عمران خان کی توقع اور امیتابھ کی پاکستان دشمنی

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 19 اپريل 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سات مراحل میں منعقد ہونے والے بھارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد دوسرا مرحلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔بھارتی اقلیتوں، خصوصاً بھارتی مسلمانوں، کے لیے یہ انتخابات عذاب بن کر نازل ہُوئے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی ،بی جے پی، مسلمان ووٹروں کے خلاف دھونس اور دھاندلی کے حربے استعمال کرنے سے باز نہیں آ رہی ۔

دعوے تو یہ ہیں کہ بھارتی الیکشن کمیشن بڑا آزاد اور تگڑا ہے لیکن بھارتی مسلمان ووٹروں کے خلاف کی جانی والی کھلی زیادتیوں پر انڈین الیکشن کمیشن کی آنکھ کھل رہی ہے نہ زبان ۔مثال کے طور پر:بی جے پی کی اُمیدوار، مانیکا گاندھی، نے اُتر پردیش کے اپنے حلقے (سلطان پور)میں مسلمان ووٹروں کو صاف الفاظ میں دھمکی دیتے ہُوئے کہا ہے :’’ تم لوگوں نے مجھے اکٹھے ہو کر ووٹ نہ دیے تو اچھا نہیں ہوگا ۔

جیت تو مَیں نے جانا ہی ہے ۔اگر مجھے یکمشت ووٹ نہ دیے تو بعد میں تم لوگ ملازمت حاصل کرنے یا کوئی کام کروانے کے لیے میرے پاس آئے تو مجھ سے کوئی اُمید نہ رکھنا۔ مَیں تمہاری طرف سے ملنے والے ووٹوں کو ہمیشہ دل میں رکھوں گی۔‘‘مانیکا گاندھی بی جے پی کی پچھلی حکومت میں بچوں اور خواتین کی وزارت کا قلمدان سنبھالے رہی ہیں ۔ اُن کا بیٹا ( ورون گاندھی ) بھی لوک سبھا کے لیے ’’پیلی بھیت‘‘ کے حلقے سے ( بی جے پی کے ٹکٹ پر) پہلی بار الیکشن لڑ رہا ہے ۔ مانیکا گاندھی، جو سابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی بہو بھی ہیں، پہلے خود ’’پیلی بھیت‘‘ کے حلقہ سے جیتتی رہی ہیں۔ انھوں نے مسلمان ووٹروں کو اب جو کھلی دھمکی دی ہے، یہ ویڈیو ریکارڈنگ پوری دُنیا میں وائرل ہُوئی ہے لیکن انڈین الیکشن کمیشن کے کانوں پر جُوں تک بھی نہیں رینگی۔ بس یہ کہا کہ وہ دو دن الیکشن کمپین نہیں کریں گی۔

تمام مغربی میڈیا بھی شہادتیں دے رہا ہے کہ جاری بھارتی انتخابات میں بھارتی مسلمان سخت تشدد اور دباؤ میں ہیں۔ مثلاً: معروف جرمن نشریاتی ادارے ( ڈاؤچے ویلے)  نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بھارتی انتخابات کے حوالے سے بھارتی مسلمانوں پر تشدد اور جبر کا جو احوال بیان کیا ہے، پڑھ کر دل دہل کر رہ گیا ہے۔

امریکا کے ممتاز ترین اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میںUnder Modi , a Hindu Nationalist Surge Has Further Divided Indiaکے زیر عنوان شایع ہونے والی تفصیلی رپورٹ بھی کچھ ایسی ہی المناک داستان سناتی ہے۔ اسے چار عینی شاہد صحافیوں نے مل کر لکھا ہے: جیفری جینٹلمین، کائی شلز، سوہاسنی راج، ہری کمار۔ اس مفصل رپورٹ کا آغاز دہلی کے مسلمان ووٹروں سے کیے گئے انٹرویوز کے ان الفاظ سے ہوتا ہے: ’’ہم بی جے پی اور نریندر مودی کے دَور میں مسلسل خوف کا شکار ہیں۔ ہمیں راہ چلتے کوئی بھی شخص، کسی بھی وقت تشدد کر کے موت کے گھاٹ اُتار دے تو کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا۔‘‘کچھ اِسی طرح کا احوال Caravan کے ایڈیٹر ہر توش سنگھ نے بھی ’’نیویارک ٹائمز‘‘ ہی میں شایع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ’’مودی کی ساری انتخابی مہمات مخالفین پر خوف مسلّط کرنے اور مذہبی تعصب برتنے پر مشتمل ہیں۔‘‘ انتخابات جیتنے کے لیے مودی جی کشمیریوں اور سینئر کشمیری قیادت کے خلاف جو زبان درازیاں کر رہے ہیں، یہ بھی ہم سب دیکھ اور سُن رہے ہیں۔

حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ ہمارے وزیر  اعظم جناب عمران خان نے ان حقائق کے باوصف مودی جی سے بلند توقعات وابستہ کرتے ہُوئے یہ ششدر انگیز بیان دیا ہے کہ ’’اگر بی جے پی انتخاب جیت جاتی ہے تو پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا میڈیائی رپورٹوں کی موجودگی میں آیا ہمارے محترم وزیر اعظم کو بی جے پی اور مودی سے ایسی توقع وابستہ کرنی چاہیے تھی؟ اور یہ بھی کہ ایسا ہی بیان اگر نون لیگ یا پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے دیا جاتا تو کیا اسے برداشت کر لیا جاتا؟ کئی سینئر بھارتی سیاستدانوں ( مثلاً سیتا رام یچوری، اروند کجریوال، ابھیشک منو سنگھوی، امیت شاہ وغیرہ) نے بھی عمران خان کے اس اُمید بھرے بیان کو پسند نہیں کیا ہے۔ ان بھارتی سیاستدانوں میں بھارتی مسلمانوں کے ممتاز لیڈرز، اویسی برادران، بھی شامل ہیں۔ ان دونوں بھائیوں ( اکبر الدین اویسی اور اسد الدین اویسی)نے ہمارے معزز وزیر اعظم کے بارے میں خاصے سخت اور قابلِ گرفت الفاظ استعمال کیے ہیں اور پاکستانیوں کے دل دکھائے ہیں۔ محبوبہ مفتی اور مقبوضہ کشمیر کے دیگر لیڈروں نے بھی عمران خان کا بیان پسند نہیں کیا ہے۔ دل تو ہمارا ویسے امیتابھ بچن نے بھی دکھایا ہے۔

بلاشبہ امیتابھ بھارت کے بڑے اداکار ہیں۔ پاکستان میں بھی یکساں مقبول ہیں لیکن انھوں نے اپنے چاہنے والوں کو مایوس کیا ہے ۔ ایک بھارتی فلم میں انھیں ایک پاکستانی کا کردار ادا کرنا تھا۔ اس کے لیے وہ کمٹمنٹ بھی کر چکے تھے لیکن تازہ بھارتی انتخابات میں مودی، آر ایس ایس، بجرنگ دَل اور بی جے پی ایسی پاکستان و مسلم دشمن ہندو پارٹیوں نے جو خوں آشام ماحول بنا رکھا ہے، بچن صاحب اُسے دیکھ کر ڈر گئے اور فلم میں پاکستانی کا کردار ادا کرنے سے مُکر گئے۔ ہم سب پاکستانیوں کو انھوں نے مایوس بھی کیا ہے اور دکھ بھی دیا ہے۔ اس سے پہلے دو بھارتی مسلمان فنکار ( شبانہ اعظمی اور اُن کے شوہر جاوید اختر) بھی ہمیں اِسی طرح کا رنج دے چکے ہیں۔ وہ کراچی کے ایک ادبی میلے میں مدعو ہو کر آ رہے تھے کہ پلوامہ کا پُر اسرار دھماکا ہو گیا۔ دونوں میاں بیوی نے ترنت آنے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی ایسی ٹویٹ بھی کی جو پاکستان سے اُن کے عناد کو عیاں کر گئی۔

مودی کی پارٹی نے انتخابات جیتنے کے لیے کئی بھارتی فنکاروں کو مبینہ طور پر بھاری رشوتیں بھی دی ہیں تا کہ وہ بی جے پی کے لیے پروپیگنڈہ کر سکیں لیکن کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ بھارتی انتخابات میں بی جے پی جیتے گی یا کانگریس۔ ہمیں بہرحال انتخابات کے بارے میں وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو ہمارے وزیر خارجہ نے ایک بیان کے ذریعے اختیار کیا ہے :’’کانگریس جیتے یا بی جے پی، ہمارے لیے دونوں محترم ہیں۔‘‘ لیکن حالات ایسے بنا دیے گئے ہیں کہ لگتا ہے بی جے پی اور مودی جی فاتحانہ پرچم لے کر سامنے آئیں گے۔ عالمی سطح پر بھی دو واقعات ایسے ہُوئے ہیں جو مودی جی کے انتخابی حق میں ہو سکتے ہیں:متحدہ عرب امارات نے مودی کو اپنا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ (زید میڈل) دینے کا اعلان کیا ہے۔ اعلان کے ساتھ عرب امارات کے ولی عہد، شیخ محمد بن زاید النہیان، نے نریندر مودی کی جن ’’عظیم‘‘ خدمات کا ذکر کیا ہے، وہ مودی کے لیے بہترین انتخابی نعرہ بنا ہے۔

شائد اِسی بنیاد پر مشہور امریکی مسلمان دانشور، ولی نصر، نے اپنے تازہ انٹرویو میں یوں کہا ہے: ’’مودی نے بڑی چالاکی اور کامیابی سے اپنے پتّے عرب ممالک میں کھیلے ہیں۔ عرب امارات کی طرف سے تازہ ایوارڈ دیے جانے کے اعلان سے مودی انتخابی فوائد بھی سمیٹنے کی کوشش کریں گے۔‘‘ خبریں ہیں کہ 21 اپریل کو مودی خود یہ ایوارڈ وصول کرنے جائیں گے۔ ابھی امارات کی طرف سے مودی کو اعلیٰ ایوارڈ دیے جانے کی بازگشت تھمنے بھی نہ پائی تھی کہ رُوس کی طرف سے بھی 12 اپریل کو یہ اعلان سامنے آگیا کہ وزیر اعظم مودی کو روس کا اعلیٰ ترین انعام (سینٹ اینڈریو ایوارڈ) دیا جائے گا۔ رُوس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ نریندر مودی نے اپنے پانچ سالہ دَور ِ وزارتِ عظمیٰ میں رُوس اور بھارت کے درمیان غیر معمولی اسٹرٹیجک تعلقات کو فروغ بھی دیا ہے اور پہلے سے چلے آتے تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے۔ عالمی انتخابی ماہرین کے اندازے ہیں کہ لوک سبھا کے انتخابات کے عین درمیان میں بھارتی وزیر اعظم کو ان دونوں ایوارڈزکا دیا جانا مودی کے لیے بڑامفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی  مودی کے ساتھ ہے تو لوک سبھا کے نتائج کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔