پیر بھائی اور پیر بہن

سعد اللہ جان برق  منگل 23 اپريل 2019
barq@email.com

[email protected]

پڑوسی ملک کی ’’ہلایلیوں‘‘سے ہمارا رشتہ صرف ’’چھیڑ چھاڑ‘‘کاہے ، وہ بھی محض یک طرفہ بلکہ اب تو اسے ہراسانی کا رشتہ بھی سمجھیے کیونکہ ایک’’ہالی وڈی‘‘ عفیفہ نے کہاہے کہ کسی لیڈی کے حسن کی تعریف کرنا بھی ہراسانی ہے اور ظاہر ہے کہ مغربی یا ہالی وڈ گالی وڈ سے آنے والی ہر بات قانون اور دستور کا درجہ رکھتی ہے،وہ تو اچھا ہے کہ مرشد اس قانون کے لاگو ہونے سے پہلے ہی نکل لیے ہیں ورنہ سب سے پہلے تو ان پر مقدمہ چلتا کیونکہ انھوں نے اس شعر میں شدید ہراسانی کا ارتکاب کیاہے کہ

چھیڑخوباں سے چلی جائے اسد

گرنہیں وصل تو حسرت ہی سہی

شاید کتابت کی غلطی سے ’’ہراست‘‘ کا حسرت بن گیا ہو بلکہ اس ہالی وڈی گالی وڈی عفیفہ کے اس قانون کے بعد تو تمام شاعروں کے سر پر تلوار بلکہ خطرہ ’’880 وولٹ‘‘ لٹکنے لگاہے۔اس لیے پہلے تو ہم تمام شاعروں کو احتیاط اور ساودھانی کی تلقین کریں گے کہ خبردار ہوشیار باش، اپنے شتربے مہار قلم کو لگام ڈال دیجیے۔

اب ہم اپنی بات کرنا چاہتے ہیں بلکہ اس چھیڑ اور ہراسمنٹ کی جو ہم کرتے رہتے ہیں اور خوش قسمتی سے یکطرفہ ہونے کی وجہ سے ہم ابھی تک بچے ہوئے ہیں لیکن کیا پتہ اگر کسی حاسد نے اس نئے قانون ہراست سے ان کو آگاہ کردیا تو؟ کیونکہ یہ ہراسمنٹ کا سارا چکر ہی لین دین کے لیے چلایاگیا ہے ورنہ ہراسمنٹ کا شکار ہونے والیاں……کون نہیں جانتا ۔اس لیے آج سے تعریف یعنی ہراسمنٹ بند۔لیکن کیاکریں کسی نہ کسی طرح ہم نے بھی اپنے اور اپنے پڑھنے والوں کے لہو کو گرم بھی رکھنا ہوتاہے سو تعریف کی جگہ برائی کرنے سے کام چلائیں گے۔

مثلاً گزشتہ سال ان فلمی ’’ہلایلیوں‘‘نے جس طرح اپنے پرستاروں کے منہ پر تھوکا ہے، اس طرح اگر کسی ٹیڑھی دم والے جانور پر بھی تھوکا جاتا تو وہ کسی ٹرک کے آگے جاکر خود کشی کرلیتاہے۔مثلاً اس پریانکا کولے لیجیے، اس کے کوے یا توے جیسے رنگ اور ادھوری ناک کو جس طرح پرستاروں نے آسمان پر چڑھایا اور اسے عالم میں چمکایاتھا، جواب میں اس نے سوا سوکروڑ لوگوں کے کالے چہروں پر تھوک کر ’’گورے‘‘ کا انتخاب کیا، یہ تو سراسر ڈوب مرنے کا مقام ہے، صرف اس کالی کوی اور نامکمل ہونٹوں اور ناک والی ہی نے نہیں بلکہ بہت سی اور بھی ہیں جنھوں نے دانہ یہاں کا کھایا اور انڈا جاکر کہیں اور دیا۔یہ کوئی انصاف ہے۔کہ خدائی خوار زندگی بیزار اور خودکشی کوتیار ہم وطنوں سے کروڑوں وصولنے اور بام عروج پر چڑھنے کے بعد یوں کسی اور کنٹری میں انٹری دی جائے اور وہاں ڈوئٹ گاتی پھرے کہ

میں نے ماری انٹریاں تو دل میں بجی گھنٹیاں

ٹنگ ٹنگ ٹنگ

آخر اپنے دیس کی بھی کچھ گارنٹیاں وارنٹیاں نہ سہی کچھ دلوں کی مرمتیں بھی تو ہونی چاہیں۔مانا کہ پوری پوری کنٹریاں ان کی انٹریاں پسند کرتی ہیں لیکن اپنوں کے منہ پر یوں تھوک کر۔وہ بھی کالے بھجنگ مونہوں پر۔اس سے زیادہ انیائے شاید امریش پوری نے بھی راکھی کے ساتھ نہیں کیاہوگا۔اس ٹیڑھی دم والے جانور کا پھر ذکر آگیا، اسے بھی جس گھر سے جس در سے اور جس ہاتھ سے نوالہ ملتاہے، اسے چھوڑ کر کسی کے پیچھے نہیں جاتا اور یہاں یہ ہلایلیاں یوں پلو جھاڑ کر کسی ایرے غیرے کے ساتھ ہولیتی ہیں، وہ بھی اس لیے کہ اس کا رنگ گورا ہے تو تمہارا رنگ کونسا کسی کوے سے کم ہے ۔

ویسے ہمیں اس مقام پر خیال آیاہے کہ یہ جن پر تھوکا گیاہے، یہ بھی اسی قابل ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں اور موقع واردات پر جاکر ہم نے دیکھا ہے وہاں اپنے رنگ کو گورا بنانے کا جنون بری طرح پھیلا ہوا ہے۔ اس کے آگے چونکہ ممنوع کا بورڈ لگاہے، اس لیے دوسری طرف مڑتے ہیں اور اپنی عادت یعنی تعریف اور گن گانے پر آتے ہیں۔ وہ بھی اس لیے کہ ہم جس کی تعریف کرنا چاہتے ہیں، وہ ہراسانی کی حدود سے تقریباً نکل چکی ہے اور تعریف بھی حسن کی بلکہ حسن ذوق کی کرنا مقصود ہے۔اس محترمہ اور یہ محترمہ کا لفظ ہم تمام تر معنی کے ساتھ دل سے استعمال کررہے ہیں اور اس لیے استعمال کررہے ہیں کہ اس میں اپنے ’’مرشد‘‘ اسداللہ خان کی تعریف کا پہلو بھی نکلتاہے جن کا نظریہ تھا کہ

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

ہاں تو ان محترمہ کانام مادھوری ڈکشٹ ہے جو اپنی جوانی اور عروج کے زمانے میں بالکل بھی ہماری گڈبک  میں نہیں رہی ہے،کیونکہ اس کی شکل ہماری ایک پڑوسن سے ملتی تھی۔جس نے اپنے گھر میں وہ ٹیڑھی دم والا جانور اس لیے نہیں رکھاتھاکہ اس کاکام وہ اور اس کا ابا خود کرلیتے تھے اور جو اکثر ہمارے گھر پر اپنی تمام تر صلاحیتوں اور قوتوں کے ساتھ حملہ آور ہوجایاکرتی تھی۔لیکن ایک تو اب ہماری وہ مادھوری ڈکشٹ کی ہمشکل اور ٹیڑھی دم والی صفات کی حامل پڑوسن، کسی دوسرے گاؤں میں بیاہی جا چکی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے شوہر کی خودکشی کی خبر ابھی تک نہیں آئی ہے۔شاید وہ بھی وہ ہو جس کا ’’صبر‘‘ مثالی ہوتاہے اور دوسری وجہ یہ ہوئی کہ اس نے غالب کا ایک شعر جس انداز اور سلیقے سے حسب حال موقع پر استعمال کیا، اس نے ہمارا دل موہ لیا۔

درطریقت رنجش خاطر نہ باشد می بیاد

ہر کدورت راکہ بینی درصفائی رفت رفت

وہ ایک ڈانس کمیشن کی جج تھی اور ایک جوڑے پر تبصرہ کرنے لگی تو بغیر کسی اسکرپٹ یا غلطی کے اس نے مرشد کا یہ شعر پڑھ دیا

دل میں پھر گریہ نے اک شور اٹھایا غالب

آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا

اس جوڑے نے بالکل خلاف توقع گزشتہ مرحلے میں ناقص پرفارمنس کے باوجود اس وقت ٹاپ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور یہ شعر بھی مادھوری کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا، مطلب یہ کہ وہ غالب کی پرستار نکلی، سو اس کے ساتھ ہمارا پیربھائی یا پیربہن کا رشتہ ہوگیا، اس لیے دل سے ہر کدورت نکال کر اس کے فین بلکہ ایئرکنڈیشن ہوگئے۔ کیونکہ یہ پیربھائی یا پیربہن کا رشتہ بڑا ہی پوتر اور طاقتور ہوتاہے تو اس سے ہمارے مرشد کے دل ودماغ کے فاتح اعظم وعالم ہونے کا ثبوت بھی مل جاتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔