جس نے کوشش کی اس نے پالیا

عابد محمود عزام  اتوار 18 اگست 2013

ایک مشہور ومعروف امریکی کمپنی میکڈونلڈ دنیا میں فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کی سب سے بڑی چین ہے۔ اس کمپنی کے 121 ممالک میں 40 ہزار سے زائد ریسٹورنٹ کام کر رہے ہیں۔ ہر سال کمپنی دنیا بھر میں دوہزار مزید نئی برانچیں قائم کرتی ہے۔ اس کمپنی کے ملازمین کی تعدا 121ممالک میں 17 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر آٹھ امریکیوں میں سے ایک ایسا ضرور ہوتا ہیِِِ، جس نے اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں اس کمپنی میں کام کیا ہوتا ہے۔ اس فاسٹ فوڈ کمپنی کے زیر اہتمام کئی مختلف ادارے بھی کام کررہے ہیں جن میںمیکڈونلڈ  ریسٹورنٹ، ہیم برگر یونیورسٹیز، میک برگرز، میک کیفیز، میکڈونلڈ  یو ایس اے میوزیمز، میکڈونلڈ روک ، رونالڈ  چئیرٹی ہائوسز زیادہ مشہور ہیں۔ کمپنی کی سالانہ آمدنی اٹھائیس ہزار پچھتر ملین ڈالر ہے جو 2014 میں بڑھ کر تیس ہزار ملین ڈالر سالانہ ہونے کی توقع ہے۔ اس کمپنی سے روزانہ 68 ملین کسٹمرز استفادہ کرتے ہیں اور اس کمپنی کی برانڈ ویلیو 90.3 ارب ڈالر سے زائد ہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج پوری دنیا میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کی روزی کا ذریعہ بننے والی  فاسٹ فوڈ کمپنی کی ابتدا ایک ٹھیلے سے ہوئی تھی۔آج یہ دنیا میں فاسٹ فوڈ کی سب سے بڑی چین ہے۔جب کہ آج سے 76سال پہلے 1937 میں امریکا کے ایک غریب شخص ’’پیٹرک میکڈونلڈ ‘‘ نے اپنی روزی کا سامان کرنے کے لیے کیلی فورنیا ریاست کے علاقے منرویا میں ’’منرویا ائیرپورٹ‘‘ کے قریب برگر بیچنے کے لیے ایک ٹھیلا لگایا، وہ غریب آدمی ہر روز صبح ٹھیلا لے کر گھر سے نکلتا ، سارا دن ائیرپورٹ کے باہر برگراور اورنج جوس بیچتا، شام کو ٹھیلا گھسیٹتے ہوئے اپنے گھر لوٹ جاتا۔ وہ تین سال تک مسلسل اسی طرح دن بھر محنت کرتا رہا۔ پھر تین سال کے بعد 1940 میں پیٹرک  کے دوبیٹے ’’رسچرڈ ‘‘ اور ’’موریس ‘‘ نے اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے سوچا کہ اب ہمیں اپنے کام کو ٹھیلے سے آگے بڑھانا چاہیے۔ لہٰذا انھوں نے کیلی فورنیا میں ’’ بار بی کیو‘‘ کے نام سے ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ کی بنیاد رکھی۔جہاں وہ اپنے والد کی طرح بھرپور محنت اور لگن سے کام کرتے رہے۔محنت، لگن، جہد مسلسل اور بلند ہمتی جیسے اصولوں کو مکمل طور پر اپنا شعار بنایا۔ان رہنما اصولوں پر عمل کرنے سے کچھ ہی عرصے میں ان کا ریسٹورنٹ علاقے میں مشہور ہوگیا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ ترقی کی منزلیں طے کرنے لگے۔ دونوں بھائیوں نے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے مزید محنت کرنے کا فیصلہ کیا ۔ انھوں نے اس قدر محنت اور ترقی کرنا شروع کردی کہ صرف تیرہ سال بعد 1953 میں  ریسٹورنٹ کی برانچیں کیلی فورنیا سے باہر دوسرے کئی شہروں میں بھی کھول لیں۔

وہ اپنے کام میں محنت اور تندہی سے جُتے رہے اور ترقی کی مزید سیڑھیاں چڑھتے رہے۔ صرف چھ سال بعد 1959میں امریکا میں  ریسٹورینٹس کی کل تعداد 102 ہوگئی۔ ایک سال بعد ان کی کمپنی کا کام اس قدر پھیل چکا تھا کہ انھیں اپنے ریسٹورینٹس کو تربیت یافتہ ملازمین فراہم کرنے کے لیے ایک یونیورسٹی قائم کرنا پڑی ۔ 1961 میں  کمپنی نے اپنی تمام فرانچائز کو ملازمین فراہم کرنے کے لیے میکڈونلڈ  ہیم برگر کے نام سے ایک بہت بڑی یونیورسٹی قائم کی جس سے صرف تیس سالوں میں چالیس ہزار افراد نے بیچلر آف ہیم برگرلی کی ڈگری حاصل کی۔

ریسٹورنٹ کمپنی کو ملازمین فراہم کرنے کے لیے اسی کارپوریشن نے ٹوکیو، جرمنی، لندن سمیت دنیا بھر میں کمپنی کی ایسی مزید سات یونیورسٹیاں قائم کیں۔ 1969 میں یہ کمپنی پچاس ریاستوں تک پھیل گئی۔کمپنی نے یونائٹڈ اسٹیٹ سے باہر اپنی پہلی برانچ 1967میں برطانیہ میں قائم کی۔ جب کہ 1990 تک میکڈونلڈ فاسٹ فوڈ کمپنی 58 بیرونی ممالک میں اپنے چھتیس سو ریسٹورنٹ کھول کر ان ممالک کی مارکیٹ پر چھا چکی تھی۔1939میں کیلی فورنیا ریاست کے علاقے منرویا میں ایک غریب شخص کے ٹھیلے سے شروع ہونے والا کام 2013 میں 121ممالک میں پھیل چکا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ میکڈونلڈ کو دنیا بھر میں مقبول بنانے میں اس کے رہنما اصولوں محنت، لگن، جہدمسلسل اور بلند ہمتی کا بے حد عمل دخل ہے۔جن کی وجہ سے’’میکڈونلڈ فاسٹ فوڈ کمپنی‘‘ ایک گلوبل برانڈ بننے میں کامیاب ہوئی ۔

کوئی انسان کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو اس پر ایک ہی فکر سوار ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح ترقی کرلے۔ عربی کا مشہور محاورہ ہے ’’من جدّوجد‘‘’’جس نے کوشش کی اس نے پالیا ‘‘۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو ناممکن ہو۔محنت اور مسلسل جدوجہد سے ہر نا ممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔غیر معمولی اور کارہائے نمایاں سرانجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی سچی لگن کا مالک ہو، اس پرکام کی دھن سوار ہو۔جب سر میں کسی کام کا سودا سما جائے تو وہ ضرور انجام پذیر ہوتا ہے۔اس کی راہ میں حسد رکاوٹ بنتا ہے نہ دھوکا آڑے آتا ہے۔سازش خلل ڈالتی ہے نہ کوئی اور چیز مانع ہوتی ہے۔اپنے کام سے عشق لگن اور دھن کامیابی کی کنجی ہے۔لگن ہو تو اسباب وسائل فراہم ہوجاتے ہیں،اپنے مقصد سے محبت کرنے والا کبھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھتا۔بند راستے، پرخاروادی اور کھڑی رکاوٹیں اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کرسکتیں۔بعض لوگ ابتداً بڑے پرجوش ہوتے ہیں، لیکن جب رکاوٹ سامنے آتی ہے تو ناامید ہوجاتے ہیں۔ ان میں آگے بڑھنے کی امنگ دم توڑ جاتی ہے۔

چناچہ وہ اپنا منصوبہ نامکمل چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے افراد قابل ذکر ترقی نہیں کرپاتے۔دراصل یہ لوگ عزم و ہمت سے عاری ہوتے ہیں۔عزم و ہمت کا حامل شخص بزدل ہوتا ہے نہ سست، ٹوٹتا ہے نہ ڈرتا ہے۔ دائیں بائیں متوجہ ہوتا ہے نہ پیچھے کی طرف التفات کرتا ہے۔ جو کوئی بھی جتنا بھی مشکل کام کرنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے اندر لگن اور دھن پیدا کرے۔ پھر اپنے منصوبے پر جُت جائے۔ جھلسا دینے والی گرمی ہو یا یخ بستہ سردی، موسم خزاں ہو یا آمد بہار۔ اس کے معمولات میں فرق نہ آنے پائے۔ وہ لوگوں کی بے جا تنقید، حوصلہ شکنی اور ملامت سے دل برداشتہ نہ ہو۔ بس اپنے کام میں مگن رہے جس کا ثمر اسے کامیابی کی صورت میں حاصل ہوکر رہے گا۔ حالات جیسے بھی ہوں انسان اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھے۔ اگر کسی موڑ پر اس کی محنت اور ہمت کا شیرازہ بکھربھی جائے تب بھی وہ ناامیدی کے اندھیر ے کو جہدِ مسلسل اور بلند ہمتی سے روشن کر دے تو ترقی اور کامیابی اس کے قدم ضرور چومے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔