’’سب جانتے ہیں‘‘

ساجد ڈاڈی  بدھ 24 اپريل 2019
’’سب جانتے ہیں‘‘ وہ جملہ ہے جو ہم اکثر سنتے رہتے ہیں۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

’’سب جانتے ہیں‘‘ وہ جملہ ہے جو ہم اکثر سنتے رہتے ہیں۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

’’سب جانتے ہیں‘‘ وہ جملہ ہے جو ہم حکومتی عہدیداروں، وفاقی وزراء اور کچھ دانشوروں کے منہ سے تقریباً ہر روز بلکہ شب و روز سنتے ہی رہتے ہیں۔ ان کی تان یہیں آکر ٹوٹتی ہے کہ سب جانتے ہیں کہ نواز، زرداری چور ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پچھلے دو ادوار میں ملک کو بے دردی سے لوٹا گیا۔ سب جانتے ہیں کہ ان دو خاندانوں نے منی لانڈرنگ کرکے خزانے کو بے دریغ نقصان پہنچایا، وغیرہ۔ ابھی پچھلے دنوں شیخ رشید صاحب نے بھی اپنی دلیل کی بنیاد ’’سب جانتے ہیں‘‘ پر ہی رکھی۔ درحقیقت ’’سب جانتے ہیں‘‘ کا جملہ تب ہی استعمال کیا جاتا ہے یا کیا جانا چاہیے جب ہمارے گمان کو ثابت کرنے کےلیے دلیل یا ثبوت ناکافی ہوں یا پھر سرے سے موجود ہی نہ ہوں۔

مثلاً اگر ہم ’’سب جانتے ہیں‘‘ کی بنیاد پر ہی برسراقتدار پارٹی کا ماضی، حال اور مستقبل دیکھیں تو تصویر کچھ اس طرح بنتی ہے:

سب جانتے ہیں کہ توقعات کے برعکس 2013 کی انتخابی مہم کے دوران مینار پاکستان پر پی ٹی آئی کا سیاسی قوت کا مظاہرہ اور ملکی سیاست میں دھماکہ خیز اینٹری کے پیچھے کون صاحب کار فرما تھے۔

سب جانتے ہیں کہ 2013 کے انتخابات میں ن لیگ کی واضح اکثریت سے کس کے ارمانوں پر اوس پڑی تھی اور پھر یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ دھرنےکے پیچھے کارفرما قوتیں کون تھیں، ان کے مقاصد کیا تھے؟ جاوید ہاشمی صاحب اس کی تفصیل کئی بار بتا چکے ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ کم وبیش چارماہ دارالحکومت میں دھماچوکڑی کرکے آئینی حکومت کو کس طرح اور کس کی دلی تسکین کےلیے مفلوج کردیا گیا۔

سب جانتے ہیں کہ ن لیگ نے مشکل ترین حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور شب و روز محنت کے بعد وہ نتائج حاصل کیے جن کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر بھی کیا گیا اور سراہا بھی گیا۔

سب جانتے ہیں کہ ن لیگ کو امن و امان کی دگرگوں صورتحال بطور ورثہ ملی تھی اور اس چیلنج کو بھی اس حکومت نے بخوبی پورا کیا جس کے نتیجے میں تقریباً پورے ملک اور بالخصوص کراچی میں کئی دہائیوں بعد امن و امان کی فضا قائم ہوئی۔

سب جانتے ہیں کہ خالی خزانے نے چوبیس ارب ڈالر کے ذخائر کی چکاچوند بھی اسی دور حکومت میں دیکھی جو دور حکومت آپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

سب جانتے ہیں کہ ترقی کی منازل طے کرتے اس ملک کو پھر زوردار جھٹکا پانامہ لیکس کے بعد دیا گیا جس کے نتیجے میں حکمرانوں کو عملاً یرغمال بنادیا گیا اور بجائے اس کے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کی جانب توجہ کرتے، انہیں عدالتوں کے چکر کاٹنے پر لگادیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیرملکی سرمایہ کاری میں نہ صرف واضح کمی ہوئی بلکہ سرمایہ نکال بھی لیا گیا۔

سب جانتے ہیں کہ کس نے اور کس طرح ایک مذہبی گروہ کی سرپرستی کرکے اسے فیض آباد میں آباد کیا گیا اور حکومت کو ایک اور ٹف ٹائم دیا گیا۔

سب جانتے ہیں کہ کس طرح حکومتی معاملات میں عدالتی مداخلت اور عوامی نمائندوں کی تضحیک کرکے عوامی سطح پر مقبولیت کو کم کرنے کی کسی حد تک کامیاب کوشش کی گئی۔

سب جانتے ہیں کہ کرپشن کے بلند بانگ دعووں کے باوجود جب بات کہیں نہ بن پڑی تو اپنی انا کی تسکین کےلیے پانامہ سے اقامہ پر بات آگئی اور اسی پر نااہلی بھی ہوگئی۔ جس برق رفتاری سے یہ کیس نمٹایا گیا، وہ خود ایک مثال بھی ہے اور کسی کی خواہش کی تکمیل بھی۔

سب جانتے ہیں کہ اس تمام نورا کشتی کے بعد بھی جب لاڈلے صاحب کمزور کے کمزور ہی رہے تو پھر کس نے اور کس طرح ’’الیکٹیبلز‘‘ کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور اور آمادہ کرکے اس لشکر کو تقویت بخشی۔

سب جانتے ہیں کہ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود پراسرار طور آر ٹی ایس سسٹم کے بیٹھ جانے یا بٹھائے جانے کے پیچھے کیا عوامل کرفرما تھے؛ اور کیونکر نتائج تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آئی۔

سب جانتے ہیں کہ کس طرح اور کس نے ایک کی کردار کشی اور ایک کی راہ ہموار کی۔ کس طرح ایک کو اہل اور صادق و امین ٹھہرایا گیا اور دوسرا کس طرح کرپٹ اور نااہل۔

یہ کچھ باتیں ہیں جن کا مختصر تذکرہ کرسکا ہوں لیکن مستقبل کے بارے میں صرف ایک ہی جملہ کافی ہے:

’’سب جانتے ہیں‘‘ کہ اگر آپ ’’ان‘‘ کے کہے کے مطابق چلتے رہے تو ’’سب ٹھیک‘‘ رہے گا ورنہ آپ کا مستقبل بھی نواز شریف سے کچھ مختلف نہ ہوگا۔

شیخ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ فیصلوں کو دلیل اور ثبوت کی بنیاد پر ہی ہونے دیں تو اچھا ہے وگرنہ ’’سب جانتے ہیں‘‘ کی بنیاد پر فیصلے ہونے لگے تو پھر کیا ہوگا؟ یہ بھی ’’سب جانتے ہیں!‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ساجد ڈاڈی

ساجد ڈاڈی

بلاگر ملکی سیاست سے دلچسپی رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا پر سماجی پوسٹس لگاتے رہتے ہیں۔ ’’اقبال‘‘ جرم کے نام سے فیس بُک پر لکھتے ہیں جبکہ ان کی آئی ڈی بھی iqbalejurm3 ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔