اب ایسے مسیحا کہاں؟

محمد عبداللہ  منگل 23 اپريل 2019
آج مسائل کا عفریت دیکھ کر اسے مسیحا کی بہت یاد آئی۔(فوٹو: انٹرنیٹ)

آج مسائل کا عفریت دیکھ کر اسے مسیحا کی بہت یاد آئی۔(فوٹو: انٹرنیٹ)

اس کے دماغ میں خیالات کا تانتا بندھا ہوا تھا، چہرہ بے رونق، بال منتشر اور آنسو آبشار کی مانند بہہ رہے تھے۔ آج تلخ ماضی کی یادیں اسے ناگ کی طرح ڈس رہی تھیں۔ جب دنیا اس پر طنز کے تیر برسا کر اس کا کلیجہ چھلنی کرتی تھی کہ وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ اسے ٹریکٹر چلانا نہیں آتا، وہ خاندانی روایات کے مطابق کسی کا گریبان پکڑ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈال سکتا، کسی مظلوم کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، وہ کتابی کیڑا ہے۔ یہ کتابیں اسے کچھ نہیں دے سکتیں۔ اس کا باپ خاندان کی سانسوں کو قائم رکھنے کے لیے چند روپے بمشکل اکٹھا کرتا ہے، وہ اس کی پڑھائی کا خرچ کیسے برداشت کرے گا؟

اس کڑے وقت میں ایک مسیحا نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔ اس کے خوابوں کے رِستے زخموں پر تعبیر کا مرہم رکھا تھا۔ ان کی باتیں آج بھی اس کے دل پر نقش تھیں۔ جب انہوں نے کہا تھا ’’تم ٹریکٹر کے ڈرائیور بننا چاہتے ہو۔ شوق سے بنو! لیکن یاد رکھو ہمارے خاندان میں ڈرائیور بہت ہیں لیکن جہالت کی تاریکی میں علم کی شمع روشن کرنے والا کوئی نہیں۔ یاد رکھو! ایک وقت آئے گا جب یہی لوگ تمہاری کامیابی کی مثالیں دیں گے۔ اپنے بچوں کو تمہارے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کریں گے‘‘۔

وہ ان کے پاس آنے والے سائلین اور ضرورتمندوں کو غور سے دیکھا کرتا۔ ضرورت کے مارے لوگ ان کے پاس آنے سے پہلے غم و اندوہ کی تصویر دکھائی دیتے لیکن ان سے ملنے کے بعد ان کی ویران آنکھوں میں زندگی کی چمک اور ہونٹوں پر دعائیں ہوتیں۔ وہ حاجت مندوں سے کبھی نہ پوچھتے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کیا کام ہے؟ بلکہ خاموشی سے سائل کی طرف دیکھتے رہتے۔ سائل کی لسی اور روٹی سے تواضع کی جاتی۔

ایک بارتو حد ہو گئی، جب ان کا سب سے بڑا مخالف اور جانی دشمن ڈیرے پر ان سے ملنے آ یا تو انہوں نے فوراً اس کے لیے کھانا لانے کا حکم دیا۔ جب انہیں کہا گیا کہ یہ تو دشمن ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ میرا مہمان ہے اور اس وقت فریادی بن کر آیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف دشمن کی خاطر تواضع کی بلکہ اس کی حاجت روائی بھی کی۔

آج وہ ایک کامیاب انسان تھا۔ اس کی کامیابی اسی مسیحا کی دلجوئی کا نتیجہ تھی۔ وہ خاندان کے بزرگ تھے۔ مخلوق خدا سے محبت اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنا ان کا شیوہ تھا۔ دنیا میں خوشیوں کی بہار ایسے ہی لوگوں کی بدولت قائم و دائم ہے۔ ایسے لوگ پھل دار درخت کی مانند ہوتے ہیں۔ دنیا ایسے درختوں کا پھل کھاتی ہے، اس کی ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھتی ہے اور پھر اس کو نفرت، بے اعتنائی اور ظلم کے کلہاڑے سے کاٹنا شروع کر دیتی ہے۔

انہوں نے بھی ایک پھل دار درخت کی مانند یہ غم صبر وبرداشت کا پیکر بن کر سہے۔ جن رشتے داروں کی بنجر زمینیں بکوا کر انہیں زرخیز زمینوں کا مالک بنایا انہوں نے اسے بے ایمان کہا۔ انہوں نے خاندان کے تمام زمینی و فوجداری مقدمات اکیلے نمٹائے، بے وقوف اور نا اہل بھائیوں کو ساری زندگی سینے سے لگائے رکھا۔ دنیا کو کبھی پتہ نہ چلنے دیا کہ ان کے بھائی سیدھے سادے اور نکمے ہیں۔ اگر کوئی مخالف بھائیوں کی شکایت لے کر آتا تو اپنے بھائیوں کو پیار سے سمجھاتے۔

انہوں نے دو شادیاں کر رکھی تھیں لیکن دونوں بیویوں کی اولاد میں محبت و الفت کی ایسی گرہ ڈالی کی دنیا ان کے پیار اور اتفاق کی مثالیں دیتے نہیں تھکتی۔ وہ دوست احباب کی ضرورتیں ان کے چہرے سے ہی بھانپ لیتے تھے۔ انہوں نے زندگی میں کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ انہوں نے مرنے سے پہلے اپنے تمام دشمنوں کو بلا کر ان سے کردہ اور نا کردہ گناہوں کی معافی مانگی، تمام دنیاوی معاملات نمٹائے اور پٹواری کو بلا کر اپنی زمین اور جائیداد بچوں کے نام کروائی۔

زندگی کے آخری ایام میں کینسر کی بدولت ان کے دل میں سخت درد ہوتا تھا۔ شائد دنیا بھر کے درد سمیٹتے سمیٹتے ان کا دل درد سے بھر گیا تھا لیکن مرنے سے پہلے شدید درد کے باوجود ان کے ہونٹوں پر ایک ملکوتی مسکراہٹ رقصاں رہتی تھی۔

آج خاندان، برادری اور علاقے کے مسائل کا عفریت دیکھ کر اسے مسیحا کی بہت یاد آئی۔ وہ مسائل جو ان کی بدولت ایک پنچایت میں حل ہو جاتے تھے، آج ان مسائل پر بندوقیں نکال لی جاتی ہیں۔ سچ کہتے ہیں کہ تپتی دھوپ میں ہی سایہ دار درخت کی قدر کا پتہ چلتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔