مسترد، مسترد اور پھر مسترد

سعد اللہ جان برق  جمعـء 19 اپريل 2019
barq@email.com

[email protected]

جب ہم اخبار کی سرخیوں میں ’’مسترد‘‘کا لفظ دیکھتے ہیں تو پرانے زمانوں اور قصہ کہانیوں کے شہزادے شہزادی بن جاتے ہیں۔ پہلے تو قہقہ مار کر ہنس پڑتے ہیں اور پھر فوراً بھوں بھوں رو دیتے ہیں اور چوں کہ یہ آخری آئٹم ہوتا ہے تو اسے مستقل اپنا لیتے ہیں کیوں کہ ہنسنے کے آخر میں تو رونے کی جلدی ہوتی ہے اور رونے میں باری لینے کے لیے کوئی اور امیدوار ہوتا ہی نہیں۔

صرف تمغہ تو کسی ناقص دھات کا ہونے کی وجہ سے زنگ وغیرہ پکڑ لیتا ہے لیکن ستارہ اور وہ بھی مہنگائی کے آسمان کا ستارہ تو وہ ہمیشہ ہمیشہ چمکتا دمکتا رہتا ہے بلکہ اس کی چمک دمک کو برقرار رکھنے اور مزید اضافہ کرنے کے لیے حکومت نے خاص طور پر کچھ سفید ہاتھی پالے ہوئے ہیں ، زیبرا، زرافہ اور نہ جانے کیا کیا۔

اب کے جو چمکا ہے وہ پٹرول وغیرہ کے نرخوں کا ستارہ ہے جو بڑے صحیح وقت پر اور صحیح واٹ کا ہے کیوں کہ اس وقت وہ جانور جنھیں کالانعام کہتے ہیں جو انسانوں سے بہت کم اور جانوروں سے تھوڑے انیس بیس کم ہوتے ہیں، اس وقت پہلے والے ستاروں کی مار کھا کھا کر تقریباً مردہ پڑے  ہیں، اب اگر ان کو سو درے اور بھی پڑیں تو کیا فرق پڑ جائے گا۔ مرے پر سو درے۔ یا مرے ہوئے پر سو کلاشن کوف  کے برسٹ بھی خالی کر دیجیے وہ اف تک نہیں کرے گا۔لیکن ہمارا خیال بالکل غلط نکلا۔ اب کے بھی ’’مسترد‘‘ کی خبر آ گئی ہے، ہمیں پہلے تو خوف ہوا کہ شاید ہی کوئی واقعی ’’مسترد‘‘ ہو گا لیکن نیچے گئے تو ’’مسترد‘‘ متحدہ اپوزیشن کا ’’نکلا‘‘ اور اپوزیشن کا منہ کسے نہیں معلوم کہ کیسا منہ ہے ۔

یہ بھی تو کل ’’بہو‘‘ تھی اور وہ بھی کل ساس تھی آج بہو ہے تو ساس بہو کے منہ سے جو بھی بات نکلتی ہے وہ ساس بہو کی ہوتی ہے کیوں کہ یہ ساس ابھی بہو ہونے ہی کے لیے  سرمہ دنداسہ کر رہی ہے اور اس سرمے دنداسے کا مین آئٹم ’’مسترد‘‘ ہی ہے سوائے اپنی تنخواہوں، مراعات صوابدیدوں کے آج تک کو نسی چیز ہے جو اس نے مسترد نہیں کی ہے اور وہ  کونسی چیز ہے جو مسترد کرنے پر مسترد ہوئی ہو ۔سب سے بڑی چتربازی اور نوسر بازی تو عوام کے ساتھ تھیلی کے یہی وہ چٹے اور بٹے یہ کرتے ہیں بلکہ کر چکے ہیں کہ اپنے سامنے طرح طرح کے حقوق اور استحقاقات کا ڈھیر لگائے بیٹھے ہیں لیکن ان کلا نعاموں کو جو انسانوں سے بہت کم اور جانوروں سے تھوڑے زیادہ ہیں کوئی تحریک استحقاق، تحریک التواء یا تحریک ہی نہیں رکھی ہے، بس وہی سال بھر میں ایک ’’انڈا‘‘ دے دیتے ہیں اس کے بعد جو بھی گزرے گی گزاریں گے گزرنے والے … اور خود یعنی وہ جو انسانوں سے بہت زیادہ اور خدا سے تھوڑے کم ہیں وہ انھی پرائے انڈوں پر اچھل اچھل بانگیں دیتے رہتے ہیں۔

دونوں یعنی ساس بہو نے بڑی ہوشیاری سے سارے کھیل اور آلات اپنے لیے رکھے ہیں، کم از کم یہ ’’مسترد‘‘ کا حق تو ان بچاروں کو بھی دے دیتے ہیں جو انسان سے بہت زیادہ کم……لیکن نہیں گیند کسی طرح بھی کورٹ سے باہرنہیں جانی چاہیے۔چنانچہ ہم اس مسترد کی مسرت کو حسرت میں بدلتی دیکھ کر اس شاہی شغل کا دوسرا اور آخری آئٹم کرنے میں لگ گئے اور اس وقت تک لگے رہے گے جب تک کو ئی دوسری گیند نہیں آتی ،لیکن سناہے کہ دوسری گیند بھی وہاں سے کک کھا کر نکل چکی ہے ، بجلی کی تیزی سے ۔

چال جیسے کڑی کمان کا تیر

دل میں ایسی کہ جا کرے کوئی

بلکہ ایک دانائے راز نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ جو ہنسنے اور رونے کے درمیان وقفہ ہے یہ بھی بہت جلد ختم ہونے والا ہے کیوں کہ حکومت اور مہنگائی اور نقدی کے کاغذی پیرہن سے ایسا لگ رہا ہے کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ رونا ہنسنے جیسا ہو جائے گا اور ہنسنا رونے کی طرح۔ پھر کسی کو سوجھے گا ہی نہیں کہ روئے یا ہنسے۔ یا یہ کہ رونا کہاں ختم کرے اور ہنسنا کہاں شروع کرے بلکہ شاید یہ بھی اس کی سمجھ میں نہ آئے کہ یہ جو میں کر رہا ہوں یہ رونا ہے یا ہسنا یعنی میں رو رہا ہوں یا ہنس رہا ہوں کیوں کہ ان کالانعاموں کی جوانسان سے بہت کم…

ایک گھرانے والوں نے نوجوان بیٹے سے کہا کہ معاملہ خراب ہو رہا ہے، گھر کا خرچہ چلانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں، تم یہ بھینسا لے جا کر بازار میں بیچ آؤ اور گھر کے لیے کچھ سودا سلف لے آؤ۔ سودا سلف کے آئٹم بھی ازبر کرا دیے۔ وہ گیا، بھینسا بیچا اور صرف چائے کی ایک کیتلی لایا۔ تھکا ہوا تھا،کتیلی کو کیل میں لٹکا کر لیٹ گیا، تھوڑی دیر بعد باپ آیا اور پوچھا بھینسا کہاں ہے۔ اس نے لیٹے لیٹے کیل اور کیتلی کی طرف اشارہ کر دیا۔ باپ نے کتیلی کو دیکھ کر سوچا، بھینسابک گیا ہو گا اور سودا لے آیا ہو گا۔ پوچھا، سودا کہاں ہے، اس نے پھر کیتلی کی طرف اشارہ کر دیا۔ باپ بولا، صرف کیتلی لائے باقی پیسے کہاں ہیں۔ اشارہ اب بھی کیتلی کی طرف تھا۔ باپ نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا، تم کہاں ہو۔ اس بار بھی کیتلی کی طرف اشارہ دیکھ کر باپ نے ایک لات جمائی اور پوچھا ۔ لگتا ہے پورا بھینسا تم خود کھا گئے، اس بار بھی اس کی انگلی کیتلی کی طرف تھی کیوں کہ کیتلی کی قیمت اتنی ہی تھی جتنی بھینسے کی تھی۔

ہمارے ایک عزیز کی طرز گفتگو میں شادی کا ذکر اکثر آتا ہے کیوں کہ بچارے کی عمر نکل گئی ہے اور کانوں میں شہنائی نہیں بجی ہے۔خیر یہ تو اس کا اپنا الگ پرابلم ہے لیکن باتوں میں جب بھی وہ کسی گراں قیمت چیز کی گرانی کا اندازہ لگاتا ہے تو شادی کے پیمانے سے لگا تاہے ۔ مثلاً ٹماٹر؟مت پوچھو یار۔ ٹماٹروں کی تو شادی ہو رہی ہے۔ آلو؟ وہ بیاہے جا رہے ہیں۔ چاؤل؟ اف بیاہے جا رہے ہیں۔کچھ روز پہلے بازار سے لوٹا تو ہم نے پوچھا، آج کل کون کون سی چیز بیاہی جا رہی ہے، بولا، مجھے تو پورا شہر ایک بڑا سا شادی ہال لگا اور ہر ہر چیز سہرا باندھے گھوڑے پر سوار نظر آئی۔ ہم نے اسے یہ نہیں بتایا کہ یہ سب کچھ ہماری حکومت کی خوش تدبیری ہے، اس نے سوچا کہ الگ الگ ایک ایک آئٹم کی شادی پر بڑے خرچے آتے ہیں کیوں نہ اجتماعی شادیاں لانچ کر کے ہر چیز کی شادی کر دی جائے، مہنگائی کے ساتھ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔