معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری کیوں؟

آصف ملک  منگل 23 اپريل 2019
پاکستان میں تقریباً 30 فیصد لوگ خطہ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان میں تقریباً 30 فیصد لوگ خطہ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی جس چیلنج کا سامنا تھا، وہ تھا معاشی چیلنج۔ اس سے قطع نظر کہ عمران خان کی قیادت میں اس بحران سے نکلنے کے لیے اقدام کیے گئے یا نہیں، مگر قرضوں کے بوجھ، معاشی عدم استحکام اور گومگو کی کیفیت نے بحران کو مزید ہوا دی۔

حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان نے ستمبر تا دسمبر 2018 تک 746 ارب کا اندرونی قرضہ حاصل کیا۔ اسی عرصے میں 1313 ملین ڈالر بیرون ملک سےقرض لیا اور روزانہ کی بنیاد پر 15 ارب روپے کا قرض لے رہا ہے، جبکہ پانچ مہینوں میں حکومت 2240 ارب روپوں کا قرض لے چکی ہے۔ دوست ممالک کی جانب سے کم و بیش 8 ارب ڈالر موصول ہو کر خرچ بھی ہوچکے ہیں۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا ملک کی معاشی حالت نہیں تبدیل ہوسکتی اور اس بات میں کافی وزن بھی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے میں نے کوشش کی کہ ایک ایسے ملک کا حوالہ دیا جائے جو خانہ جنگی سے نکل کر آج تیز ترین معیشت کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔

اسی ماہ 7 اپریل کو روانڈا میں نسل کشی کے پچیس برس مکمل ہونے پر سوگ منایا گیا۔ 100 دنوں کی اس نسل کشی میں تقریباً 8 لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ یہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب 6 اپریل 1994 کو روانڈا کے اُس وقت کے صدر جوینل ہابیاریمانا کے جہاز کو نشانہ بنایا گیا۔ جہاز میں سوار تمام افراد مارے گئے۔ کیونکہ صدر جوینل کا تعلق ہوتو قبیلے سے تھا، ہوتو قبیلے کے اہم لوگوں نے حملے کا الزام تتسی قبیلے پر عائد کیا۔ جس نے ہوتو اور تتسی قبیلے کے درمیان سرد جنگ کو ہوا دی، جو صدیوں سے چلی آ رہی تھی اور ملک میں فسادات شروع ہو گئے۔

کچھ تاریخ دانوں کو ماننا ہے کہ final solution کے نام سے ایک پلان پر 1990 کے اوائل سے ہی کام ہو رہا تھا کہ کیسے تتسی قبیلے کے تمام افراد کو قتل کردیا جائے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے روانڈا کی فوج نے ہوتو افراد کو ہتھیاروں سے لیس کرنا شروع کردیا۔ قتل و غارت کی اس مہم کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ہوتو ملیشیاؤں کو تتسی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کی فہرستیں دی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لسٹیں حکومتی پارٹی اور فوجی اہلکاروں کی جانب سے دی گئیں۔ یہ لسٹیں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی نوجوانوں پر مشتمل ملیشیا اور پیراملٹری فورس کو دی گئیں۔ تتسی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کی تلاش کے لیے سڑکوں پر ناکے لگائے گئے، ریڈیو نشریات کا بطور ہتھیار استعمال کیا گیا، نفرت انگیز اعلانات کیے گئے، جذبات کو ہوا دی گئی اور گھر گھر کی تلاشی لی گئی۔

اس قتل عام کے نتیجے میں تقریباً چالیس فیصد آبادی یا تو قتل ہوگئی یا پھر ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئی۔ مگر اس تمام کے باوجود کوئی یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ ملک جو 1994 میں صرف 3 فیصد پر ترقی کررہا تھا، 8 لاکھ لوگوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا، وہ دو دہائیوں بعد دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں ہو گا۔ 2000 میں روانڈا نے ویژن 2020 متعارف کروایا، جس میں یہ ٹارگٹ رکھا گیا کہ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر 2020 تک روانڈا کو ٹرانسفارم کردیا جائے گا۔

وہ دن اور آج کا دن، روانڈا کی ترقی کی شرح سالانہ سات فیصد ہے۔ 2005 میں 57 فیصد لوگ خطہ غربت سے نیچے تھے، جو کم ہو کر 2010 میں 45 فیصد رہ گئے۔ مگر اس کے باوجود افریقی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق روانڈا میں ترقی کی شرح 7٫2 فیصد رہی جبکہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق روانڈاکا جی ڈی پی گروتھ 2001 سے 2014 کے درمیان 8 فیصد رہا۔

2018 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں تقریباً 30 فیصد لوگ خطہ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اور پاکستان کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ اس وقت تین اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ روانڈا نے یہ سب کچھ کیسے حاصل کیا؟ اس کا جواب روانڈا کے معروف ترین سیاسی تجزیہ کار فریڈریک موتیبی کے بقول ’’سیاسی استحکام‘‘ ہے۔ 1994 میں ہماری معیشت تباہ ہوگئی تھی۔ ریفامز اس وقت لاگو نہیں کیے جاسکتے، جب تک سیاسی استحکام نہ ہو۔ سب سے پہلے روانڈا میں سیاسی استحکام حاصل کیا گیا، اس کے بعد معیشت بہتر ہوئی‘‘۔

اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ روانڈا نے وہ کون سے اقدامات کیے جن کی بدولت وہ افریقہ کی بہترین معیشت بنا۔

روانڈا نے فیصلہ کیا کہ انفرااسٹرکچر یعنی بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے سے ہی روانڈا ترقی کرے گا اور ملک میں بیرونی سرمایہ کاری ہو گی۔

1995 سے 2005، یعنی پہلے دس سال صرف بیرونی سرمایہ کاری کے لیے مواقع اور ملک میں سیاسی استحکام پر توجہ دی گئی۔ 2009 میں روانڈا ڈیولپمنٹ فنڈ بنایا گیا، جس کا مقصد کاروباری قواعد پر نظر رکھنا، بیرونی سرمایہ کاری کے لیے موزوں مواقع کی فراہمی، سیاحت کا فروغ، اکنامک اور ڈیولپمنٹ پلاننگ تھا۔ اسی فنڈ اور مثبت معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں 2017 روانڈا کے لیے بہترین سال ثابت ہوا، جب کرپشن کی روک تھام کے حوالے سے افریقی ممالک میں تیسرے نمبر پر آیا۔

پاکستان کی طرح روانڈا بھی زرعی ملک ہے۔ 83 فیصد آبادی گاؤں میں رہتی ہے اور 70 فیصد کا ذریعہ معاش زراعت سے ہی جڑا ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ روانڈا نے اپنی ڈائریکشن زراعت سے ہٹا کر مینوفیکچرنگ اور ڈیولپمنٹ سیکٹر کی جانب کی اور آج زراعت روانڈا کے جی ڈی پی کے محض 33 فیصد پر آ گئی ہے۔ 1994 میں اوسط آمدن 418 ڈالر تھی، جو 2018 میں 2225 ڈالر رہی۔ اسی طرح مہنگائی کی شرح 56 فیصد سے کم ہو کر 4 اعشاریہ آٹھ فیصد پر آ گئی ہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق کاروبار میں آسانی اور سرمایہ کاری کے لیے روانڈا دنیا کا 29 واں بہترین ملک ہے۔ روانڈا ڈیولپمنٹ بورڈ کے مطابق، 2018 میں سرمایہ کاری کا حجم 2 ارب ڈالر رہا۔ 173 سرمایہ کاری کے پراجیکٹس میں سے 26 فیصد کا تعلق برآمدات سے تھا۔ زراعت، کان کنی اور مینوفیکچرنگ سیکٹرز میں 57 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ 2005 سے 2011 کے درمیان چھ سال میں دس لاکھ لوگوں کو خطہ غربت سے اوپر اٹھایا گیا۔ افراط زر جو 1991 میں 19 فیصد تھا 2017 میں کم ہو کر 4 فیصد رہ گیا۔ جبکہ اس وقت پاکستان کا افراط زر 9 اشاریہ چار فیصد ہے۔

1989 سے 1992 کے دوران روانڈا کے بیرونی قرضوں میں 34 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ پاکستان کا قرضہ پچھلے دس سال میں 6 ہزار ارب سے 30 ہزار ارب تک پہنچ گیا۔

اگر اوپر دیے گئے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو 1990 کے روانڈا اور 2019 کے پاکستان کے معاشی حالات میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ کیا پاکستان روانڈا کی طرح ان حالات سے نکل سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہمیں سوچنا ہے۔

ہمیں من حیث القوم سوچنا پڑے گا کہ ہم کس جانب گامزن ہیں؟ کیا یہی ہمارا مقدر ہے اور یہی خواب ملک بنانے والوں نے دیکھے تھے؟ نسل کشی کے باوجود اگر روانڈا اتنی تیزی سے ترقی کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو پاکستان کے عوام کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کو بھی سوچنا ہے۔ کیونکہ حقوق کی عدم فراہمی، مہنگائی کا طوفان، اور غیر منصفانہ تقسیم مایوسی کی طرف دھکیلتی ہے اور مایوسی معاشرے میں بے چینی کو ہوا دیتی ہے۔ پھر اسی بے چینی سے نفرت کا الاؤ سلگ کر معاشرے کو نسل کشی کی جانب لے جاتا ہے۔

ہمیں سوچنا پڑے گا کہ کیا ہمیں پاکستان کو نسل کشی اور خانہ جنگی کی جانب لے کر جانا ہے یا سیاسی استحکام کی جانب۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف ملک

آصف ملک

بلاگر ڈان نیوز کے پروگرام ’’نیوز آئی‘‘ کے ایسوسی ایٹ پروڈیوسر اور ریسرچر ہیں۔ آپ سے ٹوئٹر آئی ڈی i_AsifMalik@ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔