کیسے کیسے لوگ تھے

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 21 اپريل 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

مارول پرانے رومیوں کی طرح حب الوطنی کا جذبہ رکھتا تھا ، اس نے کیمرج میں ڈین بی کے ساتھ تعلیم پائی تھی جو آگے چل کر شاہ چارلس دوم کا مشیر بنا ۔  مارول پہلے تو بادشاہ کا حامی تھا، لیکن جب شاہ چارلس دوم کی بدعنوانیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں اور ملک میں بد امنی، رشوت ستانی اور ظلم کا بازارگرم ہوا تو مارول نے نہایت بیباکی سے بادشاہ اور اس کے اہل دربار پر سخت تنقید کے اور ہجو شائع کیں اس کی تحریریں جب بادشاہ کی نظر سے گذر ی تو بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ کسی طرح اسے اس رویے سے باز رکھے۔

دھمکیاں، خوشامد، لالچ، دولت اور حسن کے جال یہ سب اس پر اثر ڈالنے میں ناکامیاب ثابت ہوئے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ما رول پر حسن، دولت، رشوت ،خوف ،مصائب غرض کسی چیزکا جادو نہیں چل سکتا تھا آخرکار مارول کا پرانا ہم جماعت لارڈ ڈین بی ایک دن ملنے کے بہانے اس کے گھر آیا اور اسے  ساتھ ملا لینے کی غرض سے جاتے وقت اس کے ہاتھ میں ایک ہزارپونڈ کا چیک دے کر چلنے لگا ۔

مارول نے اس سے ایک منٹ ٹہرنے کی التجا کی اور فورا ً اپنے خدمت گار کو بلا کر پوچھا ’’کل شام تم نے کیا پکایا تھا۔‘‘ نوکر نے جواب دیا کہ ’’ جناب کو تو معلوم ہی ہے کل شام میں نے آپ کے لیے گوشت پکایا تھا۔‘‘ مارول نے پھر سوال کیا کہ ’’ آج شام کے لیے کیا بندوبست کیا ہے ۔‘‘ نوکر نے کہا کہ ’’ آپ پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ آج شام کے لیے کل والے گوشت میں سے بچائی ہوئی ہڈیاں بھون لی جائیں‘‘ پھر مارول لارڈ ڈرین بی سے مخاطب ہو کر بولا ۔’’حضور نے سن لیا میرے گھر میں شام کے کھانے کا سامان موجود ہے،آپ کا چیک آپ کو مبارک ہو حکومت کو چاہیے کہ اپنے مطلب کے آدمی کہیں اور تلاش کرے، میں حکومت کا آلہ کار نہیں ہوں ۔‘‘

مارویل نے مرتے دم تک شرافت کا ثبوت دیا اور وہ ایماندار جیا اور ایمانداری کی حالت میں مرا اس کی قبر پرآج بھی یہ الفاظ کندہ ہیں ’’ یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے نیک آدمی محبت کرتے تھے برے آدمی ڈرتے تھے اورجس کی ہمسر ی ممکن نہ تھی‘‘  سر رابرٹ والپول کے دور وزرات میں پلیٹنی حزب مخالف کا لیڈر تھا، دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے اس نے ایک لاطینی فقرہ ادا کیا۔

سررابرٹ والپول نے اس فقرے میں غلطی بتائی اور یہ شرط رکھی کہ اگر فقرہ صحیح ہو تو میں ایک گنی دونگا، شرط قبول کی گئی اور لاطینی کتابوں سے رجوع کرنے پر معلوم ہوا کہ پلٹینی کا فقرہ صحیح تھا۔ وزیراعظم نے شرط کے مطابق ایک گنی میز پر رکھ دی پلٹینی نے اسے اٹھاتے ہوئے دارالعلوم کے ارکان سے کہا کہ ’’ صاحبوگواہ رہنا کہ یہ سرکاری خزانے کا پہلا سکہ ہے جسے میں لے رہا ہوں‘‘ یہ سکہ آج تک برٹش میوزیم میں پلٹینی کی گنی کے نام سے محفوظ ہے ۔

عظیم شاعرگولڈ اسمتھ جب تک جیا غریب ہی رہا اور مرتے دم تک بھی غربت اور قرض اس کے رفیق تھے، تاہم دنیا کی دولت اسے خریدنے سے قاصر رہی،اس نے کبھی حکومت کا آلہ کار بننا گوارا نہ کیا، ذلیل سیاسی نظموں اور صحافت سے اسے ہمیشہ عار رہا۔ سررابرٹ والپو ل کے دور وزارت میں پانچ لاکھ روپے سالانہ کی خفیہ رقم سیاسی پروپیگنڈے کے لیے مخصو ص تھی ادیبوں اور شاعروں کو حکومت کے کارناموں کی تعریفیں لکھنے کے لیے باقاعد ہ وظیفے ملتے تھے۔

حکومت نے یہ طے کیا کہ گولڈ اسمتھ کو اپنا آلہ کار بنا کر مضامین اور نظمیں لکھوائی جائیں، چنانچہ لارڈ سینڈوچ کی طرف سے ڈاکٹر اسکاٹ کو مامور کیا گیا کہ وہ گولڈ اسمتھ کو اس کام پر راغب کر ے ۔ ڈاکٹر اسکاٹ اس سے جاکر ملا لیکن ناکام واپس آیا، اسکاٹ کے الفاظ ہیں ’’میں نے اسے بر ے حال میں دیکھا اور اپنا منصب اسے بتا کر یہ واضح کیا کہ اگر وہ حکومت کا کام کرے گا تو اسے نہایت معقول معاوضہ دیاجائے گا ، لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ اس نے مجھے یہ عجیب وغریب جواب دیا کہ میں حکومت کی طرف داری کیے بغیر اپنی ضرورت کے لائق کماسکتا ہوں مجھے حکومتی رشوت کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘ سقراط کی ساری زندگی غربت میں گزری ۔

ارسطائیدس کو اس کی غیر متزلزل ایمانداری کی بنا پر ’’ انصاف پسند ‘‘ کا خطاب ملا، یونان کے ایک شہر میں جب بھگدڑ مچی تو تمام شہر ی اپنا اپنا قیمتی سامان لے کر بھاگے، لیکن بپاس نے اپنا رتی بھر سامان نہ اٹھایا، اس کے دوستوں نے تعجب کا اظہارکیا تو جواب ملا کہ آپ کی حیرت بے محل ہے، میرا تمام خزانہ (جوہر ذاتی ) میرے ساتھ ہے ، اگر ہم اپنی ملکی تاریخ میں ڈھونڈنے بیٹھیں تو ہمیں گنتی کے چند ہی رہنما ملیں گے جنہوں نے رشوت، دھمکی، لالچ، خوف ، حسن ، مصائب کی پروانہ کرتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ اپنی زندگی بسرکی اور ساتھ ساتھ اپنے آپ ، اپنے منصب ، اپنے ملک ، اپنے عوام سے بھی ایمانداری و وفاداری برتی، ورنہ آج ہم دور دور نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ رشوت ،کمیشن ، حسن،کرپشن کے حمام میں سب ننگے ہیں۔

دنیا میں بے ایمانی سمیت تمام برائیوں وخرابیوں کی ایک حد ہے اگر آپ کوکہیں ہر حد پارہوتی ہوئی ملے تو سمجھ لیں کہ  وہ پاکستان ہے آپ کو ایسی بانجھ زمین اور قوم کہیں اور نہیں ملے گی جہاں، نیک، شریف،ایماندار بااختیار لوگ اتنی کم تعداد میں پائے جاتے ہوں کہ انھیں شمارکرکے آپ کو شرم آجائے، سرندامت سے اٹھ نہ سکے، آپ اپنی نظروں میں اتنے گرجائیں کہ پھرکبھی دوبارہ کھڑا نہ ہوسکیں۔کوئی بھی معاشرہ افراد کی اخلاقی اقدارکی وجہ سے اچھا برا بنتا ہے جیسے کسی سماج یا معاشرے کی شکل وصورت ہوگی، ویسے ہی اس کے خیالات ، نظریے اور عقائد ہونگے جیسا رہن سہن ہوگا، ویسی ہی سو چ ہوگی۔ ایک مرتبہ آئن اسٹائن نے کہا تھا ’’ ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے‘‘ اس نے خود جواب دیا’’ اگرکائنا ت حادثہ ہے توہم بھی حادثہ ہیں لیکن اگرکائنا ت کے کوئی معنی ہیں تو ہم میں بھی معنیٰ ہیں۔‘‘

زندگی کا مقصد صرف لوٹ مارکرپشن یادولت کا ذخیرہ کر لینا نہیں ہے انسان کی زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہونا چاہیے۔ یزد نے کہا تھا ’’آدم کے بیٹو ! اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل وخوار نہ کرو،کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ پاگل کتے بھی اپنا گوشت خود نہیں چباتے، جب کہ ایمرسن نے کہا ہے کسی ملک کی تہذیب کا صحیح معیار نہ تو مردم شماری کے اعداد ہیں نہ بڑے بڑے شہروں کا وجود نہ غلے کی افراط اور دولت کی کثرت بلکہ اس کا صحیح معیار صرف یہ ہے کہ وہ ملک کسی قسم کے انسان پیدا کرتا ہے۔ انسان تمام جانوروں میں واحد جانور ہے جوکیا ہورہا ہے اورکیا ہونا چاہیے کہ فرق کو سمجھتا ہے۔ جو معاشرہ اخلاق سے عاری ہوتا ہے وہ تباہ ہوجاتا ہے۔

یاد رہے تاریخ کی ساری ناکامیاں اخلا قی ناکامیاں تھیں، لالچ ، خوف، دبائو  یہ تین چیزیں اخلاقیات پر حملہ آور ہوکر اسے تباہ کر دیتی ہیں، جیت کے لیے نہیں بلکہ جیتنے کے لیے زندہ رہا جا ئے ۔ بد قسمتی سے ہمارے صاحب اختیار صرف جیت کے لیے زند ہ ہیں ۔ ہمارے صاحب اختیاروں کی قبر کے کتبے پر یہ لکھا ہونا چاہیے کہ ’’یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے برے آدمی محبت کرتے تھے اور نیک آدمی ڈرتے تھے اور جس کی ہمسری ممکن نہ تھی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔