جنس کی بنیاد پر اسقاط سے دو کروڑ سے زائد لڑکیوں کی عدم پیدائش

ویب ڈیسک  جمعرات 18 اپريل 2019
دنیا بھر میں جنس کی بنیاد پر اسقاط کی بدولت گزشتہ 50 برس میں دو کروڑ تیس لاکھ بچیوں کی پیدائش کو روکا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا بھر میں جنس کی بنیاد پر اسقاط کی بدولت گزشتہ 50 برس میں دو کروڑ تیس لاکھ بچیوں کی پیدائش کو روکا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

سنگاپور: ایک غیرمعمولی تجزیئے سے انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھر میں جنس کی بنیاد پر بچوں کا رحم کے اندر ہی اسقاط کرانے سے کم ازکم دو کروڑ تیس لاکھ بچیوں کو اس دنیا میں آنے سے روکا گیا۔ ’غائب‘ لڑکیوں کی اکثریت کا تعلق چین اور بھارت سے تھا۔

نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کی پروفیسر فینگ چِنگ چاؤ اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ 1970 کے عشرے سے یہ رحجان شروع ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب بھی دنیا کے بعض معاشروں میں لڑکوں کی پیدائش کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔

عموماً دنیا میں ہر100 لڑکیوں کے مقابلے میں 103 سے 107 لڑکے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن 12 ممالک میں اس کی تناسب بگڑا ہے جہاں جنس کی بنیاد پر اسقاطِ حمل (ابارشن) کی سہولیات اب بھی موجود ہیں۔ سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کے ماہرین نے 1970 سے 2017 کے درمیان 202 ممالک میں جنسی بنیاد پر پیدائش پر تفصیلی تحقیق کرتے ہوئے جدید ترین ماڈلز کو آزمایا ہے۔ ان کے مطابق البانیہ، آرمینیا، آزربائیجان، چین، جارجیا، ہانگ کانگ، بھارت، جنوبی کوریا، مونٹی نیگرو، تائیوان، تیونس اور ویت نام میں اس کا رحجان بہت زیادہ دیکھا گیا ہے۔ تمام 12 ممالک میں ’’نامولود‘‘ بچیوں کی 51 فیصد  تعداد کا تعلق چین سے اور اس کے بعد بھارت کا نمبر ہے۔

ماہرین نے یہ دلچسپ بات بھی کہی ہے کہ بعض ممالک میں لڑکیوں کی کمی کے آثار نظر آئے ہیں اور انہوں نے جنس کی بنا پر اسقاط کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ لیکن بھارت میں یہ رحجان دیکھنے میں نہیں آیا اور وہاں اب بھی اسقاطِ حمل جاری ہے۔ یہاں تک کہ انتہائی پسماندہ علاقوں میں بھی اسقاط کے ماہر مل ہی جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔