ایک سکندر اسلام آباد کے اندر

ایاز خان  پير 19 اگست 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

شکر ہے اسلام آباد میں ایک زمرد خان تھا جس نے قریب 5گھنٹے تک پورے دارالحکومت کی پولیس کو دو خود کار اور جدید رائفلوں سے یرغمال بنانے والے شخص کے ’’ڈرامے‘‘ کا ڈراپ سین کر دیا۔ ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر رضوان نے سکندر حیات سے دو بار مذاکرات کیے مگر وہ یہ جرات نہ کر سکے ۔ دیگر پولیس اہلکاروں کو قصور وار اس لیے قرار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ حکم کے غلام تھے۔ زمرد خان سے پہلے نبیل گبول بھی وہاں پہنچے تھے مگر پولیس کے ’’سمجھانے‘‘ پر وہ آگے نہیں بڑھے اور کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر نمبر بناتے رہے۔ 5گھنٹے کے اس ’’ ڈرامے‘‘ میں وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خاں بھی کہیں نظر نہیں آئے۔

وفاقی وزیرداخلہ عملی طور پر اسلام آباد کی سیکیورٹی کا براہ راست ذمے دار ہوتا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں وہ اپنی رٹ قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے قائم کرتا ہے۔ زمردخان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ضرور ہے مگر انھوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر جس جرات کا مظاہرہ کیا وہ کسی پارٹی کے لیڈر یا کارکن کی نہیں ایک پاکستانی کی بہادری تھی‘ اس کارنامے پر اکثریت نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے اسے بیوقوفی کہا تو رانا صاحب کو معلوم ہو گا کہ اس طرح کا کام عقل سے نہیں کیا جا سکتا۔

چوہدری نثار جمعرات کو ہونے والے اس سارے ’’ڈرامے‘‘ کے دوران تو غائب رہے لیکن جمعے کی شام لاہور میں میڈیا کے سامنے آئے اور اس ڈراپ سین میں تاخیر کی ذمے داری قبول کر لی۔ اچھی بات ہے اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہئیں۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیر داخلہ نے ویسے تو کافی کچھ کہا لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جو میرے خیال میں نہ کہتے تو بہتر ہوتا۔ چوہدری نثار نے اعتراف کیا کہ پولیس کے پاس اسٹن گن نہیں ہے۔ ان کی اس بات سے دہشت گردوں کو یقیناً حوصلہ ملا ہو گا۔ ہماری جگ ہنسائی بھی ہوئی ہو گی۔ کیونکہ آٹھ دس لاکھ روپے مالیت کی ایک گن ہم اپنی پولیس فورس کو خرید کر نہیں دے سکے تو پھر یہ بات طے ہے کہ ہم میں اور بھی ایسی کمزوریاں ہوں گی جو دہشت گردوں کے لیے حوصلے کا باعث بنیں گی۔ چوہدری صاحب نے سکندر کے بارے میں واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ دہشت گرد نہیں ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کی تعریف ان کے نزدیک کیا ہے۔ کیا صرف وہ شخص دہشت گردی کی تعریف پر پورا اترے گا جس نے خود کش جیکٹ پہن رکھی ہو یا اس کی گاڑی کی ڈگی میں دھماکہ خیز مواد موجود ہو۔ پھر آپ تفتیش سے پہلے اس نتیجے پر کیسے پہنچ گئے۔ شاید اس لیے کہ میڈیا پر ہمارے بعض اینکرز اور دانشوروں نے سکندر کو ڈرامے کے پہلے نصف گھنٹے میں ہی پاگل قرار دے دیا تھا۔ مجھے تو وہ بالکل پاگل نہیں لگا۔ وہ ایک ٹرینڈ آدمی ہے۔ پاگل ہوتا تو زمرد خان کے وار کو ناکام نہ بنا سکتا۔ اس نے خود کو زمرد خان کے’’ جپھے ‘‘سے جس طرح بچایا ہے یہ کوئی تربیت یافتہ شخص ہی کر سکتا ہے۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی دہشت گرد گروہ نے اس کے ذریعے ہماری پولیس کی بے بسی کو دنیا کے سامنے لانے کی پلاننگ کی ہو۔ اگر یہ خدشہ ٹھیک نکلا تو پھر اس کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔ سکندر سے تفتیش کرنے والوں کو یہ پہلو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کہتے ہیں سکندر نے ہوش میں آنے کے بعد جو ابتدائی بیان دیا ہے اس میں وہ بڑی معصومیت سے کہہ گیا ہے کہ اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ اس نے کیا کر دیا۔ میرے خیال میں جب اس نے دو جدید ترین گنز اپنے سامان رکھی ہوں گی تب بھی اسے احساس تک نہیں ہوا ہو گا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ اسی معصومیت میں اس نے اپنی بیوی اور بچوں کو بھی یرغمال بنا کر انھیں بطور انسانی ڈھال استعمال کیا۔ اس سادگی پر کون نہ مر جائے…

اس ایک واقعے کے بعد میرے لیے یہ ماننا بڑا مشکل ہے کہ ہماری موجودہ سیاسی قیادت دہشت گردی پر قابو پا سکتی ہے۔ آپ جتنی مرضی اچھی پالیسیاں بنا لیں جب تک آپ میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ ان پالیسیوں کو عملی شکل دے سکیں تب تک کچھ نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے اتنے سال ہو گئے لیکن افسوس! ہم ابھی تک اپنی پولیس کو بنیادی تربیت ہی نہیں دے سکے۔ سکندر پر قابو پانے میں پولیس کو پندرہ سے بیس منٹ لگنے چاہییں تھے۔ وزیر داخلہ نے اسے زندہ پکڑنے کا کہا تھا یہ تو نہیں کہا ہو گا کہ اسے معمولی زخم بھی نہ آئے۔ ہمارے اسنائپر شوٹر کہاں تھے۔ کوئی کمانڈو سادہ کپڑوں میں وہاں موجود کیوں نہیں تھا۔ سوال اور بھی بہت ہیں لیکن کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ہم اس حالت تک شاید اس لیے بھی پہنچے ہیں کہ ہمارے سارے اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہیں ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا تو دور کی بات یہ جنگ لڑنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ فوجی اور سیاسی قیادت میں مکمل اتفاق رائے سے کوئی پالیسی بنائی جائے۔ پھر یہ ابہام بھی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ جنگ ہماری ہے یا نہیں۔ زیادہ وقت نہیں ہے‘ پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ آیندہ دو یا تین سال میں دہشت گردوں پر قابو پانا ہو گا ورنہ یہ اس قوم پر قابو پا لیں گے۔ وزیر اعظم نے گوادر سے کاشغر تک شاہراہ بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ اچھی بات ہے لیکن تب تک یہ شاہراہ نہیں بن پائے گی جب تک دہشت گردوں پر قابو نہیں پایا جاتا۔ سرمایہ کاری کے دیگر منصوبے بھی اسی سے مشروط ہیں۔

دہشت گردی کی وجہ سے معاشرے میں اس قدر بدامنی پھیل چکی ہے کہ اب ہمارے بچے بھی پستول یا بندوق کے سوا کوئی کھلونا نہیں خریدتے۔ عید کے دنوں میں سڑکوں پر بچوں کے ہاتھوں میں مہلک
ہتھیاروں کی نقل یہ کھلونے دیکھ کر زیادہ حیرت اس لیے نہیں ہوئی کہ بچے معاشرے میں جو کچھ دیکھتے ہیں اس کے زیر اثر آنا فطری ہے۔ موٹر سائیکل سوار بعض بچوں کے ہاتھ میں بڑی بڑی کھلونا گنز دیکھ کر مجھے خوف بھی آیا کہ کہیں کوئی پولیس والا گن کو اصلی سمجھ کر کسی بچے کو گولی ہی نہ مار دے۔

اسلام آباد کے ڈرامے کو لائیو گھروں تک پہنچانے کے بعد یہ بھی ضروری ہو گیا ہے کہ نجی چینلوں کے ذمے داران اس ضمن میں کوئی قابل عمل پالیسی بنا لیں۔ ریٹنگ کی دوڑ اسی طرح جاری رہی تو اس سے مزید تباہی آئے گی۔ چینل کے ذمے داران کی بات اس لیے کی ہے کہ پیمرا کی موجودہ مینجمنٹ سے توقع نہیں کہ وہ اس معاملے میں پہل کرے گی۔ معاشرے میں جو چیز سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے وہ مایوسی ہے۔ اس مایوسی کو روکنے کا تدارک جلد نہ ہوا تو پھر خدانخواستہ ان لوگوں کا یہ خدشہ درست ثابت نہ ہو جائے جو کہتے ہیں کہ پورا سسٹم تباہ ہو چکا ہے۔ آخر میں چلتے چلتے ایک ٹیکسٹ میسج جو مجھے کل موصول ہوا تھا۔ ’’ایک معروف فلم ساز نے اپنی آیندہ فلم کا اعلان کر دیا ہے جس کا نام ہو گا‘ ایک سکندر اسلام آباد کے اندر‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔