اخوّتِ اسلامی

 جمعـء 19 اپريل 2019
اخوّتِ اسلامی سے مراد امتِ مسلمہ کے افراد کا باہمی بھائی چارہ ہے۔فوٹو : فائل

اخوّتِ اسلامی سے مراد امتِ مسلمہ کے افراد کا باہمی بھائی چارہ ہے۔فوٹو : فائل

اخوّت کے معنی بھائی چارے کے ہیں۔ اخوّت سے مراد تمام روئے زمین کے مسلمانوں کا وہ باہمی تعلق ہے جس کی بنیاد محبت اور خیر خواہی پر استوار ہے۔

اخوّتِ اسلامی سے مراد امتِ مسلمہ کے افراد کا باہمی بھائی چارہ ہے۔ آج سے کئی سو سال قبل قبیلہ قریش کے ایک عظیم چشم و چراغ اور اللہ کے آخری پیغمبر رسولِ کریم ﷺ نے اخوّت یعنی بھائی چارے کی بنیاد رکھی۔ جہالت کے زمانے میں جہاں بھائی، بھائی کے خون کا پیاسا تھا، نبی کریم ﷺ انہیں جہالت کے اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے۔ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے اچھی سوچ رکھے اور اسے ہر طرح سے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے۔ صحیح معنوں میں مسلمان کہلانے کا حق دار وہ ہے جو مخلوق خدا کو فائدہ پہنچائے اس کے دکھ سکھ میں اس کا حامی و مددگار ہو۔

رسول پاک ﷺ نے اخوّت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ’’ تُو مومنوں کو باہم رحم کرنے اور باہم محبت کرنے اور باہم شفقت کرنے میں ایک جسم کی مانند دیکھے گا کہ جب ایک عضو بیمار ہو تو تمام جسم اس کی خاطر بے خوابی اور بخار میں اس کے ساتھ شریک ہوتا ہے۔‘‘

بھائی چارے کی سب سے بہترین مثال انصار مدینہ نے رسول کریم ﷺ کے حکم کی تعمیل میں پیش کی۔ آپؐ نے مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ انصار مدینہ نے بھائی چارے کی ایسی مثال قائم کی جو آج تک بے مثل ہے۔ انصار اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار تھے۔ انصار مدینہ کا اپنے مہاجر بھائیوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ حضرت سعد انصاریؓ نے اپنے مہاجر بھائی عبدالرحمن بن عوفؓ سے مخاطب ہوکر کہا: ’’ میں مدینہ کے تمام مسلمانوں میں سب سے زیادہ امیر ہوں۔ میں نے تمہارے لیے اپنی آدھی دولت بچا رکھی ہے۔‘‘ عبد الرحمن بن عوفؓ نے جواب میں بس اتنا کہا: ’’ اللہ تعالی آپ کی دولت کو آپ کے لیے سازگار بنائے، مجھے یہ نہیں چاہیے۔ آپ اگر میرے لیے کچھ کر سکتے ہیں تو بس اتنا کر دیجیے کہ مجھے بازار کا راستہ دکھا دیں۔‘‘

اللہ تعالی کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’ بے شک تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس تم آپس کے معاملات درست کرلو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘

ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے: ’’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم دشمن تھے تو اس نے تمہارے دل میں محبت ڈال دی اور تم ایک دوسرے کے بھائی بن گئے۔‘‘

مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ کے بھائی چارے کی مثال دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے ایک عملی نمونہ ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ کے بندوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو نہ تو پیغمبر ہیں اور نہ ہی شہید لیکن ان کی قسمت پر انبیاء اور شہدا بھی رشک کریں گے۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ کون لوگ ہیں؟

آپؐ نے جواب دیا، ’’ یہ وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی غرض کے محض اللہ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! ان کے چہرے چمک رہے ہوں گے اور وہ بلند مرتبے پر ہوں گے۔ انہیں کوئی ڈر نہ ہوگا جب کہ لوگ ڈر رہے ہوں گے اور انہیں کوئی غم نہ ہوگا جب کہ لوگ غم زدہ ہوں گے۔‘‘

تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور دین اسلام میں کسی کے درمیان بھی امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق تمام مسلمان برابر ہیں۔

رسول اکرم ﷺ نے اس بات کو واضح کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم : ’’ اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے۔ خبردار عربی کو تمہارے عجمی پر اور نہ عجمی کو عربی پر اور سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی برتری نہیں۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘

آج کے معاشرے میں خاندان، قبیلے اور قوم کی تخصیص نے اولاد آدم کو بانٹ دیا ہے اور ایک مسلک اپنے آپ کو دوسرے مسلک سے بالاتر سمجھتے ہوئے ان کی تمام اچھی باتوں سے بھی منحرف ہو جاتا ہے۔ اور انہی باتوں کی بنیاد پر آج مسلمان ہی مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ ایک وقت تھا جب مسلمان تمام دنیا پر حکم رانی کرتے تھے اور ہر طرف ان کے عدل کا ڈنکا بجتا تھا۔ بہت سے مسلم حکم رانوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے کام کیا اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان قرآن و سنت پر عمل پیرا رہے دنیا میں معزز رہے مگر جیسے ہی انہوں نے قرآن کی تعلیمات سے منہ موڑا زوال پذیر ہوگئے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’ بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو بُرے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا۔‘‘

آج کی نوجوان نسل اسلام سے بہت دور جا چکی ہے۔ وہ اس دنیا کی ظاہری رنگینی میں کھو کر اپنے واحد خالق و مالک سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ وہ کتنی بڑی گم راہی میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔

اللہ تعالی ہم سب کو اپنی مخلوق کی خدمت کرنے، ان کے ساتھ بھلائی کرنے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا جذبہ عطا فرمائے۔ اللہ تعالی ہمیں قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور رسول پاک ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔