جراثیم کش اسپرے نہ ہونے سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ

طفیل احمد  پير 27 اگست 2012
عوام گھروں،گلی،محلوںکی صفائی رکھیں اورگھروںکے اطراف پانی جمع نہ ہونے دیں کیونکہ جمع ہونے والے پانی میں مچھروںکی افزائش نسل تیزی سے ہوتی ہے۔ فوٹو: فائل

عوام گھروں،گلی،محلوںکی صفائی رکھیں اورگھروںکے اطراف پانی جمع نہ ہونے دیں کیونکہ جمع ہونے والے پانی میں مچھروںکی افزائش نسل تیزی سے ہوتی ہے۔ فوٹو: فائل

کراچی: بارش کے بعد جرا ثیم کش اسپرے نہ ہونے سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے ، ماہرین طب نے کہا ہے کہ بارشوں کے بعد کراچی سمیت صوبے بھر میں ڈنگی وائرس اور ملیریا کے مرض کا سیزن شروع ہوگیا ، کراچی سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں ہونے والی بارشوںکے نتیجے میں مچھروں اور ڈنگی وائرس کا سبب بننے والے مادہ مچھر ایڈیزایجپٹی کی افزائش نسل شروع ہوگئی، جو وبائی صورت اختیارکرسکتی ہے، ڈنگی وائرس 2 اقسام کے مچھروں کے کاٹنے سے ہوتا ہے، بارشوں کے موسم میں دونوں مادہ مچھر وں کے انڈوں سے لاروا اورلاروا سے ان کی اگلی افزائش پیوپا ہوتی ہے جس سے براہ راست مچھر بنتا ہے جو ڈنگی وائرس کا سبب ہوتا ہے۔

ایک مادہ مچھر اپنی زندگی کے دوران ایک ہزار انڈے دیتی ہے ، قدرتی طور پر ان کے انڈوں سے بارشوں کے موسم میں افزائش نسل کا عمل شروع ہوتا ہے، ڈنگی وائرس کا سبب بننے والی مادہ مچھرکی زندگی ایک ماہ ہوتی ہے، ڈنگی وائرس کی علامات میں تیز بخار، جسم میں شدید درد ، قے کا ہونا شامل ہے، اس میں شدت آنے کے بعد متاثرہ مریض کے جسم کے پلیٹ لیٹ انتہائی کم ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے جسم سے خون جاری رہنے کا احتمال ہوتا ہے، ماہرین کے مطابق نارمل انسان میں خون جمانے والے اجزا پلیٹ لیٹ کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ ہوتی ہے لیکن ڈنگی وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں میں پلیٹ لیٹ کی تعداد کم ہوکر30 ہزار ہوجاتی ہے،ماہرین کے مطابق ایسی صورت میں مریض کی زندگی بچانے کیلیے فوری پلیٹ لیٹ کی منتقلی کرنا ضروری ہوتی ہے۔

ان ماہرین نے بتایا کہ ڈنگی وائرس کا شکار افراد غیر ضروری اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال نہ کریں کیونکہ ایسے مریضوں کے جسم میں پلیٹ لیٹ کی تعداد مزید کم ہوجاتی ہے اور زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں، مسلسل تین دن بخار رہنے کی صورت میں معمولی خون کا ٹیسٹ سی بی سی ٹیسٹ کرانا چاہیے، اس ٹیسٹ میں پلیٹ لیٹ کی تعداد معلوم کی جاتی ہے، 30ہزار پلیٹ لیٹ رہ جانے کی صورت میں متا ثرہ مریض کو پلیٹ لیٹ لگا ئے جاتے ہیں، اس کا علاج پلیٹ لیٹ کی منتقلی ہوتا ہے تاہم مسلسل بخار رہنے کی صرف میں صرف پیراسیٹا مول دی جائے، بچوں میں ڈنگی وائرس کی تصدیق بھی سی بی سی ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے اور ان بچوں کو بھی غیر ضروری اینٹی بائیوٹک ادویات سے بچانا ہوتا ہے کیونکہ ڈنگی وائرس میں اینٹی بائیوٹک کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔

دریں ا ثنا طبی ماہرین نے بتا یا کہ پلیٹ لیٹ کی منتقلی غریب مریضوں کی دسترس سے باہرہوتی ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ کراچی میں خصوصی مچھرمار مہم شروع کرے تاکہ عوام کو وبائی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے، ادھر بارش کے بعد عوام میںڈنگی وائرس کا خوف طاری ہوگیا ہے کیونکہ یہ وائرس گذشتہ 6 سال سے تواترکے ساتھ رپورٹ ہورہا ہے ، ماہرین نے بتایا کہ مچھرایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک سے دوسرے شہر میں بھی منتقل ہوتا ہے۔

لہٰذا عوام بھی گھروں،گلی،محلوںکی صفائی رکھیں اورگھروںکے اطراف پانی جمع نہ ہونے دیں کیونکہ جمع ہونے والے پانی میں مچھروںکی افزائش نسل تیزی سے ہوتی ہے اور جمع ہونے والے پانی میں معمول سا مٹی کا تیل چھڑک دیاجائے تو مچھروںکی افزائش نسل رک جاتی ہے کیونکہ پانی کی سطح پر مٹی کا تیل ہوتا ہے اور آکسیجن پانی کے اندرنہیں پہنچ پاتی جس کی وجہ سے مچھروںکی افزائش نسل رک جاتی ہے، ان ماہرین طب نے کہا ہے کہ گھروں میں جرا ثیم کش اسپرے روزانہ کی بنیاد پرکیا جائے اورگھروں میں جمع ہونے والے پانی کو فوری صاف کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔