وہ نابینا بابا جو دیکھتے تھے

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 21 اپريل 2019
آنکھیں بس وہ دیکھتی ہیں جو اُن کے سامنے ہو

آنکھیں بس وہ دیکھتی ہیں جو اُن کے سامنے ہو

قسط نمبر 40
بابا نے اپنی کتھا جاری رکھتے ہوئے بتایا: بیٹا وہ چند دن پورے ایک ماہ میں بدل گئے تھے، تشویش تو ہم سب کو تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ ہمیں اپنے گھر کا پتا نہیں بتا کر گئے تھے اور ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ہمیں تو چھوڑو اپنی بیٹی کی زندگی کا بھی نہیں سوچیں گے۔

آخر میں نے ان کی تلاش شروع کی، جہاں کوئی عمارت بنتی میں وہاں پہنچ جاتا اور اپنے سسر کا معلوم کرتا اس لیے کہ وہ بھی معمار تھے راج مستری، میں نے ان کی تلاش میں دن رات ایک کردیے لیکن نہ جانے انہیں آسمان نے اچک لیا تھا یا زمین نگل گئی تھی، میری تلاش کو بھی اب ایک ماہ ہونے کو تھا لیکن اُن کا کوئی اتا پتا ہی نہیں تھا۔ ایک ماہ تک ٹھیلا بھی نہیں لگا سکا تھا اور جو جمع پونجی تھی وہ بھی خرچ ہوچکی تھی تو اب کام تو شروع کرنا تھا، میں نے بابا اور اماں کو صبر سے انتظار کی تلقین کی اور اپنے کام پر توجہ دینا شروع کیا، سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی انتہائی افسردہ تھا، اس لیے کہ میری بیوی تو بہت ملن سار اور محبت کرنے والی تھی، میں اس کے متعلق سوچتا رہتا کہ وہ نہ جانے کس حال میں ہوگی۔

دن گزرتے جارہے تھے اور میری تشویش میں اضافہ ہوتا جارہا تھا، پھر ایک دن میں کام میں مصروف تھا کہ میری بیوی آگئی، مجھے اسے دیکھ کر جہاں خوشی ہوئی وہیں اس کے رونے سے تشویش میں مبتلا ہوگیا۔ تم کہاں غائب ہوگئی تھیں میں نے اس سے پوچھا تو اس نے جو کچھ بتایا وہ کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی اماں اور ابا اسے لے کر تو چلے گئے اور جب دو دن بعد اس نے ان سے کہا کہ مجھے واپس جانا ہے تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے خاموش کردیا کہ اب تم یہیں رہوگی، اُس نے کہا میرا شوہر میرا انتظار کر رہا ہوگا تو انہوں نے کہا کہ اسے اب بُھول جاؤ، وہ تمہارا شوہر تھا، اب نہیں ہے، تمہیں اس سے طلاق لینا ہوگی۔ اُس نے مجھے بتایا کہ میں نے لاکھ کوشش کی کہ وہ ایسا نہ کریں لیکن وہ ایسا کرنے پر بہ ضد تھے۔

آخر میں نے انکار کردیا تو بس پھر جو میرے ساتھ ہوا وہ طویل داستان ہے، انہوں نے مجھے ایک کمرے میں محصور کردیا اور بس ایک ہی رٹ لگائے رکھی کہ ہم نے تو چاہا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ رہے گا اور ہمارے بھی کام آئے گا لیکن وہ اس قابل ہی نہیں ہے۔ میں نے اُن سے کہا کہ مجھے جانے دیں تو میں انہیں منانے کی کوشش کرتی ہوں لیکن وہ اس پر بھی راضی نہ تھے۔ آخر وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں، وہ میرا نہیں کم از کم اپنی بیٹی کا ہی خیال کرلیں، ہنستے بستے گھر کو کیوں اجاڑنے پر تلے ہوئے ہیں؟ میں نے اپنی بیوی سے پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ خود بھی اس کی وجہ نہیں جانتی لیکن اب وہ میرے پاس اس لیے آئی ہے کہ میں اسے طلاق دے دوں۔ میں نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا اور پوچھا کیا تم بھی یہی چاہتی ہو؟ اس نے کہا کہ وہ مجبور ہے، وہ اپنے والدین کو نہیں چھوڑ سکتی۔

میں نے اسے بہت سمجھایا کہ یہ انتہائی نازیبا ہے، ظلم ہی نہیں یہ تو قیامت کا ظلم ہے وہ اس پر سوچے اور میں خود اس کے ماں باپ سے اس مسئلے کے حل کے لیے رابطہ کرنا چاہتا ہوں۔ اُس نے کہا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، وہ دونوں ہی ضدی ہیں اور اپنے گھر کا پتا مجھے دے کر چلی گئی۔ میں انتہائی افسردہ ہوا اور ٹھیلا لیے واپس گھر پہنچا اور بابا اور اماں کو ساری صورت حال بتائی تو وہ بھی حیران تھے کہ آخر ایسا کیا ہُوا کہ نوبت طلاق تک آپہنچی۔ خیر میں بابا اور اماں اسی وقت ان کے گھر پہنچے، میری ساس اور سسر وہیں موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھ کر کہا کہ وہ کوئی بات نہیں سنیں گے، بس ان کی بیٹی کو طلاق دے دو۔ ہم نے لاکھ منانے کی کوشش کی لیکن ان کے سر پر تو وحشت سوار تھی۔

ہم نے کئی مرتبہ ان کی منت سماجت کی، کچھ نیک اور معتبر لوگوں کو بھی ان سے بات کرنے کا کہا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ میں ان سے لڑ بھی لیتا لیکن میری بیوی ہی اپنے ماں باپ کے ساتھ کھڑی تھی تو کیا کرتا، اور آخر ایک دن میں نے اسے طلاق دے کر اسے ہی نہیں خود کو بھی آزاد کرلیا۔ دن جیسے بھی ہوں گزر ہی جاتے ہیں، میں نے بابا اور اماں کی خدمت کو شعار بنائے رکھا کہ وہ تھے ہی ایسے کہ نعمت کہیں جسے۔ میں سارا دن کاموں میں لگا رہتا اور رات کو ان کی خدمت کیا کرتا۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ مجھ سے انتہائی خوش تھے، کئی مرتبہ اماں نے مجھے شادی کا کہا کہ جو ہُوا اسے ایک بھیانک خواب سمجھ کر بھول جاؤں لیکن سچ یہ ہے کہ میں اسے بُھول ہی نہیں سکتا تھا۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ اب شادی نہیں کروں گا۔ دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے ہوئے برسوں میں ڈھل گئے۔ بابا اور اماں بیمار رہنے لگے تھے اور پھر وہ دونوں ہی اپنے اصل گھر کے ہورہے اور اس طرح ایک دن میں پھر اکیلا رہ گیا۔ میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھا کہ رزق حلال کھانے کا حکم دیا گیا ہے۔

میں دن بھر کام کرتا اور رات کو اپنے گھر چلا آتا جو بابا نے مجھے عنایت کردیا تھا۔ حادثات غم زدہ تو کرتے ہیں لیکن وقت ان کا مرہم بنایا گیا ہے۔ میرا جیون بھی بس اسی طرح گزر رہا تھا۔ ایک دن میں اپنے ٹھیلے پر کھڑا تھا کہ برقعے میں ایک خاتون اور جس کے ساتھ دو بچے اور ایک بچی تھی، میرے پاس آئے۔ وہ خاموش کھڑے تھے تو میں نے اس خاتون سے پوچھا: بی بی میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں۔ میں انہیں کوئی مسافر سمجھ بیٹھا تھا اور اکثر ریلوے اسٹیشن پر ایسے لوگ آتے رہتے ہیں۔ لیکن وہ بہ دستور خاموش کھڑی رہی اور اس کے افسردہ بچے بھی۔ پھر مجھے سسکیاں سنائی دیں تو میں چونکا اور مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ تو وہی خاتون ہیں جس نے مجھ سے اپنے والدین کے کہنے پر طلاق لے لی تھی۔

اب وہ کیا لینے آگئی تھی میں سوچنے لگا۔ میں نے اسے بٹھایا اور ماجرا پوچھا تو انکشاف ہوا کہ مجھ سے طلاق کے کچھ عرصے بعد اس کی شادی کسی گاؤں میں کرادی گئی تھی، وہ تینوں بچے اسی کے ہیں۔ پھر اس کے ماں باپ کا ایک بس حادثے میں انتقال ہوگیا۔ جس آدمی سے اس کی شادی کرائی گئی تھی وہ ان کے ساتھ ہی رہتا تھااور نشئی تھا، آہستہ آہستہ اس کے والد کی جمع پونجی ختم ہونے لگی اور وہ مکان بیچنے پر تل گیا اور پھر ہُوا بھی یہی کہ اس نے سسرال سے ملا ہوا مکان فروخت کردیا اور اپنے گاؤں چلا گیا، اس کے والدین وہیں تھے، جب تک اس مکان کی رقم تھی اس وقت تک تو معاملات درست ہی رہے لیکن قارون کا خزانہ بھی تو ایک دن ختم ہوجاتا ہے تو بس پھر مسائل سر اٹھانے لگے اور اس کے والدین نے اسے اپنے گھر سے بے دخل کردیا۔

وہ تو کام کرتا نہیں تھا اور اس کی صحت اب اس قابل بھی نہیں رہی تھی۔ میں لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی اور پھر ایک دن ایک اور افتاد آپڑی میرا شوہر ریلوے لائن عبور کر رہا تھا کہ سر پر ریل آپہنچی اور اس طرح وہ بھی انتقال کرگیا۔ بابا بہت دیر تک خاموش رہے اور پھر بولے: میں نے افسوس کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا کہ وہ مجھ سے کیا چاہتی ہے تو اُس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ پھر مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ میں نے انکار کردیا تو وہ رونے لگی، لیکن میں نے اسے صاف انکار کرتے ہوئے اسے کچھ رقم دی اور واپس اپنے گاؤں لوٹ جانے کا کہا اور یہ بھی کہ میں اسے گزر بسر کے لیے کچھ رقم بھیجا کروں گا تو بس اتنی سی ہے میری کتھا، آگے کا جیون بس یہی ہے جو تمہارے سامنے ہے، بس اسی پر صبر کرو بیٹا کہہ کر انہوں نے اپنی کتھا تمام کی۔

عجیب المیہ بیان کیا بابا نے، لیکن بابا تو مسکراتے رہتے تھے اور خلق خدا کی خدمت میں مصروف۔ میں نے تو انہیں ایسا افسردہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اب جب ان کی داستان سنی تو میں بابا کے اور بھی قریب ہوگیا تھا۔ دیکھیے کیا یاد آگیا:

سجائے رکھتے ہیں چہرے پہ جو ہنسی کی کرن

نہ جانے روح میں کتنے شگاف رکھتے ہیں

سمے دریائے رواں کی طرح بہے چلا جارہا تھا۔ پھر رحمت کا خزینہ رمضان المبارک شروع ہوگیا، اب ہمارے معمولات بھی بدل گئے تھے، ہم ناشتے کے بہ جائے سحری بناتے اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتے اور مزدوروں کے ساتھ ہی خود بھی سحری کرتے اور واپسی کی راہ لیتے۔ مجھے رمضان بہت اچھے لگتے ہیں، کیوں؟ چلیے بتائیں گے کبھی۔ رمضان کا پہلا عشرہ گزر گیا تھا تو ایک دن بابا نے مجھے ساتھ لیا اور راجا بازار چلے آئے۔ انہوں نے بچوں اور خواتین کے سلے سلائے بہت سارے سُوٹ خریدے، خور و نوش کا سامان خریدا، انہوں نے اتنا زیادہ سامان خرید لیا تھا کہ مجھے حیرت ہورہی تھی کہ آخر بابا کو کیا ہوگیا ہے، وہ کس کے لیے یہ سب خرید رہے ہیں۔ ہم نے عصر تک خریداری کی اور سامان اٹھائے واپس اپنی کٹیا آگئے۔

میں سوچ ہی رہا تھا کہ بابا جی نے کہا: یہی سوچ رہے ہو ناں بیٹا یہ سامان کیوں خریدا ہے تو تسلی رکھو، تمہیں ہی پہنچانا ہے، جان جاؤ گے۔ میں خاموش رہا۔ دوسرے دن سحری اور نماز فجر کے بعد بابا اور میں نے سامان اٹھایا اور بس اسٹاپ پہنچے، مطلوبہ گاؤں جانے والی بس جانے میں کچھ دیر تھی، بابا نے ایک ٹکٹ خریدا اور پھر مجھے اس بس میں بٹھا کر وہ سامان اور ایک لفافہ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا: جاؤ رب تعالٰی کے حوالے، جب تم اس گاؤں کے اسٹاپ پر اترو گے تو وہ تمہیں خود ہی مل جائیں گے۔

میں اب اس بات کا عادی ہوگیا تھا۔ میں نے بابا سے کہا جیسے آپ کا حکم ہوگا اس کی تعمیل کی جائے گی۔ بابا نے میری پیشانی پر بوسہ دیا اور بس اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئی۔ تین گھنٹے کے سفر کے بعد میں اُس گاؤں کے اسٹاپ پر اترا۔ مجھ سے سامان سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا لیکن بابا کی امانت بہ حفاظت پہنچانا تو تھی۔ میں نے سامان ایک جگہ رکھا اور اس کے قریب بیٹھ گیا، ابھی مجھے بس چند لمحے ہی گزرے تھے کہ میں نے ایک نابینا کو جو نکھرا ہوا سفید لباس زیب تن کیے ہوئے تھے، آتے ہوئے دیکھا، اور پھر وہ میرے سامنے تھے۔

تم پہنچ گئے بیٹا! اور وہ کیسے ہیں تمہارے بابا جی؟ یعنی کہ جیسے بابا نے کہا تھا تو وہ مجھے مل گئے تھے۔ میں نے ان کے ہاتھ کا بوسہ لیا، انہیں اپنی اور بابا کی خیریت سے آگاہ کیا۔ نابینا بابا نے دعائیں دیں اور پھر ایک بیل گاڑی والے کو آواز دی، وہ ہمارے قریب آیا، مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا اور سامان اٹھا کر اپنی گاڑی میں رکھ کر روانہ ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد نابینا بابا نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: چلو بیٹا جس کی امانت ہے اسے سونپ دیں۔ میں اور بابا چلے جارہے تھے، مجال ہے وہ کسی سے ٹکرائے ہوں، یا انہوں نے میری مدد لی ہو، گہماگہمی ختم ہوئی تو ایک کچی سڑک شروع ہوگئی اور پھر وہ ایک ویرانے سے ہوتے ہوئے ایک بستی میں پہنچے، بس چند گھروں پر مشتمل، وہ ایک گھر کے باہر جاکر بیٹھ گئے، تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ مجھے وہ بیل گاڑی والا نظر آیا، اس نے ہمارے سامنے سامان اتارا، بابا نے اسے پیسے دیے اور وہ رخصت ہوگیا۔

بابا نے اس گھر کے چوبی دروازے پر دستک دی تو ایک خاتون نے دروازہ کھولا، چھوٹے سے صحن میں دو بچے کھیل رہے تھے۔ بابا نے مجھے حکم دیا کہ سامان اندر رکھ دو، میں نے حکم کی تعمیل کی، بابا گھر کے اندر داخل نہیں ہوئے تھے، جب میں نے سامان اندر رکھ دیا تو انہوں نے ایک لفافہ اس خاتون کو دیتے ہوئے کہا: لو بیٹا جی تمہاری امانت تم تک پہنچ گئی، خوب اچھی طرح عید منانا، اور کوئی بھی مسئلہ ہو تو مجھے بتا دینا۔ اس خاتون نے اصرار کیا کہ اندر آئیں لیکن بابا نے رخصت لی اور میرا ہاتھ پکڑے پھر سے بس اسٹاپ پر پہنچے، پورے راستے وہ خاموش رہے اور پھر انہوں نے مجھ سے کوئی بات کیے بغیر ہی مجھے یہ کہتے ہوئے رخصت کردیا کہ جاؤ بیٹا اپنے بابا کی خدمت کرنا اور وہ جیسے کہیں تو ان کے حکم کی تعمیل کرنا۔ میں نے واپسی کا ٹکٹ خریدا اور بس میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ یہ کیا ہوا، وہ نابینا ہیں لیکن ۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ انہوں نے مجھے روکھے سوکھے ہی رخصت کردیا، وہ عورت کون تھی، اور اس کے گھر میں کھیلتے ہوئے بچے اور نہ جانے کیا کیا۔

بس میں ہی افطار کا وقت ہوگیا تھا تو میں نے افطار کیا، لوازمات کی ضرورت تو مجھے آج تک نہیں رہی، رب تعالٰی نے کھانے پینے سے بے نیاز رکھا ہوا ہے، اس سے بڑی نعمت بھلا اور کیا ہوگی۔ جب میں واپس پنڈی پہنچا تو خاصی رات ہوچکی تھی، میں بابا کے پاس کٹیا میں پہنچا تو وہ میرے منتظر تھے۔ انہوں نے بھی مجھ سے کوئی بات نہیں پوچھی اور یہ حکم دیتے ہوئے لیٹ گئے کہ سوجاؤ جلدی جاگنا ہوگا۔ بابا کچھ دیر کے بعد ہی جاگ گئے تھے اور میں سویا ہی نہیں تھا، میرے اندر حقیقت جاننے کا تجسس کنڈلی مارے سانپ کی طرح بیٹھا ہوا مجھے ڈس رہا تھا۔ تم نہیں سوئے ناں بیٹا! بابا نے مجھ سے پوچھا۔ نہیں بابا میں سو ہی نہیں سکا، میں نے جواب دیا۔

اور پھر بابا بولے کیسے نیند آئے تجھے بیٹا، کیا کچھ سوچ رہے ہو تو اس میں کیسے نیند آئے۔ مجھے خاموش دیکھ کر بابا نے چولہا جلایا اور دعائے نیم شب میں مصروف ہوگئے، سحری کا وقت شروع ہونے والا تھا ہم نے کھانے پینے کا سامان اٹھایا اور اپنے ٹھکانے پر پہنچے، میں بالکل خاموش تھا۔ واپسی میں ہم نے نماز فجر ادا کی اور پھر بابا مجھے ساتھ لیے اپنی کٹیا میں آبیٹھے۔ یہی سوچ رہے ہو ناں کہ وہ بابا نابینا ہونے کے باوجود کیسے دیکھ پاتے ہیں، ہزار بار بتایا ہے کہ یہ آنکھیں بس وہ دیکھتی ہیں جو ان کے سامنے ہو، بس اتنی ہی استطاعت ہے ان آنکھوں کی، اصل تو دل بینا ہوتا ہے جس کے سامنے کوئی نہیں چُھپ سکتا، ہاں تاریکی میں بھی، خلوت میں اور جلوت میں بھی۔ اب وہ ہیں کون، بس اتنا کافی نہیں ہے کہ وہ ہمارے دانا ہیں راہ بری کام ہے۔

ان کا، اب تم اس میں اٹک گئے کہ وہ خاتون کون تھی، تو پگلے کچھ تو اپنا بھیجا استعمال کیا کر، تجھے اپنی کتھا سنا تو چکا ہوں، وہ خاتون وہی تھی جس نے مجھ سے طلاق لے لی تھی اور پھر شادی کرنا چاہتی تھی، میں نے اس سے شادی تو نہیں کی لیکن اس سے وعدہ کیا تھا کہ اسے اس کے اخراجات کے لیے رقم بھیجا کروں گا تو بس اسے سال بھر کے کپڑے، سامان اور نقدی پہنچا دی ہے، اس لیے کہ میں تو اس سے اب نہیں مل سکتا کہ یہ منع ہے، کچھ آئی تمہارے بھیجے میں۔ بابا اس راز کو عیاں کرتے ہوئے مسکرا رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ کیسے کیسے درویش اس فانی دنیا کی زینت ہیں، میں نے بابا کی جانب دیکھا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے اپنے سینۂ پُرنور سے لگا لیا: بیٹا! اب اس میں رونے کی کیا بات ہے، بس حکم ہے راضی بہ رضائے الہی رہو تو بس ہم ہیں۔

تمہیں یہ کس نے کہا ہے کہ ہم بندھے ہوئے ہیں

ہمارے پاؤں تو زنجیر ہوکے کُھلتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔