یہ اشارہ کس طرف ہے

حمید احمد سیٹھی  اتوار 21 اپريل 2019
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

طویل عرصہ سے دیکھا جا رہا ہے کہ گپ شپ کے لیے بیٹھے دوستوں کی تان کسی نہ کسی سیاسی نقطے پر آ کر پھنستی یا ٹوٹتی تھی۔ گزشتہ دنوں سب ساتھیوں کے لیے Food for thought  یہ سوال تھا کہ طویل حکمرانی کرنے والے پاپولر شخص کے اگر دو بیٹے ہوں جو تعلیم کی غرض سے لندن جا کر تعلیم مکمل کر لیں تو کیا وہ وہاں لگژری اپارٹمنٹ لے کر اپنا بزنس کرنے لگیں گے یا پاکستان آ کر والد کا بزنس سنبھال کر باپ کی VVIP  روزمرہ زندگی Enjoy  کرنا پسند کریں گے۔

تمام دوستوں کا تجزیہ تھا کہ حکمران باپ کی اولاد اپنے ملک واپس آ کر VIP  پروٹوکول کے مزے لیتے ہوئے امیر کبیر حکمران باپ کا ساتھ دینے کو ترجیح دینے کے علاوہ خانگی کاروبار کو وسعت دینا پسند کرے گی، یوں ان کا حکمران باپ بھی ان کے ساتھ کی وجہ سے Relaxed   اور پر اعتماد محسوس کرے گا بلکہ یہ بھی پسند کرے گا کہ مخالفین اس پر ’’راجہ بیوپاری‘‘ کی تہمت نہ لگائیں۔ گروپ نے یہ باتیں Academic  انداز میں کیں لیکن ان میں سے ایک ساتھی نے یہ کہہ کر ساری گفتگو پر پانی پھیر دیا کہ ہمارے ملک کے تین بار وزیرِ اعظم رہنے والے حکمران نواز شریف نے تو اس گروپ کی سوچ کے برعکس طریق اپنایا،  اس کی آخر وجہ کیا تھی۔

ہمارے حکمران نے کیوں اپنے دو لڑکوں کو خود سے دور رکھنا اور ان کا لندن میں کاروبار کرنا مناسب سمجھا۔ اگر وہ بچوں کو یہاں والا کاروبار سپرد کر دیتا تو اس کی حکمرانی میں Element of  خدمت ِ ملک و خلق کی بھرپور شمولیت ہو جاتی جس کے نتیجے میں وہ مہاتیر محمد جیسے حکمرانوں کی صف میں کھڑا ملتا لیکن اس کا انجام تو مہاتیر کے پیشرو جیسا نظر آ رہا ہے جس نے طویل عرصہ حکمرانی کے بعد الیکشن میں مہا تیر سے شکست کھائی اور اب ملائیشیا کی جیل میں ہے۔ ہمارے اس دوستوں کے گروپ میں سے ایک نے کہا کہ اس کے ایک گھاگ بزنس میں دوست نے بتایا کہ میاں صاحب کے دونوں لڑکوں کو لندن رکھ کر بزنس کرانے کی Strategy  تو یقینا A One  تھی لیکن خدا کا کرنا کچھ یوں ہو گیا کہ :

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

بعض لوگوں کو دونوں سابق حکمرانوں کے سیاسی اور کاروباری Talent کا گہرا علم و ادراک ہے اسی لیے وہ موجودہ کھلاڑی کو ابھی تک سیاست میں اناڑی اور طفل ِ مکتب سمجھتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ اکثر سیاسی گرو کھلاڑی کے وزیر ِ اعظم بن جانے کو بھی تیر کی بجائے تُکہ لگ جانا گردانتے اور صاف کہتے ہیں کہ کھلاڑی کا کوئی نہ کوئی چھکا بائونڈری لائن پر کیچ ہو جائے گا۔ بہت سے لوگ اسے ایجنسیوں کی گیم کا نام دینے پر مُصر ہیں لیکن بہت سے لوگ اُسے مکافات ِ عمل کا نتیجہ بھی قرار دیتے ہیں۔ کس کا تجزیہ مبنی بر حق ہے اور کون خوش فہمی کے سہارے چل رہے ہیں، وہ جو کہتے ہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا، اندازہ ہے کہ سا ل2019 کا آخری سورج بہت کچھ دکھا جائے گا۔

گزشتہ قریباً دو سال سے اخبار اُٹھائیں، ٹیلی ویژن آن کر لیں، دوستوں کی محفل میں بیٹھ جائیں آپ کی آنکھیں اور کان ایک ہی طرح کے مناظر اور آوازیں دیکھ دیکھ اور سن سن کر بوجھل پن کا شکار ہوں گے۔ آپ خود کچھ بھی نہ بولیں آپ کی اتفاق رائے اور اختلاف رائے کا بھرپور مٹیریل آپ تک پہنچتا رہے گا۔ ایک دوسرے کے نقطئہ نظر کو کاٹنے والے دو گروپ معرض ِ وجود میں آ کر جانے والے اور آئے ہوئے حکمران ٹولے کی سائیڈ لے کر ایک دوسرے کی خوبیوں اور غلط کاریوںپر شیلنگ اور پھر بمباری کرتے ہوئے دست و گریبان ہونے پر آمادہ نظر آئیں گے۔

اخبار اور ٹیلیوژن کی خبریں اور اینکروں و کمنٹیٹروں کی تجزیہ نگاری ہر سننے اور  دیکھنے  والے کی ذہنی تسکین کر رہی ہے۔ ٹیلیوژن اگرچہ معلومات انٹرٹینمنٹ اور دنیا کے حالات حاضرہ تک رسائی کا بڑا ذریعہ ہے لیکن اب زیادہ تر سیاسی جنگ و جدل کو Cover  کرنے والے دانشور غیر محسوس طریقے سے اپنی پسندید و ناپسند سیاسی و دیگر گروہوں اور پارٹیوں کی سوچ اور کارکردگی کا ملبہ آپ کے دل و دماغ میں انڈیلتے ملیں گے۔

کہنے والے نے سچ کہا کہ ہمارے ملک میں امراء اور حکمرانوں کے لیے VIP قانون ہے جب کہ غریب کو رگیدنے کے لیے الگ قانون ہے۔ عرصہ دو سال ہو چلا دو سابق حکمران فیملیز پر کرپشن منی لانڈرنگ اور ڈکلیئرڈ آمدن سے  بے تحاشہ اور متعدد ممالک میں دولت کے الزامات ہیں جن کے ثبوت بھی موجود ہیں لیکن ان کو دی گئی سہولیات کی انتہا نہیں۔ پنجاب کے سابق حکمرانوں نے جو نو عدد حکمرانی کی باریاں لے رکھی ہیں ان کی پٹاریاں تو کھلنی شروع ہو چکی ہیں۔ سندھ کے سابق حکمرانوں کی چیخوں بھری دھمکیوں کی آوازیں آنی شروع ہو چکی ہیں۔ ابھی چند روز قبل سوڈان پر تیس سال حکمرانی کرنے والا اپنے دو بھائیوں سمیت محل سے جیل منتقل ہو گیا تھا، جب کہ پیرو کے سابق صدر نے اپنے ممکنہ انجام سے خوفزدہ ہو کر خودکشی کر لی ہے۔

لیکن سلام ہے ہمارے بہادر حکمرانوں کو کہ وہ جیل میں رہتے ہوئے بھی بڑھکیں مارنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور زنداں میں ہوتے ہوئے گھر کا کھانا کھاتے، جس سے چاہتے ملاقات کرتے، دل کے عارضے اور شدید علالت میں دوڑتے بھاگتے اپنی پسند کے ڈاکٹروں سے علاج کراتے اور جیل کی گھٹن دور کرنے کے لیے چھ ہفتے کی ضمانت پر جیل سے باہر ذاتی گھر میں قیام اور سیر و تفریح کی سہولت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ تفتیشی ایجنسیاں ریمانڈ پر ریمانڈ لیے جاتی ہیں ، ملزم کے خلاف چالان پیش نہیں کرتیں۔ ٹرائیل شروع ہو بھی جائے تو بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ فیصلہ جج صاحب کی ٹرانسفر ، ریٹائر منٹ یا حکومت کی پانچ سالہ ٹرم  میچور ہونے سے قبل ہو جائے گا۔ وکیل صاحب کو بھی عجلت نہیں ہوتی اور قانون کے طالب علم سوچتے ہیں کہ کتاب میں تو لکھا ہے کہ   Justice delayed is Justice denied۔

نیب کی توجہ کچھ عرصہ سے پنجاب کے بعد اب سندھ پر ہے۔ پنجاب کے دو حکمران گھرانوں کے معاملات ابھی اپنے انجام تک نہیں پہنچے تھے کہ نامور سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کی فیملی گرفت میں آتی نظر آ رہی ہے۔  چیئرمین نیب نے کچھ روز قبل بیان دیا ہے کہ ’’چند دنوں میں کروڑ پتی بننے والوں کو سوچنا چاہیے کفن کی جیب نہیں ہوتی ‘‘۔ سوچئے یہ اشارہ کس طرف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔