خونی داستان

سید نور اظہر جعفری  جمعـء 19 اپريل 2019

قیام پاکستان سے پہلے یہ علاقے یہاں کی اشرافیہ کی چراگاہ تھے۔ کم و بیش صورتحال وہی ہے مگر اس وقت کی اشرافیہ یعنی زمیندار، وڈیرہ، ملک اور سردار اب ’’سیاسی چادر‘‘ اوڑھے ہوئے ہیں اور اپنی چراگاہ کے نفوس کے ہمدرد کہلانے کا سوانگ رچائے ہوئے ہیں۔

پنجاب کے زمینداروں کے ظلم کی داستانیں تاریخ پنجاب کا حصہ ہیں اور ظلم کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے۔ سابق صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان بھی اپنا ایک علیحدہ ریکارڈ رکھتے ہیں اور صدیوں سے جاری اس ظلم میں سرپرستی انگریز نے کی اس نے برصغیر پر دو سو سال ظلم اور دہشت کے ساتھ حکومت کی اور اس کے لیے اسے ایسے ذہن چاہیے تھے جو غریب عوام پر اس ظلم کو واہ واہ کہیں۔

یہ اشرافیہ خود یہی کررہی تھی لہٰذا ’’ساجھے داری‘‘ پکی ہوگئی۔ ملک کے فرستادہ لوگ برصغیر کو لوٹنے آئے تھے اور آج تک کوہ نور ظلم کی نشانی کے طور پر ملکہ کے تاج میں ہے شاید اور مغرب کو اس پر شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ دنیا کو امن کا سبق دینے والے برصغیرکے ڈاکو تھے اور یہاں کی دولت سے وہ مملکت قائم کی جو ’’گریٹ برطانیہ‘‘ کہلاتا ہے جس کا ماضی داغ دار اور سیاہ ہے۔ امریکا اس کا بچہ تھا اور جو نسل وہاں آباد ہوئی اس سے توقعات پوری ہوئیں اب وہ برطانیہ کا باپ ہے اور برطانیہ سر جھکا کر اس کی دنیا بھر میں ’’بد معاشی‘‘ کی حمایت اس طرح کر رہا ہے جس طرح یہاں کی اشرافیہ اس کے ظلم کی حمایت کرتی تھی۔

انسان اور انسانیت کی توہین کے جو برطانوی قوانین تھے یہاں کی اشرافیہ نے ایک طویل عرصے تک قیام پاکستان کے بعد بھی ان کو قائم رکھا جو سیاسی ناکامی کا ثبوت ہیں کیونکہ گورے کے بعد ’’کالا انگریز‘‘ بھی ان قوانین سے فائدہ اٹھا کر عوام پر ظلم کرتا رہا جو اب بھی جاری ہے۔

جو آج لیڈر ہیں ان سے اس بات کو الگ کر بھی لیں تو ماضی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جس نے جو کردار ادا کیا وہ تو کہا جائے گا لکھا جائے گا یہ برصغیر کی خونی تاریخ ہے اور لہو اپنوں کی آستینوں پر ہے جسے مٹایا نہیں جاسکتا۔ کسی طرح بھی نہیں۔ ایک مقالہ قائد اعظم یونیورسٹی کے ریکارڈ میں ہے، جس کے ذریعے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی گئی ہے جو اس ظلم کی داستان کا پردہ چاک کرتا ہے جو اشرافیہ نے قوم سے غداری کرکے لوگوں کو تہہ تیغ کروایا اور انعام و اکرام حاصل کیے مقالے کا موضوع ہے:

“Punjab and the war of independance 1857″ لکھنے والے ہیں ڈاکٹر تراب الحسن۔ اس تھیسس میں انھوں نے جنگ آزادی کے حالات پر روشنی ڈالی ہے جس کے مطابق اس جنگ میں جن خاندانوں نے جنگ آزادی کے مجاہدین کے خلاف انگریز کی مدد کی مجاہدین کو گرفتار کروایا اور قتل کیا اور کروایا ان کو انگریزوں نے بڑی بڑی جاگیریں مال و دولت اور خطابات سے نوازا۔ ان کے لیے انگریز سرکار نے وظائف جاری کیے۔ اس مقالے کے مطابق تمام خاندان وہ ہیں جو انگریزوں کے وفادار تھے اور اس وفاداری کے بدلے انگریز کی نوازشات سے فیض یاب ہوئے یہ خاندان آج بھی جاگیردار ہیں اور آج بھی انگریز آقا کے جانے کے بعد حکومت میں شامل ہوتے ہیں۔

Griffin Punjab Chifs Lahore 1919 سے حاصل کردہ ریکارڈ کے مطابق جنوبی پنجاب کے ایک صاحب  کو انگریز سرکار نے ان کی خدمات کے عوض تین سو روپے خلعت اور سند عطا کی تھی۔ Proceeding of the Punjab Political department no 47 June 1858 کے مطابق ملتان کے ایک گدی نشین  کے اجداد نے مجاہدین آزادی کے خلاف انگریزکا ساتھ دیا انھیں ایک رسالے کے لیے 20 آدمی اور گھوڑے فراہم کیے اس کے علاوہ 25 آدمی خود لے کر بھی انگریزوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے۔ ان کے سامان کی حفاظت کی ذمے داری دی گئی۔ ان خدمات کے عوض انھیں تین ہزار روپے تحفے میں دیے گئے ، دربار کے لیے 1750 روپے کی قیمتی جاگیر اور ایک باغ دیا گیا جس کی اس وقت سالانہ آمدن 150 روپے تھی۔

اسی طرح دوسرے سیاستدانوں کے اجدادکا حوالہ ہے جن کی مخبری پر کئی مجاہدین کو گرفتار اور قتل کیا گیا۔ انعام کے طور پر فیصل آباد کے ایک خان کو ریونیو اکٹھا کرنے کا اختیار دیا گیا اور سب سے اسلحہ واپس لیا گیا ان کو پندرہ بندوقیں رکھنے کی اجازت اور 500 روپے اور خلعت دی گئی۔

گجرانوالہ گزٹ 1935-36 گورنمنٹ آف پنجاب کے مطابق ایک اور سیاستدان کے بزرگوار نے انگریز کا ساتھ دیا۔ قصور کے ایک  خاندان نے سو آدمیوں کا دستہ تیار کیا اور خود بھتیجوں کے ساتھ انگریزوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوا۔ 2500 روپے سالانہ کی جاگیر ملی ہزار روپے سالانہ پنشن۔ پل شوالہ پر ملتان کے ایک پیر صاحب نے مریدوں کے ہمراہ تین سو مجاہدین کو شہید کیا ۔

کچھ مجاہدین کو چناب کے کنارے ایک دربار  کے سجادہ نشین  نے اپنے مریدوں کے ہمراہ مل کر شہید کیا۔ جو بچ نکلے ان کو ایک اور سجادہ نشین نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کیا۔ آج ان کی اولاد اسمبلیوں میں ہے۔ ایک مجاہدین کی ٹولی حویلی کرونگا کی طرف گئی تو ان کو وہاں کے ایک صاحب نے مریدوں کے ساتھ مل کر شہید کیا۔

اسے ہر مجاہد کو شہید کرنے کے عوض بیس روپے اور ایک مربع اراضی دی گئی۔ ملتان کے ایک صاحب کو 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کا ساتھ دینے پر تین ہزار روپے نقد، جاگیر اور 1860 میں وائسرائے ہند نے باغ دیا۔ ایک صاحب کو چناب کے کنارے وسیع اراضی دی گئی۔

یہ مختصر روداد صرف پنجاب کی تھی۔ دوسرے صوبوں میں بھی سر کے خطاب اور وسیع زمینیں انگریزوں نے یوں ہی نہیں دے دیں یہاں کی کہانیاں بھی کچھ بیان کریں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے کن کو شہید کیا، مسلمانوں کو، مجاہدین کو، کن کے لیے قتل کیا غاصب عیسائی حکمرانوں کے لیے۔

انگریز بہت شاطر قوم ہے، اس نے مسلمانوں سے مسلمانوں کو قتل کروایا، مسلمانوں کی املاک کو اس قتل کا معاوضہ دیا، روپیہ پیسہ زمین انگریز لندن سے نہیں لایا تھا سب یہیں کا تھا، لالچ نے آنکھیں بند کردی تھیں اور بھول گئے کہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔