- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
جنس کی بنیاد پر اسقاط سے دو کروڑ سے زائد لڑکیوں کی عدم پیدائش
سنگاپور: ایک غیرمعمولی تجزیئے سے انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھر میں جنس کی بنیاد پر بچوں کا رحم کے اندر ہی اسقاط کرانے سے کم ازکم دو کروڑ تیس لاکھ بچیوں کو اس دنیا میں آنے سے روکا گیا۔ ’غائب‘ لڑکیوں کی اکثریت کا تعلق چین اور بھارت سے تھا۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کی پروفیسر فینگ چِنگ چاؤ اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ 1970 کے عشرے سے یہ رحجان شروع ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب بھی دنیا کے بعض معاشروں میں لڑکوں کی پیدائش کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔
عموماً دنیا میں ہر100 لڑکیوں کے مقابلے میں 103 سے 107 لڑکے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن 12 ممالک میں اس کی تناسب بگڑا ہے جہاں جنس کی بنیاد پر اسقاطِ حمل (ابارشن) کی سہولیات اب بھی موجود ہیں۔ سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کے ماہرین نے 1970 سے 2017 کے درمیان 202 ممالک میں جنسی بنیاد پر پیدائش پر تفصیلی تحقیق کرتے ہوئے جدید ترین ماڈلز کو آزمایا ہے۔ ان کے مطابق البانیہ، آرمینیا، آزربائیجان، چین، جارجیا، ہانگ کانگ، بھارت، جنوبی کوریا، مونٹی نیگرو، تائیوان، تیونس اور ویت نام میں اس کا رحجان بہت زیادہ دیکھا گیا ہے۔ تمام 12 ممالک میں ’’نامولود‘‘ بچیوں کی 51 فیصد تعداد کا تعلق چین سے اور اس کے بعد بھارت کا نمبر ہے۔
ماہرین نے یہ دلچسپ بات بھی کہی ہے کہ بعض ممالک میں لڑکیوں کی کمی کے آثار نظر آئے ہیں اور انہوں نے جنس کی بنا پر اسقاط کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ لیکن بھارت میں یہ رحجان دیکھنے میں نہیں آیا اور وہاں اب بھی اسقاطِ حمل جاری ہے۔ یہاں تک کہ انتہائی پسماندہ علاقوں میں بھی اسقاط کے ماہر مل ہی جاتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔