی میں بھی ایسے ڈراموں کے میل کیریکٹرز نے کافی شہرت حاصل کی اور وہ کہانی کی مقبولیت کا باعث بھی ثابت ہوئے۔ میرا کردار اپنی جگہ نہایت اہم ہے اور اس کا ڈرامے کی کام یابی میں بڑا ہاتھ ہو گا۔

٭ نئے چہروں کی بھرمار نے کئی فن کاروں کو ٹیلی نگری میں کرداروں سے محروم کر دیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

مسابقت کی دوڑ نے انڈسٹری کے ہر شعبے میں آرٹسٹوں کے لیے مختلف قسم کی مشکلات پیدا کی ہیں۔ اگرچہ اس کے ذریعے کچھ نیا بھی سامنے آیا ہے۔ فن کاروں کی بات کی جائے تو جہاں نئے چینلز آئے ہیں، وہاں نئے چہرے بھی متعارف ہوئے ہیں جن کی اکثریت باصلاحیت ہے، لیکن اس طرح کام حاصل کرنا ذرا مشکل ہو گیا۔ تاہم کسی کا حق نہیں مارا جارہا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی فن کار کردار قبول کرنے انکار کرتا ہے تو پروڈیوسر کو دوسرا اداکار آسانی سے مل جاتا ہے۔ اس وجہ سے ٹیلی نگری میں فن کاروں کے نخرے بھی کم ہو گئے ہیں۔

٭ ’’ڈائریکٹرز کٹ‘‘ کے ساتھ کام کرنے کی بابت کچھ کہیے۔

راجن شاہی ایک بڑا نام ہے، میں ان کے ساتھ کام کرنا میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ اس پروڈکشن ہاؤس نے ٹی وی کے لیے بے شمار شوز بنائے جنھوں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ایک فن کار کی حیثیت سے میں نے محسوس کیا کہ ان کی طرف سے اپنے ہر شو کی کاسٹ اور ڈائریکشن پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی راجن سر نے ہم پر بہت محنت کی ہے اور فیصلہ ناظرین پر چھوڑ دیا ہے۔

٭ ساتھی فن کاروں میں کس سے زیادہ بنتی ہے؟

میرے تمام فن کاروں کے ساتھ اچھے مراسم ہیں اور سبھی میرے بے حد قریب ہیں۔ میں کسی ایک کا نام نہیں لوں گا کہ یہ دوسروں کی دل شکنی کا باعث بن سکتا ہے۔

٭ چلیے یہ بتا دیجیے کہ بولی وڈ میں آپ کس سے متاثر ہیں؟

بڑے پردے پر مجھے اجے دیوگن اور عرفان خان کی اداکاری پسند ہے۔ اجے ایکشن ہیرو کے طور پر میرا فیورٹ ہے جب کہ عرفان خان ڈائیلاگ ڈلیوری اور چہرے کے اتار چڑھاؤ سے کردار میں رنگ بھر دیتے ہیں اور ان کا یہ انداز مجھے بے حد بھاتا ہے۔ ان دنوں ودیا بالن نے بھی اپنا اسیر کیا ہوا ہے، فلم ’کہانی‘ میں اس کا حاملہ عورت کا کردار میں کبھی فراموش نہیں کر پاؤں گا۔

٭ بڑے پردے کی طرف جانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

جی ہاں، ہر فن کار کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ بولی وڈ میں کوئی کردار ادا کروں۔ اگر وہاں سے مجھے آفر ہوئی تو ضرور کام کروں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔