ایک انوکھا مریض

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 20 اپريل 2019
barq@email.com

[email protected]

ڈاکٹر۔مریض کانام

آدمی۔خداداد

ڈاکٹر۔باپ کا نام؟

آدمی۔خدامار

ڈاکٹر۔عمر

آدمی۔سترسال

ڈاکٹر میں مریض کی عمر پوچھ رہاہوں

آدمی۔ میں بھی اسی بچے کی عمر بتارہاہوں

ڈاکٹر۔مگر یہ تو شیرخوار بچہ ہے

آدمی۔یہی تو اس کی بیماری ہے

ڈاکٹر۔کیا مطلب؟

آدمی۔یہی اس کی بیماری ہے کہ روز بروز اس کی عمر گھٹ رہی ہے جب میں پیدا ہوا تو یہ سترسال کاتھا

ڈاکٹر۔ذرا ٹھہرو مجھے سمجھنے دو۔یہ توبڑا کنفیوژن ہے

آدمی۔یہی کنفیوژن تو میرا مسئلہ اور اس کی بیماری ہے

ڈاکٹر۔ذرا تفصیل سے بتاؤ اور ہاں یہ تمہارا کیالگتاہے

آدمی۔باپ ہے میرا

ڈاکٹر۔کیاَتمہارا باپ؟اور یہ شیرخوار بچہ؟

آدمی۔بالکل یہی بات ہے

ڈاکٹر۔مگر تم تو کم ازکم ساٹھ ستر کے لگتے ہو

آدمی۔لگتا نہیں سترسال کا ہوں

ڈاکٹر۔تو پھر یہ بچہ؟

آدمی۔بچہ نہیں باپ یعنی والد گرامی ہے میرا

ڈاکٹر۔یہ چھوٹا ساشیرخوار بچہ اور تیرا باپ؟

آدمی۔جی ہاں

ڈاکٹر۔،مگر یہ کیسے؟اچھا چل بتاؤ یہ کب پیدا ہوا؟

آدمی۔سترسال پہلے

ڈاکٹر۔او ستر سال۔۔ تم پہلے کتنے سال کے تھے

آدمی۔بس پیدا ہی ہوا تھا

ڈاکٹر۔اور اب سترسال کے ہو؟

آدمی۔جی ہاں

ڈاکٹر۔ اور تمہارا یہ باپ جو شیرخوار بچہ ہے یہ ایسے ہی تھا

آدمی۔جی نہیں ڈاکٹر صاحب یہ سترسال کا تھا جب میں پیدا ہوا

ڈاکٹر۔ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے

آدمی۔میں سمجھاتا ہوں ڈاکٹرصاحب۔جب یہ میرا باپ ستر سال کا تھا تو میں پیدا ہوا

ڈاکٹر۔ٹھیک ہے پھر

آدمی۔پھر جتنا جتنا میں بڑا ہوتاگیا اتنا ہی یہ چھوٹا ہوتا گیا

ڈاکٹر۔بولتے رہو

آدمی۔جب میں دس سال کا ہوا تو یہ ساٹھ کا ہوگیا

ڈاکٹر۔یعنی ستر سے ساٹھ؟

آدمی۔ ہاں اور جب میں بیس کا ہوگیا تو یہ پچاس کا ہوگیا

ڈاکٹر۔کمال ہے

آدمی۔کمال نہیں بیماری ہے میرے اس والد محترم کو لگی ہے

ڈاکٹر۔عجیب بیماری ہے

آدمی۔اسی لیے تو آپ کے پاس لایاہوں کہ آپ شہر کے بڑے چلڈرن سپشلسٹ ہیں

ڈاکٹر۔مگر میں نے آج تک ایسا بچہ کبھی نہیں دیکھاہے جو شیرخوارگی میں سترسال کا ہو

آدمی۔اب تو دیکھ لیا نا

ڈاکٹر۔مگر یقین نہیں آتا

آدمی۔کرنا پڑے گا۔میں بالکل سچ سچ کہہ رہا ہوں یقین نہ ہو تو اپنی نرس کو بلاؤ میں اس پر ہاتھ رکھ کر کہوں گا کہ یہ سب  سچ ہے اور سچ کے سوا اور کچھ نہیں

ڈاکٹر۔مگر میری نرس کا نام ’’گیتا‘‘ نہیں ہے

آدمی۔نام میں کیا رکھا ہے اسی وقت تبدیل کرکے ’’گیتا‘‘ رکھ لیں گے تم بلاؤ تو سہی

ڈاکٹر۔کوئی ضرورت نہیں میں یقین کررہاہوں

آدمی۔تو پھر سچ ہے کہ یہ جو آپ کے سامنے شیرخوار بچہ بیٹھا ہے یہ میرا باپ ہے اور اس کی عمر ستر سال ہے اور روز بروز اس کی  عمر کم ہورہی ہے ابھی  پچھلے سال یہ دوڑ رہاتھا چل رہا تھا بول رہا تھا اور اب شیرخوار ہوگیاہے

ڈاکٹر۔ عجیب معاملہ ہے

آدمی۔ معاملہ عجیب ہی نہیں خطرناک بھی ہے اگر یہ اسی طرح گھٹتا رہا تو شاید اگلے سال یہ’’ناپید‘‘ ہوجائے

ڈاکٹر۔تمہارا مطلب ہے کہ ماں کی کوکھ میں چلاجائے

آدمی۔ یہی تو کنفیوژن ہے ماں تو اس کی کب کی مرچکی ہے اب جائے گا تو سیدھا مٹی میں مل جائے گا

ڈاکٹر۔تم ذرا ٹھہرو بچے کو کھیلنے کے لیے کچھ دو میں انٹرنیٹ پر اس کی بیماری کا پتہ کرتاہوں

آدمی۔ٹھیک ہے۔لیکن آپ کی جیب میں اگر کچھ بڑے نوٹ ہو تو تھوڑی دیر کے لیے دے دیں

ڈاکٹر۔بڑے نوٹ؟

آدمی۔جی ہاں یہ سوائے نوٹوں کے اور کسی چیز سے نہیں کھیلتا۔بابا باباکہہ کر انھیں چومتا رہتاہے شاید ان کے والد کی تصویر ان تصویروں سے ملتی ہو۔میں نے دیکھا نہیں اس کے باپ یا اپنے دادا کو

ڈاکٹر۔تم ایسے ہی اسے کھلاؤ ڈاکٹر صرف نوٹ  لیتے ہیں دیتے نہیں(تھوڑی دیر بعد)

ڈاکٹر۔مل گیا مل گیا۔بیماری کانام مل گیا

آدمی۔کیانام ہے

ڈاکٹر۔میڈیکل نام اس کا کرپشن ہے  یہ ایک قسم کے’’کیڑے‘‘ ہوتے ہیں جو پیٹ میں پیدا ہوتے ہیں اور مریض کا خون چوستے رہتے ہیں

آدمی۔میں یہ نام پہلی بار سن رہاہوں

ڈاکٹر۔اس لیے کہ اس کے اور بھی بہت سارے نام ہیںشاید کبھی سنا ہو شکرانہ،نذرانہ، کمیشن، ڈونیشن، چندہ،سورکا گوشت وغیرہ

آدمی۔ہاں یہ نام تو سنے ہیں مگر اس کا علاج

ڈاکٹر۔میں بتا نہیں سکتا۔یہاں آؤ۔کمپیوٹر میں خود پڑھو کیا لکھاہے

آدمی۔ہوں،ہاں۔یہ تو کیڑے۔ہوں کسی بھی چیز سے نہیں مرتے۔لہذا۔جس کو۔یہ مرض لا۔لاحق۔ ہوجائے تو ۔تو۔ تو۔یہ یہ کیا لکھا ہے۔یہ تو۔۔

ڈاکٹر۔یہی علاج ہے۔مرض کو مریض سمیت۔ فوراً مار کر گہرے گڑھے میں دبانا۔یہی اس کا واحد علاج ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔