محبت یا قربانی!!! تکون کی چوتھی جہت کیا ہوسکتی ہے؟

عارف عزیز  جمعـء 19 اپريل 2019
کہانی میں مصنف نے ”شناخت“ کو بھی موضوع بنایا ہے فوٹو: ایکسپریس

کہانی میں مصنف نے ”شناخت“ کو بھی موضوع بنایا ہے فوٹو: ایکسپریس

 کراچی: اقبال خورشید کی ’مصنوع تکون‘ ایک عورت، مرد اور ایک جنگ پر مشتمل ہے اور یہ لگ بھگ اسّی صفحات پر محیط ہے۔ ضروری یا بنیادی بُنت کے بعد کسی ناول کے اہم یا دل چسپ ہونے کی کوئی وجہ ہو سکتی ہے تو میری نظر میں یہ طرزِ نگارش ہے۔

اقبال خورشید فکشن نگار ہیں۔ کالم نویسی اور ادبی جریدے کی ادارت ان کا ایک اور حوالہ ہے۔ وہ ڈیڑھ عشرے سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ ہیں۔ پچھلے ہفتے اقبال خورشید کے ایک جلد میں بند دو ناولٹ منظرِ عام پر آئے۔ اس کتاب میں پہلا ناولٹ ”تکون کی چوتھی جہت“ اور دوسرا ”گرد کا طوفان“ کے عنوان سے پڑھنے کو ملا۔

ناولٹ ”تکون کی چوتھی جہت“ جنگ کے دنوں میں جنم لینے والی محبت کی روداد ہے۔ اس کہانی میں مصنف نے ”شناخت“ کو بھی موضوع بنایا ہے۔ یعنی اپنے کرداروں کے ذریعے میں کون ہوں، میرا دشمن کون ہے، وہ اور میں کس طرح یکساں ہیں اور کیسے مختلف؟ یہ بتانے کی کوشش کی ہے۔

تین مرکزی کرداروں کی یہ کہانی شہر کراچی سے شروع ہوتی ہے۔ ایک برستی شام کا منظر ہے، جہاں عورت دریچے میں بیٹھی فون پر اپنے شوہر سے بات کر رہی ہے، جو ملک کے شمالی علاقے میں ایک منصوبے پر عمل درآمد کی غرض سے موجود ہے اور وہاں اس وقت برف گر رہی ہے۔ رابطہ یک دم منقطع ہوجاتا ہے۔ دراصل اس شخص کو، اغوا کر لیا گیا ہے۔ اغوا کاروں میں سے ایک، جسے ناول نگار نے جنگ جُو کہہ کر مخاطب کیا ہے، اس شخص سے واقف ہے۔ اور یوں ایک تکون جنم لیتی ہے۔ مرد، عورت اور جنگجو پر مشتمل۔ اور اسی تکون کے وجود سے ابھرتی ہے چوتھی جہت، جو اس ناول کی انتہا ہے۔

اقبال خورشید کے بیانیے کی تیکنیک کے بعد علامت یا تجرید سے گندھی سطور، زمینی کرداروں اور حقیقی کہانی کا اساطیری لہجہ، پُراسرار اور رنگ آمیز ابہام، کسی باب کی انتہا پر انجان و نامعلوم سے ادراک کی طرف بڑھنے پر اکساتا ہر سوال ان کے زورِ تخیل کی عمدہ مثال ہیں۔ اس کہانی کے قاری کا تخیل ناول کے اختتام پر اڑان بھرتا ہے اور نکل جاتا ہے، تکون کی چوتھی جہت کی کھوج میں۔

اس ناولٹ کا اسلوب قابلِ توجہ ہے۔ ناول کی زبان سادہ اور رواں ہے، جو ضروری بھی تھا کہ ناول کی تیکنیک پُرپیچ ہے، اگر زبان بھی گنجلک ہوتی، تو ابلاغ کا امکان ختم ہوجاتا۔ یہ زبان کہانی میں خواب سی کیفیت پیدا کرتی ہے، ہمیں بارش، برف باری، دھند، کہرا دھواں بار بار نظر آتا ہے۔

اسی زبان میں اساطیری حوالے بھی گندھے ہوئے ہیں، جس سے ناول نگار کی اس موضوع میں دل چسپی کے ساتھ ساتھ ان حوالوں کو اپنے فکشن کے لیے علامت اور استعارہ بنانے کی خواہش بھی جھلکتی ہے۔ گوتم بدھ، جو ٹائٹل پر بھی نظر آتا ہے، تکون کی چوتھی جہت کی ابتدا سے انتہا تک سانس پھونکتا ہے۔

ناول نگار نے کہانی بیان کرنے کے انداز کو توڑا ہے۔ کیا یہ ناول نگار کے لیے سودمند ثابت ہوگا؟ ہاں، اس کا موضوع دہشت گردی ہے جسے نثر کی مختلف اصناف میں سبھی نے برتا ہے۔ لیکن اسی ”پامال موضوع“ کو اقبال خورشید نے کس منفرد اور خوب انداز سے برتا ہے، یہ جاننے کے لیے کتاب کا مطالعہ کرنا ہو گا۔

ممتاز نقاد شمس الرحمان فاروقی نے اسے ایک کام یاب کوشش، جب کہ سینئر فکشن نگار حسن منظر نے اسے اثر انگیز قرار دیا ہے۔ اس کتاب پر مشرف عالم ذوقی اور باقر نقوی جیسی معتبر شخصیات کی رائے بھی درج ہے، جنھوں نے اس کی تعریف کی ہے۔ ٹائٹل پر مستنصر حسین تارڑ کی رائے درج ہے، جن کے مطابق اس ناولٹ کے بعد اقبال خورشید میرے لیے ایک بڑا نام ہے۔

کتاب میں شامل دوسرا ناولٹ گرد کا طوفان ایک الگ مضمون کا محتاج ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔