سامراجی سازشیں

زمرد نقوی  پير 22 اپريل 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

ہمارے ایک محترم دوست جو ڈی جی ایف آئی اے کے عہدے پر فائز رہے ہیں، جم خانہ میں بتا رہے تھے کہ عالمی سطح کے مدبر ہنری کیسنجر نے جس نے بھٹو کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر عبرت کا نشان بنا نے کی دھمکی دی تھی اور اُس پر عمل بھی کیا، ایک تازہ ترین انکشاف کیا ہے۔ ہنری کیسنجرنے کہا کہ تیسری عالم جنگ مشرق وسطی اور ایران سے شروع ہوگی۔ کیونکہ ایران ہی خطے میں آخری ملک رہ گیا ہے جو امریکا کی پچھلے چالیس سال کی تمام تر سازشوں کے باوجود اُس کے آگے سر جھکانے کو تیار نہیں۔ امریکا اس رکاوٹ کا خاتمہ کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ بقول ہنری کیسنجر ہم پہلے ہی اسرائیل کے مقابل مسلم ملکوں کو تباہ کر چکے ہیں۔ اب  ان کی رہی سہی قوت بھی ختم کر دیں گے۔

ہنری کیسنجر نے جس ممکنہ عالمی جنگ کا اشارہ کیا ہے، اس کی لپیٹ میں پاکستان بھی آئے گا۔ حال ہی میں کہے گئے موجودہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے الفاظ کو یاد رکھیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شدت پسندوں کے کنٹرول میں جا سکتا ہے۔ ایران سے شروع ہونے والی جنگ سے لازمی طور پر پاکستان بھی لپیٹ میں آئے گا ۔ اس وقت ہمارے خطے میں دو ہی عسکری طور پر طاقتور ملک ایران اور پاکستان ہیں ،اگر ان کی فوجی طاقت کو توڑ دیا جائے تو پورے مشرق وسطی سے وشط ایشیا تک کا علاقہ ایک ایسا منظر پیش کرئے گا جس کے بارے میں کہا جا سکے گا…

“گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار (اسرائیل) پھرے”

سوویت یونین بھی جب معاشی طور پر کمزور ہو گیا تو ٹوٹ گیا حالانکہ اُس کے پاس ہزاروں ایٹمی میزائل تھے۔ کسی بھی ملک کو تباہ کرنا مقصود ہو تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ اُسے معاشی طور پر تباہ کر دو۔ امریکا نے سوویت یونین کو تباہ کرنے کے لیے اپنے جنگی اخراجات بڑھانے شروع کر دیے چنانچہ سوویت یونین کو بھی اپنے جنگی اخراجات بڑھانے پڑے۔ امریکا تو یہ جنگی اخراجات برداشت کر سکتا تھا کیونکہ اُ س نے سرمایہ دار انہ نظام کے ذریعے دنیا بھر کی معیشتوں کو اپنے کنٹرول میں کر رکھا تھا جب کہ سوویت یونین کے اتحادی اُس کی معیشت پر مزید بوجھ بن گئے، نتیجتاً سوویت یونین کی کمر ٹوٹ گئی۔ اب انڈیا بھی پاکستان کے ساتھ یہی کر رہا ہے، وہ اپنے جنگی اخراجات بڑھاتا جا رہا ہے چنانچہ پاکستان کو بھی مجبوراً اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے جنگی اخراجات بڑھانے پڑ رہے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں چھوٹا ملک ، چھوٹی معیشت رکھتا ہے جب کہ بھارت بہت بڑا ملک اور بہت بڑی معیشت ہے۔ اُس کی قومی پیداوار سالانہ7 فیصد کے لحاظ سے ترقی کر رہی ہے جو چین سے بھی زیادہ ہے۔ جب کہ پاکستانی معیشت کی ترقی کی رفتار اگلے کئی سال تک صرف پونے تین فیصد ہی رہے گی۔ ہم روزانہ ساڑھے چھ ارب روپے صرف قرضوں کا سود دینے پر مجبور ہیں ۔ بھارت جو دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہے، اپنی قومی پیداوار کا تقریباً60 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے، سوچئے یہ کتنی بڑی رقم ہوگی، اسی لیے اس کی دو تہائی آبادی بدترین غربت میں ڈوبی ہوئی ہے کیونکہ ایشیا کی بڑی فوجی طاقت بننے کا جنون اُس پر سوار ہے جب کہ پاکستان کو بھی دفاع اور قرضوں پر واجب الاادا سود پر بھاری رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔

اب یہ ایک مہینے میں کتنے بنتے ہیں اور ایک سال میں کتنے، آپ خود ہی حساب لگا لیں۔ یہ سارے معاشی حقائق ہمارے دشمن بھارت کے سامنے ہیں، وہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ اس بدترین معاشی صورت حال میں ہمارے جنگی اخراجات کم ہوں۔ وہ اپنے جنگی اخراجات بڑھاتا جائے گا۔ چنانچہ ہمیں بھی بھارت کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اخراجات بڑھانے پڑیں گے، ایک وقت آئے گا کہ ہم اپنی معاشی صورت حال کی وجہ سے اپنے جنگی اخراجات بڑھا نہیں پائیں گے چنانچہ ہماری معاشی حالت مزید کمزور ہوجائے گی۔ ادھر وہ سازش ہو گی جس کا آغاز ایران سے ہو گا، جس کا اشارہ  ہنری کیسنجر نے کیا ہے ۔

عالمی مالیاتی ادارے امریکی سامراج کا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ کسی ملک پر اپنے سامراجی ایجنڈے کو نافذ کرتا ہے۔ معیشت کسی بھی ملک کی شہ رگ ہوتی ہے اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اس سے من پسند کام کرائے جاتے ہیں۔ اس وقت ہم پر دو دباؤ ہیں پہلا شدت پسند غیر ریاستی عناصر، دوسرا ایٹمی اثاثے۔ اس وقت زیاد ہ زور غیر ریاستی عناصر پر ہے اگر ان کی طاقت کا خاتمہ ہوتا ہے تو پاکستانی ایٹمی اثاثوں کو لاحق خطرات بھی ختم ہو جائیں گے۔ اب دنیا میں شدت پسندی کے فروغ کی بھی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ شدت پسند نظریات ہی ہوتے ہیں جو غیر ریاستی عناصر کو ریاست کے مقابلے پر لے آتے ہیں۔  پہلے مذہب کے نام پر شدت پسندی امریکی سامراج کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ القاعدہ، طالبان، داعش کو نہ صرف تخلیق کیا گیا بلکہ ان کی سرپرستی بھی کی گئی۔ کیونکہ مسلم ممالک کو تباہ کرنا اور اسرائیل کو محفوظ بنانا مقصود تھا۔

مذہبی شدت پسندی اب امریکا کی ضرورت نہیں رہی۔ اب مسلم اور مسیحی مذہبی رہنما ملکر اس کا خاتمہ کریں گے۔ مذہبی شدت پسندی کی کمزوری مشرق وسطی سے برصغیر تک امن لائے گی۔ امریکا اور افغان طالبان کی صلح اس چیز کو مزید آگے بڑھائے گی، پاکستان بھارت تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہو گا، مسلم دنیا میں نیوز ی لینڈ کی وزیر اعظم کو جو اعتماد حاصل ہوا، اب وہ مذہبی شدت پسندی کے خاتمے کی تحریک کو لیڈ کریں گی۔

عمران خان نے پچھلے سال18 اگست کو وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔ کیا عجیب اتفاق ہے کہ سابق وزیرخزانہ اسد عمر نے 18 اپریل عین جس دن 8 مہینے پورے ہوئے، استعفیٰ دیا۔ پہلے دن سے ہی عمران حکومت کو معاشی بحران در پیش تھا کیا موجود معاشی بحران کی شدت اتنی بڑھ جائے گی کہ عمران حکومت اس میں ڈوب سکتی ہے۔ اس کا فیصلہ جولائی اگست کے مہینے کریں گے۔

سیل فون:0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔