ہم جنگ لڑیں گے… ہم؟؟

شیریں حیدر  اتوار 21 اپريل 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میرے گاؤں بھدر سے ہمارے اسلام آباد والے گھر کا فاصلہ اڑھائی گھنٹے کا ہے … اب فاصلے میلوں ، کوسوں اور کلومیٹروں میں نہیںبلکہ وقت کے ساتھ ناپنے کا رواج ہے۔ گزشتہ اتوار کو ہم صبح گھر سے عازم ہوئے، گاؤں کے لیے تو ارادہ تھا کہ گاؤں سے واپسی پر پانچ بجے نکلیں گے اور سورج غروب ہونے سے پہلے ہم سوہاوہ گزر جائینگے، آگے آسان سفر ہے ۔

سوا گھنٹے میں ہم دینہ گزر کر اپنے حساب سے بہت اچھے جا رہے تھے کہ ترکی Tarrakiکے ٹال پلازہ سے پہلے موڑ کے پاس سے ٹریفک جام دکھائی دیا۔ ایک جگہ پر گاڑیاں واپس مڑتی ہوئی نظر آئیں ، اس کا مطلب تھا کہ لمبی لائن تھی پھر ایک جگہ سڑک کے تقسیم کرنیوالی دیوار میں کٹاؤ نظر آیا جہاں سے لوگ اپنی گاڑیوں کو الٹے رخ پر یعنی آنے والی ٹریفک والی سڑک پر لے جا کر غلط سمت سے اسلام آباد کی طرف جا رہے تھے، سورج غروب ہونے کو تھا، گاڑیوں کی لمبی قطار اور کیوں کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ ایک گھنٹہ گزر چکا تھا کہ گاڑی کا انجن بند کر کے ہم ایک ہی مقام پر کھڑے تھے۔

داہنی سمت ایک عام سا ہوٹل تھا جیسے کہ بر لب سڑک ہوتے ہیں ۔ صاحب کو مشن پر بھیجا کہ پانی لے آئیں، ٹریفک کے اس طوفان کے بیچ سے سڑک کے پار سے ایک ہوٹل سے پانی کی تین بوتلیں لے کر آنا ایک ایسی کامیابی تھی جسکا ادراک کافی بعد میں ہوا۔ گاڑی بند کرو تو گھٹن، اسٹارٹ کرو تو تیزی سے خرچ ہوتا ہوا پٹرول، شیشے اتارو تو باہر سے عجیب ملی جلی سی بساند ، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ لوگ اپنی گاڑیوں سے باہر نکل کر سڑک پر یوں چہل قدمی کر رہے تھے جیسے کہ کسی کو کہیں جانا ہی نہ تھا۔

اس اژدہام میں کہیں سے ایمبولینسوں کی چلاتی ہوئی آوازیں بھی تھیں جن کے پاس کوئی چارہ نہ تھا، نہ ہی ان لوگوں کے پاس کوئی آپشن تھا جو اس کی آواز سن کر بے بسی محسوس کر رہے تھے۔ سڑک کی دوسری طرف چلی جانے والی سیکڑوں گاڑیوں نے اسلام آباد کی طرف سے آنے والی اس ٹریفک کو بھی بلاک کر دیا تھا جو ایک گھنٹہ پہلے تک مسلسل چل رہی تھی۔ کئی گاڑیوں کے اوپر بندھا ہوا سامان اس بات کی علامت تھا کہ اس میں سوار لوگ کسی بیرون ملک کی پرواز کے مسافر تھے ۔

کئی گاڑیاں سڑک کے کنارے اس طرح کھڑی تھیں کہ ان کے سوار باہر کھڑے تھے، گاڑی کا بونٹ کھلا ہوا تھا ، گاڑی مسلسل اسٹارٹ رہنے کی وجہ سے گرم ہو گئی تھی یا پٹرول کی بچت کے لیے لوگوں نے سڑک کنارے پارکنگ کر لی تھی۔ مخالف سمت سے آتے ہوئے ایک بائیک سوار سے یہ علم تو ہوا کہ کوئی آئل ٹینکر الٹ گیا ہے اور اس سے تمام سڑک بلاک ہو گئی ہے، آئل ٹینکر کا سن کر تو اور ہی طرح کا خوف لاحق ہو گیا۔ عقابی نظریں ہر طرف گھومنے لگیں کہ کہیں کوئی سگریٹ ہی نہ سلگا لے… کسی کی بائیک کے اسٹارٹ ہونے سے کوئی اسپارک نہ پیدا ہو، دل ہی دل میں دعاؤں کا ورد کرنے لگی۔

جتنا مرضی صبر کامظاہرہ کر لیں مگر دوسری گاڑیوں کے ڈرائیور آپ کو ایسے حالات میں زچ کر دیتے ہیں اور آپ جتنی بھی کوشش کرلیں کہ دو رویہ سڑک ہے تو اس پر گاڑیوں کی دو لین ہی رہیں، آپ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہماری طرف اس تنگ سی سڑک پر پانچ سے چھ لین بنی ہوئی تھیں اور مخالف سمت میں بھی اسی رخ کی چار لین۔ بارات کی گاڑی بھی نظرآئی ، جس کا انتظار کرتے کرتے اسلام آباد میں تو شادی کا فنکشن ختم ہو گیا ہو گا۔ چھوٹے بچے اور ’’ غیر چھوٹے‘‘ مرد حضرات تو عین پاکستانی رواج کے مطابق سڑک کے کنارے کو ہی ٹائیلٹ بنائے ہوئے تھے مگر وہاں کچھ اور مخلوقات بھی تھیں۔

کوئی ٹریفک پولیس والا، کوئی انتظامیہ کا فرد ہمیں وہاں تین گھنٹے تک نظر نہیں آیا۔ چار گھنٹے ہمیں اس مقام پر پھنسے ہوئے ہو چکے تھے جب ہمیں کہیں سے پولیس کی گاڑیاں نمودار ہوتی ہوئی دکھائی دیں اور ان کے ساتھ ایک بڑے سے ٹرالر پر لدی ہوئی بڑی سی کرین۔ ( بعد ازاں علم ہوا کہ وہ کرین ، اس ٹرالر کو اٹھانے کی طاقت نہ رکھتی تھی ) امید بندھی کہ چلو اب جلد کچھ ہوجائے گا ، زنجیر کے آنکڑوں کی طرح پھنسی ہوئی گاڑیوں نے بھی بادل نخواستہ کچھ نہ کچھ ہٹ کر انھیں راستہ دیا، انھیں راستہ دیتے تو خود کو راستہ ملنا تھا نا۔ پھر یہ ہوا کہ ٹریفک پولیس والوں نے گاڑیوں کی چھ سات لین کو کم کروایا، سارے ٹرک اور ٹرالر سڑک کے کنارے پارک کروائے اور یوں پانچ گھنٹے کے بعد، سنگل لین میںہو کے چیونٹی کی رفتار سے ہم سڑک پر گرے ہوئے اس تیل کے دریا کو عبور کر کے ، صبح کے پونے ایک بجے ہم گھر پہنچے ۔

ہر مسافر اس وقت مجبوری کی انتہا پر تھااورایسے حالات میں انسان بے بسی سے لبریز ہوتا ہے جب آپ سوچ بہت کچھ رہے ہوتے ہیں مگر کر کچھ نہیں سکتے۔ کسی کو اپنی ملازمت پر پہنچنا ہو گا اور کسی کو ڈاکٹر کی اپائنٹمنٹ پر ، کسی گاڑی میں کوئی بچہ بھوک سے بلک رہا ہو گا اور کسی میں بزرگ۔ کسی کی بارات منزل مقصود پر نہیں پہنچ پا رہی تھی اور کسی کی پرواز چھوٹ گئی ہو گی۔ کسی گاڑی میں کسی کو ٹائیلٹ جانے کی ایمر جنسی ہو گی۔ کسی کو اپنے کسی پیارے کے جنازے پر پہنچنا ہو گا اور ممکن ہے کہ کسی گاڑی میں کوئی میت بھی ہو۔ مسافروں سے بھری ہوئی ویگنیں بھی تھیں اور بسیں بھی، جتنے لوگ تھے اتنی ہی مجبوریوں کی داستانیں ، ہر کوئی کچھ نہ کچھ سوچ رہا ہو گا اور ظاہرہے کہ تھوڑا سا دماغ میرے پاس بھی ہے۔

میں سوچ رہی تھی کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں، گزشتہ دو ماہ سے ہمارے سروں پر جنگ کی تلوار لٹک رہی تھی اور ہماری حکومت کے بھی دعوے تھے کہ حملہ کرنیوالے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا ۔ ہم بھی اخبار میں پڑھ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہم تعداد میں کم سہی مگر ہماری فوج کے جذبے کے سامنے دشمن کمزور ہے اور ہمیں شکست نہیں دے سکتا مگر وہاں گاڑی میں بیٹھے ہوئے میری سوچ نے پلٹا کھایا او ر میں نے استہزائیہ ہنسی ہنس کر خود سے پوچھا، ’’ ہم جنگ لڑیں گے… ہم؟؟ ‘‘ ہاہاہا، دماغ سے ایک قہقہہ اٹھا اور اس نے آنکھوں کو آنسوؤں سے لبریز کردیا ہمارے دشمن کو تو ہم پر کسی بھی طرح کا حملہ کرنے کی ضرورت نہیں… بس کچھ اس طرح کے مقامات پر ہمارے ہاں دو تین ٹرالر الٹا دے… چار پانچ گھنٹے میں ہزاروں گاڑیاں جمع ہو کر اس سڑک کو مکمل بلاک کر دیں گی، نہ کوئی مائی کا لال آسکے گا نہ جا سکے گا، فوج کی نقل و حرکت کون کروا سکے گا؟ ہم اتنی بد نظم قوم ہیں کہ ہم میں crisis management کا شعور ہی نہیں۔

جنگ تو بہت بڑی چیز ہے ہم تو ایک چھوٹے سے حادثے کے نتائج کا مقابل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے جہاں ہم کسی کو مشکل میں پھنسا ہوا دیکھتے ہیں، اس کی مشکلات میں مزید اضافے کے لیے کوشاں ہو جاتے ہیں، کوئی مرے یا جئے ہمیں اس سے کیا۔ ہاں اب ایک نیا ٹرینڈ شروع ہو گیا ہے کہ ہم کسی حادثے کی گواہی کے لیے فورا کیمرہ آن کرتے ہیںاور وڈیو بنانا شروع کر دیتے ہیں، آخر ہمیں بھی تو سوشل میڈیا پر کچھ نہ کچھ اپ لوڈ کرنا ہوتا ہے۔ پانچ گھنٹے…( یا شاید اس سے بھی زیادہ وقت ہمارے بعد کے آنیوالے لوگوں کو لگا ہو گا) یہ اتنا طویل وقت ہے کہ اس میں کئی لوگ کئی محرومیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایمبولینس میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتا ہوا، کوئی بھوک سے بلکتا ہوا، کوئی اپنی بارات لے کر گھر سے نکلا ، کسی کو اپنی پرواز مس ہو جانے کی وجہ سے جانے دیار غیر میں کن مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا ۔ ہمارے ہاں تو موسلا دھار بارش ہوجائے تو شہروں کی سڑکیں دریا کی مانند بن جاتی ہیں، نظام زندگی تہہ وبالا ہو جاتا ہے، لوگ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتے ہیں، اسکولوں اور دفاتر تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کہیں آگ لگ جائے تو اسے بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ کی گاڑیوں میں پانی نہیں ہوتا ۔ کہیں کوئی حادثہ ہو جائے تو تماشائی جائے حادثہ پر امدادی کارروائیوں کو مشکل بنا دیتے ہیں ، ہر کسی کو اپنی پڑی ہوتی ہے، کوئی کسی کی مدد کو تیار ہوتا ہے نہ کسی کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کو۔

دعا کریں کہ جنگ نہ ہی ہو، ورنہ ہمارے کئی پول کھل جائیں گے… پہلے ہمیں اپنے ملک کے ہر شہری کو crisis management کی تربیت دینا ہو گی اور پھر ایسے بلند و بانگ دعوے زیب دیتے ہیں۔ اتوار کی رات کو ہم نے ساری رات اس مقام پر گزار دی تھی، اس سے اگلے روز بھی کچھ اچھے حالات نہ تھے، اڑھائی گھنٹے کا جو سفر ہم نے سات گھنٹے میں کیا تھا، اسے اگلے روز کچھ لوگوں نے چھ گھنٹے میں کیا اور تیسرے دن یعنی منگل کے روز جس نے سفر کیا، اس نے بتایا کہ اسے بھی کافی وقت لگا کیونکہ اس ٹرالر کے ساتھ د و ٹرالر اور پارک کرکے اس الٹنے والے ٹرالر کا تیل ( پٹرول یا ڈیزل) ان دو ٹرالر میں منتقل کیا جا رہا تھا۔ پٹرول بچانا سب سے اہم ٹھہرا، لوگ اور ان کی مجبوریاں جائیں بھاڑمیں، پھر کہتے ہیں ، ’’ ہم جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں ! ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔