انقلاب کے بغیر

ظہیر اختر بیدری  پير 22 اپريل 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

میں حیران ہوں بلکہ حیرت زدہ ہوں کہ دنیا میں سیکڑوں نہیں، ہزاروں کی تعداد میں اہل فکر ہیں، دانشور ہیں، ادیب ہیں، شاعر ہیں، فنکار ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ آج دنیا کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم قرون وسطیٰ میں زندگی گزار رہے ہیں۔

دنیا کے انسان سیکڑوں نہیں ہزاروں خانوں میں بٹے ہوئے ہیں، صرف بٹے ہوئے ہی نہیں بلکہ متحارب ہیں، ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، ایک دوسرے کے دشمن ہیں اس دشمنی اور نفرت نے پھیل کر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسلحہ سازی سے اسلحے کی دوڑ ہے، جنگیں ہیں، دہشتگردی ہے، اربوں روپوں کا اسلحہ بن رہا ہے، اسلحے کی فیکٹریاں رات دن کام کر رہی ہیں، اربوں کھربوں ڈالر کا اسلحہ بنایا اور بیچا جا رہا ہے۔

طبقاتی نظام نے انسانوں کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے، ایک طرف 80 فیصد سے زیادہ مفلوک الحال غریب ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی دوسری طرف 2 فیصد ایلیٹ ہے جس کی زندگی کا ہر دن عید ہے تو ہر شب شب برأت ہے، دنیا میں اعداد و شمارکے مطابق ہر روز لاکھوں انسان بھوک سے، لاکھوں انسان بیماریوں سے، لاکھوں خواتین زچگی کے دوران علاج کی سہولتوں سے محرومی کی وجہ سے، لاکھوں بچے مناسب غذا اور دودھ نہ ملنے کی وجہ موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیا مفکر، دانشور، ادیب، شاعر اندھے ہیں بہرے ہیں گونگے ہیں کہ اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے؟ اس ظلم کے خلاف احتجاج نہیں کرتے؟ اس ناانصافی کے خلاف سڑکوں پر نہیں آتے؟ اس ظلم اس ناانصافی اس وحشت اس بربریت کے خلاف سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے اس استحصال کے خلاف قلم نہیں اٹھاتے؟

کھربوں ڈالر کا اسلحہ بن رہا ہے، کھربوں ڈالرکا اسلحہ فروخت ہو رہا ہے، دنیا کے مختلف ملکوں میں جنگیں ہو رہی ہیں۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں دہشتگردی ہو رہی ہے، ہزاروں بے گناہ انسان اس بربریت کا شکار ہو رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے راکھشس ہنس رہے ہیں قہقہے لگا رہے ہیں۔ حکما نے کہا ہے کہ ظلم کو روک نہیں سکتے تو زبان سے اس کی مخالفت کرو اگر زبان سے اس بربریت کی مخالفت نہیں کر سکتے تو اشاروں سے اس کی مخالفت کرو، کہاں ہیں بڑے بڑے ایوارڈ لینے والے اکابرین، کہاں ہیں وہ ادیب، کہاں ہیں وہ شاعر، کہاں ہیں وہ دانشور، کہاں ہیں وہ مفکر جن کی تصویریں اخباروں میں چھپتی ہیں جن کے ارشادات عالیہ کو ریڈیو، ٹی وی بڑے فخر کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں؟

1933ء میں جب ہٹلر کا فاشزم طاقت پکڑ رہا تھا تو دنیا کے ادیب، شاعر، دانشور، مفکر پیرس میں جمع ہوئے اور فاشزم کے خلاف احتجاج کیا۔ آج دنیا میں ہر روز ہزاروں انسان بھوک، بیماری، جنگوں سے مارے جا رہے ہیں دہشتگرد بے گناہوں کو کھلے عام قتل کر رہے ہیں۔ دنیا کے اکابرین برقعہ اوڑھے بیٹھے ہیں تا کہ دنیا ان کے چہرے نہ دیکھ سکے۔ انسانیت کو سر عام قتل کرنے والے سرمایہ دارانہ نظام کے دلال ہنس رہے ہیں قہقہے لگا رہے ہیں دنیا کے عوام کو لوٹنے والے سوداگر آپس میں مل رہے ہیں لوٹ مار کے نئے نئے پروگرام بنا رہے ہیں۔

دنیا میں بڑے بڑے اکنامسٹ موجود ہیں کیا ان میں سے کسی نے امیر اور غریب کے درمیان پائے جانے والے زمین اور آسمان کے فاصلوں کو ختم کرنے یا کم کرنے کی کوشش کی ہے؟ ان اکابرین کا موقف یہ ہے کہ یہ فرق باقی رہے گا اگر اس فرق کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو دنیا میں ترقی کا پہیہ جام ہو جائے گا۔ دنیا کے ایک مفکر اور معاشی ماہر کارل مارکس نے برسوں کے مطالعے اور تحقیق کے بعد یہ کہا کہ اس نابرابری کو ختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ نجی ملکیت کو ختم کردیا جائے، اس کے بغیر 90/10 کا فرق کسی قیمت پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک حقیقت پسندانہ تجویز تھی لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے دلالوں نے مارکس کی اس تھیوری یا تجویز پر آسمان سر پر اٹھا لیا اور دہائیاں دینے لگے کہ نجی ملکیت کو ختم کر دیا گیا تو جمہوریت اور انسانی حقوق خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اس پر یہ ایک اور دہائی دی گئی کہ اس نظام سے دین دھرم کا خطرہ لاحق ہو جائے گا، یہ نظام دین کا دشمن ہے۔

اس پروپیگنڈا مہم سے آسمان سر پر اٹھا لیا گیا۔ مذہبی حلقوں میں اربوں روپے بانٹے گئے کہ وہ سوشلسٹ معیشت کو کفر قرار دیں چنانچہ ساری دنیا میں سوشلسٹ معیشت کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا، سرمایہ داروں کی لوٹ مار سے جو اربوں روپے جمع ہو جاتے تھے وہ خطرے میں پڑ جاتے تھے۔ ایک طرف سرمایہ داروں کے دلالوں کا پروپیگنڈا دوسری طرف سوشلسٹ اکانومی کے حامیوں کی انتہا پسندی کہ نجی ملکیت کے خاتمے کے بغیر غریبوں کا استحصال ختم نہیں ہو گا۔ بہرحال چاروں طرف سے اس اکانومی کا گھیراؤ اس طرح کیا گیا کہ سوشلسٹ ملک بکھر گئے اور یوں سرمایہ دارانہ نظام کو پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سر پر کھڑا کر دیا گیا۔

اس حوالے سے جو سوال پیدا ہوتے ہیں وہ یہ ہے  کہ کیا سرمائے کا ارتکاز دنیا میں دو طبقوں کو جنم نہیں دے گا؟ کیا انسانوں کی 90 فیصد اکثریت بھوک، بیروزگاری، بیماریوں، علم سے محرومی کا شکار نہیں ہو جائے گی، کیا ارتکاز زر سے مٹھی بھر سرمایہ دار دنیا کی 80 فیصد دولت کے مالک نہیں بن جائیں گے؟ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ لامحدود نجی ملکیت سے صرف دنیا کے دو فیصد سرمایہ داروں کو فائدہ ہو گا باقی آبادی روٹی کی محتاج ہو جائے گی۔ سرمایہ دار طبقے کے منصوبہ ساز اس قدر ہوشیار ہیں کہ انھوں نے اس نظام کو خطرات سے بچانے کے لیے ایک طرف قانون اور انصاف کا ایک امتیازی اور ظالمانہ نظام قائم کیا ان کی حفاظت کے لیے طرح طرح کی مسلح سرکاری تنظیمیں بنائیں جن کا کام نجی ملکیت کی حفاظت کرنا ہے۔

دوسری طرف مڈل کلاس کو دولت کا لالچ دے کر اس نابرابری اور طبقاتی استحصال کے خلاف متحرک ہونے سے روک دیا۔ آپ خود اس ظلم کے نظام کو اپنے اردگرد دیکھ سکتے ہیں ایک طرف دو فیصد ایلیٹ ہے جو ناقابل یقین تعیش کی زندگی گزار رہی ہے چار چار پانچ پانچ ہزار گز کے محلوں میں رہتی ہے دو دو کروڑ کی گاڑیوں کے بیڑے رکھتی ہے ان کی ایک ایک اولاد کی خدمت کے لیے دس دس ملازمین کی فوج رکھی جاتی ہے۔ یہ ساری عیش کوشی غریبوں مزدوروں کسانوں کی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے اور محنت کش نان جویں سے محتاج ہوتا ہے یہی وہ حالت تھی جس نے انقلاب فرانس کو جنم دیا اور لٹیروں کو عوام نے کھیرے ککڑی کی طرح کاٹ کر اس طرح پھینک دیا کہ فرانس کی سڑکیں سرخ ہو گئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔