عوام کبھی غلط نہیں ہوتے

شاہد سردار  ہفتہ 20 اپريل 2019

چین کے عظیم انقلابی رہنما ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ ’’عوام کبھی غلط نہیں ہوتے۔ لیڈروں کو عوام کے فیصلوں سے اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ ‘‘ماؤزے تنگ کے اس قول کی روشنی میں اس حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ پاکستان کے عوام قصور وار نہیں بلکہ بدقسمت ہیں جنھوں نے اپنی حقیقی قیادت کی تلاش میں ہر سیاسی جماعت اور ان کے رہبروں پر اعتبار کیا لیکن کوئی سیاسی جماعت اور اس کے قائدین نہ صرف انھیں (Own) ’’اون‘‘ نہیں کرسکے بلکہ ان کے مسائل بھی نہیں سمجھ سکے۔

حضرت علی کا فرمان ہے کہ ’’ اقتدار دولت اور منصب ملنے پر لوگ بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب ہو جاتے ہیں۔‘‘ پاکستان کے نئے منتخب وزیر اعظم کی ٹیم کے اکثر اراکین بھی صرف آٹھ ماہ میں ہی بے نقاب ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے پڑھے لکھے لوگوں خاص طور پر نوجوان نسل اور مڈل کلاس نے فرط جذبات میں محض ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر انھیں ووٹ دیے تھے لیکن ان کی حکومت نے لوگوں کے بسے بسائے روزگار اور سر چھپانے کی جگہ تک کو اجاڑ کر رکھ دیا۔

کروڑوں لوگوں کی آرزوئیں خاک میں مل گئیں اور ان کے دل ٹوٹ گئے، بابا فرید کہتے تھے کہ ’’روزہ ٹوٹنے کا کفارہ ہے مگر دل ٹوٹنے کا کوئی کفارہ نہیں ہوتا۔‘‘ عمران خان صاحب کی پارٹی کا نام ’’تحریک انصاف‘‘ ضرور ہے لیکن کرپٹ، ملک دشمن، بدعنوان لوگ ضمانتوں پر ضمانتیں حاصل کر رہے ہیں اور سزا احتساب اور قانون صرف کمزور، بے بس اور لاچار لوگوں کے لیے ہے۔ ان کی اپنی کابینہ میں ایسے افراد اقتدار کا حصہ ہیں جن پر نیب کے مقدمات چل رہے ہیں اور یہ صورتحال تحریک انصاف کی حکومت کے ایجنڈے سے متصادم ہے۔

عمران خان صاحب کہتے تھے ’’جب بجلی، گیس اور پٹرول مہنگے ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے حکمران چوری کر رہے ہیں۔‘‘ اب ان کے دور میں گھی، چینی، چاول، صابن، آٹا، گوشت، پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں عوام کے سروں پر بجلی بن کر گری ہیں، پٹرول، گیس اور بجلی پر اضافے میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت کی غیر متوازن معاشی حکمت عملی کے سبب کاروبار، فیکٹریاں اور نجی ادارے بڑی حد تک ٹھپ ہوچکے ہیں، محصولات میں خطرناک حد تک کمی آچکی ہے جب کہ ڈالر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگلے چار ماہ میں 160 روپے کی حدوں کو چھونے لگے گا۔ ان ہولناک وسوسوں اور ہوش و حواس اڑا دینے والے اندیشوں میں بھارت کے جنگی جنون اور پاکستان کے دفاعی مسائل میں حد درجہ اضافہ کردیا ہے۔ رہی سہی کسر بیماروں کی کمر بھی توڑ کر رکھ دی ہے ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کرکے۔ 25 روپے میں بننے والی دوائی کی سیل پرائس 588 روپے مقرر کی گئی ہے۔

عوام الناس کی تمنائیں دم توڑ رہی ہیں، اچھے دنوں ، خوشحالی اور ’’تبدیلی‘‘ کے خواب چکنا چور ہو رہے ہیں تو ایسی کشمکش انسان کو مختلف نفسیاتی اور جسمانی عوارض میں مبتلا کردیتی ہے خاص طور پر فشار خون کا عدم توازن، السر، ذیابیطس، ذہنی خلجان اور انتشار کا نتیجہ ہیں اور عوام کی غالب اکثریت ان امراض کے ساتھ دیگر موذی امراض کا شکار ہو رہی ہے۔ ان کی قوت خرید دم توڑ رہی ہے اور بنیادی ضروریات زندگی کے حصول میں ناکامی حسرت و یاس اور عوارض کو بڑھائے چلی جا رہی ہے۔ صرف بلڈ پریشر کی ایک دوا کی قیمت 190 روپے سے بڑھا کر 480 روپے کردی گئی ہے جب کہ ادویات کی قیمتوں میں 20 سے 30 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے اور غریب عوام ادویات کی قیمتیں سن کر ہی جیتے جی مر رہے ہیں۔ یہ ہے عمران خان صاحب کی تحریک انصاف کا انصاف۔

یہ بات سامنے آچکی ہے کہ دواؤں کی قیمت میں اضافے کا سبب ملک کا بااثر مافیا ہے اور یہ کہ ملک میں بننے والی 48 فیصد کمپنیاں بعض اراکین اسمبلی کی ملکیت ہیں جب کہ 23 فیصد کمپنیوں کے مالک بعض نجی اسپتالوں کے مالکان یا پھر سرکاری اسپتالوں کے اہم عہدوں پر تعینات چند ڈاکٹر یا ان کے قریبی عزیز و اقارب ہیں۔ دنیا بھر میں شعبہ صحت کو کاروباری بنیادوں پر اس لیے نہیں چلایا جاتا کہ یہ خدمت کا شعبہ ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہوکر بیماریوں میں مبتلا ہوجانے والوں کے لیے مہنگی ادویات ’’مرے پہ سو درے‘‘ کے مترادف ہے۔ بھارت سے موازنہ کیا جائے تو ادویات کی قیمتوں اور معیار میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ صحت کی معیاری اور سستی سہولتوں کی فراہمی ریاست کا فریضہ اور عوام کا حق ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 38 کے مطابق ’’ریاست کا یہ بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو بلاتفریق مذہب، ذات، عقیدہ اور نسل زندگی کی بنیادی ضرورتوں بشمول صحت و علاج معالجے کی سہولتوں کو یقینی بنائے۔‘‘ اشیائے خور و نوش سمیت دیگر بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کی صورتحال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ عمران خان صاحب نے گیس، پٹرول، بجلی سستی کرنے، ڈالر مہنگا نہ کرنے، آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا، گھر گھر میٹھا پانی دینے اور کچرا اٹھانے کا وعدہ بھی انھی کا تھا لیکن ان کے وزیر خزانہ نے حال ہی میں ایسا ایک کام کیا ہے جس سے چھوٹی صنعتیں نہ صرف تباہ ہوجائیں گی بلکہ 10 لاکھ افراد بے روزگار ہوجائیں گے۔

ملک سے لوٹے گئے پیسے ملکی خزانے میں واپس لانے کو بھی عمران خان  ہی نے کہا تھا وہ سو ارب ڈالر۔ لیکن یہ کچھ نہ ہوسکا۔ ملک کے معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ اتنا گر گیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی قرضے اتنے لے لیے گئے ہیں کہ ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے، مہنگائی کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کی حکومت نے 8 ماہ میں 3400 ارب کے قرضے لیے ہیں اور پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ عالمی بینک نے ظاہر کردیا ہے۔

ستم بالائے ستم عمران خان صاحب کی ٹیم کے دو اہم فرد شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے برسر عام اختلاف نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ کوئی بڑی تبدیلی جلد آنے والی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں شخصیات خان صاحب کی پارٹی کے بہت بڑے محسن ہیں لیکن اب ان دونوں کے درمیان لفظوں کی جنگ حکمران جماعت کے قدم اکھاڑ دینے کا باعث بن سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر مختلف سطحوں پر اختلافات کی ہوش اڑا دینے والی کہانیاں سوشل میڈیا پر طوفان اٹھا رہی ہیں اور کھلے عام باتیں ہو رہی ہیں کہ عمران خان حکومتی معاملات سے بے خبر اور پاکستان کو سنگین معاشی بحران سے نکالنے کی صلاحیتوں سے محروم ہیں اور یہی نہیں وہ اپوزیشن سے بھی دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں ہیں۔

کڑوی سچائی یہی ہے کہ عمران خان صاحب نے سائیکل چلانے والوں کو جہاز چلانے کو دے دیا ہے، ملک کی معیشت کی کشتی بری طرح ہچکولے کھا رہی ہے اور کشتی سنبھالنے کی ذمے داری اسے دے دی گئی ہے جسے بادبانی کا ہنر سرے سے آتا ہی نہیں ہے۔

مشق ستم یہ ہے اس پر کہ خوشامدیوں اور مطلب براروں کا ایک ہجوم ہے جو عمران خان  کو شاید یہ سوچنے کا موقع بھی نہ دے کہ وقت اب ریت کی طرح  حکومت کی مٹھی سے نکلتا جا رہا ہے اور اگر ایسا ہوگیا تو عمران خان اپنے ایک دو لوگوں کی محبت میں ملک کے 22 کروڑ لوگوں سے ناانصافی کے مرتکب ہوجائیں گے اور یہ ان کی جماعت جس کا نام ’’تحریک انصاف‘‘ ہے اس تحریک کا خون ہوجائے گا جس کے نام پر وہ برسر اقتدار آئے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔