بات محض سیلاب کی نہیں

غلام محی الدین  پير 19 اگست 2013
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

عظیم چینی مفکرکنفیوشس کے ایک قول کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ’’وہ شخص جو سیکھتا تو ہے مگر غور و فکر نہیں کرتا‘ وقت ضایع کرتا ہے‘ اور ایسا شخص جو غور و فکر تو کرتا ہے لیکن سیکھتا نہیں‘ وہ شدید خطرے میں ہے‘‘۔

آجکل ملک ایک مرتبہ پھر سیلاب کی زد میں ہے۔ پاکستان کا مسئلہ کئی حوالوں سے باقی دنیا میں آنے والے سیلابوں سے منفرد اور پیچیدہ ہے۔ وہ اس طرح کہ ہم بیک وقت پانی کی قلت اور پانی کی زیادتی کے منفی اثرات کی زد پر ہیں۔ اگر مون سون کی بارشیں غیر معمولی طور پر زیادہ ہوں ’جیسا کہ اس مرتبہ ہو رہا ہے‘ تو سیلاب کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اور اس خطرے کا سارا تانا بانا ہماری علاقائی حدود تک محدود نہیں بلکہ سرحد پار بھارت ہمارے سیلاب کی شدت کو بڑھانے یا پھر بوقت ضرورت پانی کی قلت پیدا کرنے میں فیصلہ کُن حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہونے کے باوجود تنازع ایک نئی صورت میں نمودار ہو چکا ہے اور یوں پہلے سے وجہ نزاع کشمیر کے تصفیے کے کسی مُبہم امکان کو بھی معدوم کر رہا ہے۔ اس معاملے میں جس خوش گمانی کو آجکل پروان چڑھایا جا رہا ہے وہ شاید بین الاقوامی سطح پر درکار ماحول کی ضرورت ہو، حقیقت سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں۔ بھارت تعلقات کے حوالے سے ہمارے سیکولر دانشور طبقہ (میرے نزدیک سیکولر کے معنی دہریہ ہونا نہیں بلکہ ریاست کا اپنے رویے میں مذہبی امتیاز سے پاک ہونا ہے) اس قدر حساس ہو چکا ہے کہ اسے تاریخ کا کوئی حوالہ بھی انتہائی ناگوار گزرتا ہے۔ ہمارے ان دانشوروں کا خیال ہے کہ قیام پاکستان اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کا تذکرہ ہی غیر مناسب ہے کیونکہ اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے‘ ماضی کو چھوڑ کر مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھیں برصغیر پر غیر ملکی حملہ آوروں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے پر بھی سخت اعتراض ہے اور وہ تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرنے پر ہمیشہ سیخ پا رہتے ہیں۔

ان کے نزدیک مقامی سورما ہی ہمارے ہیرو ہونے چاہئیں۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے‘ ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم سے لے کر آج تک تین مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ جب پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں پہلے ہی جاری تھیں بھارت نے اپنے ڈیموں سے پانی چھوڑ کر اس تباہی کو اور زیادہ ہلاکت خیز بنا دیا۔ یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہونی چاہیے بلکہ عین توقع کے مطابق عمل ہے۔ اگر ہم نے اس سے کچھ نہیں سیکھا حالانکہ اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا اور یہ ایک معلوم حقیقت تھی‘ تو اس کی تمام تر ذمے داری خود ہم پر عائد ہوتی ہے۔ یہ بات ہمارے بس میں ہے کہ ہم پانی کے بڑے ذخائر بنا لیں‘ بڑے ڈیم تعمیر کریں یا جو بھی ہم سے ہو سکتاہے، اپنے معاملات کو درست کرنے کے لیے کر گزریں۔ لیکن اس کے بر عکس ہم نے ڈیموں پر سیاست کی۔ آج حالت یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت عقیدے کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ یہاں ماضی کے چند واقعات کا تذکرہ بے محل نہ ہو گا۔

4 مئی 1948ء کو نئی دہلی میں ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت ان نہروں کا پانی جاری کر دیا گیا جو تقسیم کے محض آٹھ ماہ بعد ہی بھارت نے روک لیا تھا۔ بھارتی پنجاب کی حکومت نے (ظاہر ہے مرکزی حکومت کی ایما پر) پاکستانی پنجاب کی حکومت کو نوٹس بھجوا دیا کہ 4 ستمبر1948 سے معاہدہ ختم تصور کیا جائے گا۔ اب ہمارے وزیر خارجہ نے وزیراعظم نہرو کی منت سماجت کی کہ ایسا نہ کیا جائے۔ جواب میں بھارتی وزیراعظم نے عارضی طور پر پانی جاری کروا دیا مگر یہ بھی بتا دیا کہ یہ بندوبست مستقل نہیں۔

چند ہفتے بعد 24 اکتوبر1948 میں نہرو کا ایک ٹیلی گرام پاکستان سرکار کے پاس پہنچتا ہے جس میں لکھا ہے ’’ ہم مشرقی پنجاب کی حکومت کو پانی کی ترسیل جاری رکھنے پر مجبور نہیں کر سکتے اور مستقبل کی کسی بھی بات چیت میں بھارتی پنجاب کے اس حق کو تسلیم کرنا ہو گا‘‘۔ بھارتی عزائم کا مزید کھلا اظہار 1948 کے اواخر میں سامنے آتا ہے جب بھارت ہریکے بیراج کی تعمیر شروع کرتا ہے۔ یہ بیراج پہلے سے موجود فیروز پور بیراج سے پیچھے اس جگہ تعمیر کیا گیا جہاں دریائے ستلج اور بیاس آپس میں ملتے ہیں۔

یوں فیروز پور بیراج ناکارہ ہو گیا جس کے ذریعے وادی ستلج کی نہروں کو پانی ملتا تھا۔ جب پاکستان نے 1949ء میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں اپیل کی کوشش کی تو بھارت نے وہاں جانے سے انکار کر دیا اور یہی کہا جو کچھ وہ آج کہہ رہا ہے کہ دو طرفہ مذاکرات سے معاملہ طے کیا جائے۔ 19 ستمبر1960 کو سندھ طاس معاہدہ ہوتا ہے جس میں تین مشرقی دریاراوی‘ ستلج اور بیاس بھارت جب کہ تین مغربی دریا یعنی جہلم‘ چناب اور سندھ پر پاکستان کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔

ڈیوڈ لیلینتھل امریکا کے اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین تھے۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں انھیں عزت کی نظر سے دیکھتی تھیں۔ انھوں نے ورلڈ بینک کے ساتھ مل کر اس معاملے کو سُلجھانے کی کوشش کی لیکن ورلڈ بینک جو منصوبہ سامنے لاتا تھا وہ بھارتی نکتہ نظر کے قریب تر ہوتا۔ ایک مرتبہ تو پاکستان نے واک آؤٹ کی دھمکی تک دے دی مگر بالآخر یہ معاہدہ نہ صرف ہو گیا بلکہ اس نے پاک بھارت جنگوں کو بھی جھیلا۔ معاہدے سے کئی برس پہلے لیلینتھل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا ’’کشمیر کے معاملے پر پاک بھارت جنگ کسی بھی وقت چھڑ سکتی ہے‘ تناؤ اس قدر ہے کہ بات چیت ممکن ہی نہیں لگتی۔ میرا مشورہ ہے کہ سندھ کے نہری نظام کو چلانے کے لیے پاک بھارت مشترکہ باڈی بنائی جانی چاہیے۔‘‘لیکن ہوا یہ کہ 1960 میں معاہدہ ہوجانے کے باوجود 1965 میں جنگ چھڑ گئی۔

بھارت اور اس کی ہمنوا دنیا کی بجا طور پر کوشش یہی ہونی چاہیے کہ قیامِ پاکستان یہاں کے لوگوں لیے عبرت کا نشان بن جائے اور اس ملک کے قیام کو ایک پچھتاوے کے ساتھ یاد کیا جائے۔ پانی کے تنازعے پر پاکستان جتنی مرتبہ ثالثی عدالت میں گیا ہے اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے حالانکہ سندھ طاس معاہدے میں درج الفاظ کہتے ہیں ’’بھارت پر لازم ہے کہ وہ مغربی دریاؤں کو معمول کے مطابق بہنے دے اور ان کے پانیوں میں کسی قسم کی رکاوٹ اور دخل اندازی کی اجازت نہ دے‘ ماسوائے بہتے پانی کے استعمال کے‘‘۔ ’’ وہ ناداں گر پڑے سجدے میں جب وقت قیام آیا‘‘ کے مصداق ،دیانت داری سے تجزیہ کریں تو ہم اپنی جگہ چھوڑ کر بہت پیچھے ہٹ آئے ہیں۔ مسلسل پسپائی معاشرے کی اجتماعی سوچ کو شکست خوردگی کے احساس کا اسیر بنا دیتی ہے۔ ہم میں یہ بری عادت راسخ ہوتی جا رہی ہے کہ ہم ایک ناکامی سے مایوس ہو کر اپنے مقاصد میں ترمیم کرنے لگتے ہیں۔ کنفیوشس کا ایک اور قول کچھ یوں ہے۔’’جب اس بات کا یقین ہونے لگے کہ مقصد حاصل کرنا نا ممکن ہے تو اپنے مقصد کو مت بدلو بالکل اسے حاصل کرنے کے طریقہ کار پر نظرثانی کرو۔ ہمیں اپنی کوئی بھی قومی پالیسی اس بنیاد پر اُستوار نہیں کرنی چاہیے جو کسی ہمسائے کے مثبت رویے سے مشروط ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔