عبادت اور تقویٰ

مولانا محمد اکرم اعوان  جمعـء 19 اپريل 2019
اللہ کا قُرب تلاش کیا جائے کہ زندگی کی معراج یہی ہے۔فوٹو : فائل

اللہ کا قُرب تلاش کیا جائے کہ زندگی کی معراج یہی ہے۔فوٹو : فائل

ہم صرف نماز روزے کو‘ نفلی عبادات کو یا حج و صدقات کو فرض ہوں یا نفل ہوں‘ اُسی کو عبادت سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عبادت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہر وہ کام عبادت ہے جو اللہ کریم کی اطاعت میں کیا جائے‘ اُس کی رضا کے لیے خلوص سے کیا جائے۔

روزی جائز طریقے سے کمانا عبادت ہے‘ بال بچوں کو حلال روزی کھلانا عبادت ہے‘ اپنے رہنے کے لیے جائز وسائل سے گھر بنانا عبادت ہے‘ زندگی کا ہر وہ کام جو حدود شرعی کے اندر کیا جائے اور اس نیت سے کیا جائے کہ اللہ کریم اس پر راضی ہوں‘ وہ عبادت ہے اور عبادات پر جو سب سے بڑی نعمت نصیب ہوتی ہے‘ وہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ ایک ایسا رشتہ ہے کہ بندے کا اللہ کریم سے ایسا تعلق پیدا ہو جائے‘ اُس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ میرا پروردگار ہر آن‘ ہر وقت میرے ساتھ ہے‘ میری ہر حرکت کو دیکھتا ہے‘ میری ہر بات کو سنتا ہے اور ہر لمحے میری دست گیری فرماتا ہے‘ ہر دکھ میں میری مدد فرماتا ہے‘ ہر سکھ مجھے وہی عطا فرماتا ہے اور اُس کی نافرمانی سے‘ اُس کی ناراضی سے ڈرنے لگے۔

جہاں تک عبادات کی اُجرت کا تعلق ہے جس پہ آدمی کو بڑا گھمنڈ ہو جاتا ہے کہ میں نے اتنے نفل پڑھے‘ اتنی نمازیں پڑھیں‘ اتنے روزے رکھے‘ میں بہت پارسا ہوں! تو فرمایا: عبادات کی مزدوری تم پہلے لے چکے ہو۔ وہ تمہیں اتنا عطا کر چکا ہے کہ اگر تمہیں ہزاروں برس بھی زندگی نصیب ہو اور ہر پل عبادت میں گزار دو تو اس نے جو کچھ عطا کیا ہے تم اُس کا شکر تک ادا نہیں کر سکتے۔ عبادت کی توفیق بھی تو اُس کی عطا ہے۔ اُس کا احسان ہے کہ اُس نے تمہیں یہ توفیق بخشی کہ تم اُس کی عبادت کرتے ہو۔ بخشش عبادات پہ نہیں کہ ہم نے نمازیں بہت پڑھیں تو ہماری بخشش یقینی ہوگئی‘ بخشش اُس کے کرم پر ہے اور اُس نے اعلان فرما دیا کہ اگر کسی کا خاتمہ کفر و شرک پر ہوگا تو اُس کی بخشش قطعی نہیں ہوگی۔ ایمان پر بھی جو مرتا ہے‘ وہ قادر ہے کہ اُس کی سزا معاف کر دے اور بخش دے۔

اُس کی اپنی مرضی کہ کس کو کتنا دیتا ہے۔ سارے گناہ معاف کر دے تو کوئی اُس کی رحمت کو روک نہیں سکتا۔ انسان کسی بھی حال میں اس بات پہ فخر نہیں کر سکتا کہ میں نے بہت عبادتیں کیں‘ میں نے بہت محنتیں کیں لہٰذا میرا بہت کچھ اللہ کی طرف نکلتا ہے بل کہ پہلے سے اُس پر اللہ کریم کے اتنے احسانات ہیں کہ شمار نہیں۔ اللہ تو وہ ہے جس نے پیدا کیا‘ عقل دی‘ شعور دیا‘ احساس دیا‘ دست و بازو دیے‘ غذا کا اہتمام فرمایا‘ زندگی جیسی نعمت دی اور توفیق عبادت دی۔ یہ سب کچھ تو اللہ کریم سے ہم سب پہلے لے چکے۔ انسان کو جو نعمتیں عطا کی گئی ہیں‘ ایک ایک نعمت کا بدل نہیں ہو سکتا۔ اگر اُسے ہزاروں برس بھی عمر ملے اور ہر پل عبادت میں گزار دے تو کسی ایک نعمت کا بھی شکر ادا کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔ نظر کی نعمت عطا فرمائی‘ سننے کی قوت عطا فرمائی اور ایسا عجیب و غریب نظام عطا فرمایا ‘ فضا ہم سب کے لیے مسخر کر دی‘ کائنات کو ہماری خدمت پہ مامور کر دیا۔

روئے زمین پر بے شمار نعمتیں انسانوں کے لیے بکھیر دیں۔ ہم جو کھاتے ہیں‘ جو پیتے ہیں‘ جو استعمال کرتے ہیں‘ جس پہ سواری کرتے ہیں‘ جو سانس لیتے ہیں‘ جو روشنی ہم تک پہنچتی ہے‘ کس کس نعمت کو گنیں گے۔ انسانی وجود ایسی عجیب مشین ہے کہ یہ ساری چیزیں اسے بہ یک وقت چاہییں اور جب تک زندہ ہے تب تک چاہییں‘ کسی ایک دن کے لیے نہیں اور وہ ایسا کریم ہے کہ ہر ایک کو اُس کا حصہ ہر جگہ پہنچا رہا ہے۔ اُس کے تو پہلے ہی سے انسان پر اتنے احسانات ہیں کہ جتنی بھی عبادتیں کرتا چلا جائے‘ وہ اُس کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہے۔

اُس کی عطا بے حساب ہے اور عبادت کرنے کی توفیق بھی تو اُسی کی عطا ہے۔ حاصل عبادت کا یہ ہوتا ہے کہ اللہ کریم کی پہچان اور معرفت نصیب ہو جاتی ہے‘ اُس کے احسانات کا احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اُس کے ساتھ محبت اور قرب کا ایک تعلق بننے لگتا ہے کہ میرا رب کتنا کریم ہے اور اُس نے میرے لیے کتنا اہتمام فرمایا۔ ہر فرد کے لیے سورج کی روشنی بکھیرتا ہے‘ ایک ایک فرد کے لیے چاند کی چاندنی نچھاور کرتا ہے‘ ایک ایک فرد کے لیے بارشیں برساتا ہے اور بے حساب و بے پناہ رزق عطا فرماتا ہے۔ ہم اگر ایک دن کا بھی اندازہ کریں کہ صرف نوع انسانی کتنا رزق کھاتی ہے‘ کتنا پانی پیتی ہے‘ کتنی ہوا استعمال کرتی ہے ‘ کتنی روشنی استعمال کرتی ہے تو ہم اندازہ نہیں کر سکتے! یہ بے پناہ مخلوق‘ جانور‘ چرند‘ پرند سارے انسان کی خدمت کے لیے پیدا فرما دیے۔

کسی پر سواری کرتے ہیں‘ کسی کا گوشت کھاتے ہیں‘ کسی کی کھال استعمال کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی مخلوق کتنا رزق روزانہ کھاتی ہے اور خدمت انسان کی کرتی ہے! وہ ان سب کو ہماری خاطر پال رہا ہے۔ کون ہے جس نے آسمان جیسی چھت ہمیں مہیا فرما دی جس کے نیچے نہ کوئی دیوار ہے‘ نہ کوئی ستون ہے‘ نہ کبھی اس کے گرنے کا اندیشہ ہے‘ نہ اُس کے پھٹنے کا کوئی ڈر ہے! پھر وہ ایسا قادر ہے کہ آسمان کی بلندیوں سے بارش برساتا ہے اور ہر طرف ہریالی پھیلا دیتا ہے۔

ہر طرف پھلوں اور پھولوں کے گلشن سجا دیتا ہے اور اُس سے کون فائدہ اٹھاتا ہے! کس کی خاطر یہ سارا اہتمام ہے ! اگر جانور کھاتے ہیں ‘ پرندے کھاتے ہیں‘ سمندر کے جانور کھاتے ہیں تو ان سب کو کس کی خاطر پیدا فرما دیا! یہ سارے انسان کے کام آتے ہیں اور انسان کے لیے سب کو پالا جارہا ہے ‘ سب اس پر نچھاور ہوتے ہیں‘ اسی کی خدمت کے لیے ہیں۔ ہم سب اپنے پروردگار کی عبادت کریں‘ وہ ہمارا رب ہے ہماری تخلیق سے لے کر ہمیشہ تک ہماری ہر ضرورت ہر ہر لمحہ پوری فرما رہا ہے۔ اُس نے ہمیں پیدا فرمایا‘ ہم سے پہلے جتنے ہمارے آباء و اجداد گزرے ہیں اُن کا خالق وہی ہے۔ اُسی کا قرب تلاش کیا جائے کہ زندگی کی معراج یہی ہے۔.

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔