دوحا کانفرس بمقابلہ لویہ جرگہ

شاہد اللہ اخوند  ہفتہ 20 اپريل 2019
ماسکو اجلاس کے ثمرات افغان امریکا مذاکراتی اجلاسوں سے کہیں بڑھ کر تھے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ماسکو اجلاس کے ثمرات افغان امریکا مذاکراتی اجلاسوں سے کہیں بڑھ کر تھے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکراتی عمل کے اب تک پانچ راؤنڈز ہوچکے ہیں، لیکن اب تک فریقین کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔ پانچویں راؤنڈ کے بعد مذاکرات میں کوئی مزید پیش رفت سامنے نہیں آئی۔  تقریباً ڈیڑھ ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات میں کوئی مثبت پیش رفت تو نہ ہوسکی لیکن طالبان نے اس موقع کو غنیمت جان کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے.

طالبان کی جانب سے جہاں متحارب فریق امریکا کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، وہیں افغانستان کے اندرونی معاملات اور عوام کو اعتماد میں لینے کی کوششیں بھی اپنے عروج پر ہیں۔ 9 نومبر 2018 کو ماسکو میں بین الافغانی کانفرنس ہوئی، جس میں طالبان کے بڑے رہنماؤں سمیت افغانستان کے اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اور سابق صدر حامد کرزئی نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کو روس میں مقیم افغان باشندوں نے منعقد کیا تھا۔

امریکا کے ساتھ جاری مذاکراتی کانفرنسوں اور اجلاسوں کے تقابل میں بین الافغان ماسکو اجلاس کو دیکھا جائے تو اس کے ثمرات مذاکراتی اجلاس سے کہیں بڑھ کر تھے۔ کیوں کہ امریکی انخلا سے پہلے اور مابعد دونوں صورتوں میں افغان قوم کو اعتماد میں لینا ازحد ضروری ہے۔ افغان عوام کو مستقبل میں حکومت چلانے کے لیے جو اقدامات کیے جائیں گے، اس بابت اعتماد میں اس صورت میں لیا جاسکتا ہے جب ابھی سے ہی افغان قوم کے مختلف نمائندے ایک دوسرے کو سنیں اور سمجھیں۔ 9 نومبر 2018 کو ماسکو میں ہونے والی کانفرنس نے اعتماد کی فضا کو قائم کرنے کے لیے خصوصی کردار ادا کیا تھا۔ جس کے ثمرات افغانستان میں طالبان کی جانب سے کیے جانے والے تعلیمی نظام پر عوام کے اعتماد کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں.

اب جبکہ طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات نے ایک خاص مقام تک پہنچ کر خاموشی کا چادر اوڑھ لی ہے، افغان طالبان نے ماسکو جیسی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مملکت قطر کے دارالحکومت دوحا میں رواں ماہ کے وسط میں ایک بین الافغانی کانفرنس منعقد ہوگی۔ مذکورہ اجلاس ایک کانفرنس کی صورت میں ہوگا، جس کے شرکا صرف اپنے خیالات اور پالیسی بیان کریں گے اور اپنے مؤقف کو دیگر تک پہنچانے کے لیے سعی کریں گے۔ یہ کانفرنس کسی صورت میں مذاکرات کی کوئی تقریب اور اجلاس نہیں ہوگا، جس سے اس کا ازالہ ہوجاتا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ افغان طالبان مذاکرات نہیں کریں گے۔

کانفرنس میں کابل انتظامیہ کا کوئی نمائندہ بھی شرکت نہیں کرے گا۔ اگر ماسکو کانفرنس کی طرح کابل انتظامیہ کے کسی فرد کو شرکا کی فہرست میں شامل کیا گیا ہو، تو وہ صرف ذاتی طور پر شرکت کرے گا اور ذاتی خیالات کا اظہار کرے گا۔ جیسا کہ مذکورہ کانفرنس کا انعقاد افغانستان میں امن وامان کی بحالی اور مختلف فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے خیالات کو سننے کی خاطر ہوگا۔

دوحا میں ہونے والی اس کانفرنس سے اس بات کا تاثر ملتا ہے کہ افغان طالبان، افغان حکومت میں موجود بعض اراکین کے ذاتی موقف کو سننے کے لیے تیار ہیں. یہ کانرنس اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ افغان طالبان، افغان حکومت میں بھی دراڑیں ڈالنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ کیوں کہ افغان حکومت کے جو اراکین اس کانفرنس میں انفرادی حیثیت میں شرکت کریں گے، وہ حکومتی مؤقف بیان نہیں کریں گے، بلکہ ماحول یہ اشارہ دیتا ہے کہ وہ بھی طالبان کی حکومت کے لیے نرم گوشہ اختیار کریں گے۔ جبکہ کانفرنس کی بابت افغان طالبان کے اعلامیہ سے یہ اندازہ بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ افغان حکومت کو اس قدر انڈر پریشر کردیا گیا ہے کہ وہ باوجود حکومت میں ہونے کے اس کانفرنس میں افغان حکومت کی نمائندگی نہیں کرسکتے اور نہ ہی حکومتی موقف کو بیان کرسکتے ہیں. تاہم حکومت اس موقع کو بھی گنوانا نہیں چاہے گی۔

اس سے قبل ماسکو میں ہونے والی کانفرنس نے افغان حکومت کی حیثیت کو مجروح کرنے کا کردار ادا کیا تھا۔ کیوں کہ افغان حکومت کو اس میں نظر انداز کرکے حکومتی امیج کو کمزور دکھایا گیا تھا، جس سے حکومتی ایوانوں میں ہنگامہ برپا ہوا تھا اور حکومت کی جانب سے اس کانفرنس پر بھرپور تنقید کی گئی تھی۔ تاہم اس بار حکومت نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

افغان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے رواں ماہ کے آخری ہفتے میں کابل میں ’’مشاورتی لویہ جرگہ‘‘ کے نام سے ایک بڑا اجلاس منعقد ہوگا۔ جس میں دو ہزار کے لگ بھگ افراد شرکت کریں گے۔

حکومت کی جانب سے اس جرگہ کا ایک ایسی صورت حال میں منعقد ہونا، جب امریکا انخلا کا فیصلہ کرچکا ہے، کوئی تبدیلی لانے والا فائدہ نظر نہیں آرہا، جس کو موثر تبدیلی اور حالات پر قابو پانے کا حربہ سمجھ لیا جائے۔ بلکہ یہ جرگہ بھی ماضی میں ہونے والے ان جرگوں کی طرح ہوگا، جو محض ’’نشستند، گفتند، برخاستند‘‘ کے کلیہ پر اترتا ہوئے نظر آئے۔

اس طرح کے جرگے کیمونزم کے زوال کے وقت برسوں منعقد ہوتے رہے، یا اس جرگے کی طرح ثابت ہوگا جو 2013 میں بھی امریکی جارحیت کو جاری رکھنے اور سیکیورٹی معاہدے کے تحت افغانستان کے فروخت کی سند کی تصدیق کرنے کے لیے منعقد کیے جاتے رہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔