وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی تبدیلی ’’موخر‘‘ ہوئی ہے، منسوخ نہیں؟

رضوان آصف  بدھ 24 اپريل 2019
سردار عثمان بزدار کو مہلت مل گئی ہے اب وزیر اعلی پنجاب کو اپنے طرز حکمرانی میں تبدیلی کرنا چاہیئے۔ فوٹو: فائل

سردار عثمان بزدار کو مہلت مل گئی ہے اب وزیر اعلی پنجاب کو اپنے طرز حکمرانی میں تبدیلی کرنا چاہیئے۔ فوٹو: فائل

 لاہور:  پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کے ستارے روز اول سے ہی گردش میں ہیں لیکن وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں کے بعد پنجاب میں تبدیلی کے حوالے سے قیاس آرائیوں میں غیر معمولی تیزی آ چکی ہے، نئے وزیر اعلی کے حوالے سے بہت سے نام بھی گردش میں ہیں لیکن ان ناموں میں چوہدری نثار علی خان کا نام تو ہر گز شامل نہیں ہے۔

ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی چوہدری نثار سے ملاقاتوں کی بے بنیاد اور من گھڑت خبریں بھی چلا دی گئیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ فوجی قیادت کی نہ تو چوہدری نثار سے کوئی ملاقات ہوئی ہے اور نہ ہی چوہدری نثار کا نام وزارت اعلی پنجاب کیلئے کسی بھی سطح پر زیر غور ہے، یہ ایک پراپیگنڈہ اسٹنٹ تھا جس کا مقصد صرف حکومت کو کمزور ظاہر کرنا اور فوجی قیادت کو سیاست زدہ کرنا تھا۔ یہ درست ہے کہ سردار عثمان بزدار کی کارکردگی اور ان کے طرز حکومت پر تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کو ہی پریشانی نہیں ہے بلکہ پنجاب کے عوام اور افسر شاہی بھی اس سے مطمئن نہیں ہے۔

سردار عثمان بزدار کی ابتک ناکامی کی جو چند اہم وجوہات سمجھ میں آتی ہیں ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ عثمان بزدار نے اپنی سمجھ بوجھ اور فہم وفراست کو مرکزیت دینے کی بجائے اپنے ارد گرد موجود چند ایسے نادانوں کے مشوروں کو اہمیت دینا شروع کر رکھا ہے جو برسہا برس بیرون ملک رہنے کے بعد اب چھاتہ بردار کی حیثیت سے پنجاب میں اترے ہیں اور وہ خود کو ’’عقل کل‘‘ بھی سمجھتے ہیں اور ’’ڈی فیکٹو‘‘ وزیر اعلی بھی۔ یہی وہ چند عناصر ہیں جو سردار عثمان بزدار کو تحریک انصاف کے سینئر رہنماوں اور حکومت کے اہم عہدیداروں کے بارے میں بدگمان کرتے رہتے ہیں۔

گزشتہ 9 ماہ کے دوران عثمان بزدار پنجاب میں اپنی گرفت کو مضبوط نہیں بنا سکے ہیں اور نہ ہی ان کی انتظامی صلاحیتیں غیر معمولی ثابت ہوئی ہیں ۔ پنجاب کا کلچر مختلف طرز کا ہے یہاں کے لوگ موم جیسا وزیر اعلی نہیں چاہتے، وہ دبنگ حکمران دیکھنا چاہتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ وہ اس حکمران کو عوام دوست، کرپشن فری اور انتظامی امور میں عقاب سی پھرتی والا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب یہ بحث پیچھے رہ گئی ہے کہ سردار عثمان بزدار کس کی’’فخریہ پیشکش‘‘ ہیں،جس نے بھی ان کا نام تجویز کیا تھا اس نے یہ تو نہیں کہا ہوگا کہ سردار عثمان، تم نے کام نہیں کرنا۔ وزارت اعلی دلوانے والوں نے اپنا کام مکمل کیا اب اس وزارت اعلی کو کامیاب کرنا سردار عثمان کی ذمہ داری ہے۔ نیب گرفتاری سے قبل عبدالعلیم خان ان کی کابینہ کے سب سے متحرک رکن تھے۔

اس وقت جو لوکل گورنمنٹ بل اسمبلی میں لایا گیا ہے وہ 99 فیصد وہی ہے جو عبدالعلیم خان نے کئی ماہ کی محنت سے تیار کیا تھا اور اس پر متعدد بار عمران خان کو بریفنگ بھی دی تھی۔ پنجاب کے بڑے شہروں بالخصوص لاہور میں صفائی کی صورتحال بہتر کرنے اور تجاوزات کے خاتمہ میں بھی علیم خان نے غیر معمولی کارکردگی دکھائی لیکن فتنہ طرازوں نے عثمان بزدار اور علیم خان کے درمیان بھی ایک خلیج پیدا کردی تھی، عثمان بزدار نے خود ہی علیم خان کو 100 روزہ پلان کی مانیٹرنگ کا ٹاسک دیا ،علیم خان نے اس حوالے سے 50 کے لگ بھگ اجلاس بھی منعقد کیئے لیکن جب وزیر اعظم عمران خان کو بریفنگ دینے کی باری آئی تو عثمان بزدار نے پکی ہوئی دیگ اپنے سامنے رکھ لی اور خود بریفنگ دی۔

گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے ساتھ ابتداء میں تو وزیر اعلی پنجاب کے تعلقات ٹھیک تھے لیکن بعد میں یہ خراب ہوتے چلے گئے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ عثمان بزدار کی شکایت پر گڈ گورننس کمیٹی میں سے چوہدری سرور کی با اعتماد ساتھی رابعہ ضیاء کا نام نکال دیا گیا اور یہیں سے کشیدگی میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ چوہدری سرور خود بھی وزارت اعلی پنجاب کے امیدوار رہے ہیں اور شاید آج بھی ان کا دل یہی چاہتا ہے مگر چوہدری سرور اور وزیر اعلی کے اختلافات کے پیچھے ایک داستان اور بھی ہے۔

فی الوقت تو عمران خان کی ’’ہدایت‘‘ پر سردار عثمان بزدار خود چل کر چوہدری سرور کے پاس گئے ہیں،مسکراہٹوں کو چہرے پر سجائے فوٹو شوٹ بھی ہو گیا ہے لیکن ابھی’’سب اچھا ہے‘‘ کی آواز سنائی نہیں دی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ چوہدری سرور آئندہ چند روز میں گورنر ہاوس میں ایک بڑی تقریب منعقد کر رہے ہیں جس میں پنجاب بھر سے تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز اور رہنماوں کو مدعو کیا جائے گا۔ شاہ محمود قریشی نے چوہدری سرور کے پہلو میں بیٹھ کر جہانگیر ترین پر حملہ کیا،اس کے بعد چوہدری صاحب نے ’’آلو چھولے‘‘ والا بیان داغ دیا اور اب اچانک ٹکٹ ہولڈرز اور پارٹی رہنماوں کی دعوت کا ارادہ،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر شطرنج کی نئی بساط بچھائی جا رہی ہے۔

پنجاب کی وزارت اعلی میں تبدیلی کے حوالے سے جاری قیاس آرائیوں میں ویسے تو چار یا پانچ نام زیر گردش ہیں لیکن صوبائی وزیر صنعت پنجاب میاں اسلم اقبال کا نام ’’موسٹ فیورٹ‘‘ کے طور پر سامنے آیا ہے، نہ صرف تحریک انصاف کے باخبر حلقے بلکہ دیگر سیاسی پارٹیوں، بیوروکریسی اور مقتدر طاقتوں کے حلقوں میں بھی میاں اسلم اقبال کانام سنائی دے رہا ہے،چند ہفتوں کے دوران میاں اسلم اقبال کی جہانگیر ترین سے متعدد ملاقاتوں نے بھی تاثر کو مضبوط کیا ہے۔ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلی میں تبدیلی کا عمل بجٹ منظوری تک موخر تو کیا گیا ہے لیکن تبدیلی کے فیصلے کو منسوخ نہیں کیا گیا۔ ویسے بھی عمران خان اگر اسد عمر کو تبدیل کر سکتے ہیں تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔

یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ چند روز قبل اچانک ان خبروں اور قیاس آرائیوں میں تیزی آ گئی تھی کہ گورنر پنجاب کے عہدے پر بھی تبدیلی ممکن ہے۔ بعض حلقوں کا دعوی تھا کہ گورنر صاحب، وزیر اعلی کے رویے کی وجہ سے استعفیٰ دینے پر غور کر رہے تھے لیکن عمران خان نے نہ صرف گورنر اور وزیر اعلی کے مابین کشیدگی ختم کروائی ہے بلکہ گورنر اور سپیکر پنجاب اسمبلی کے درمیان بھی تعلقات کو قدرے بہتر بنانے میں رول نبھایا ہے جس کے نتیجہ میں ’’پاک آب اتھارٹی بل‘‘ کی منظوری کا معاملہ بھی حل پا گیا ہے۔

سردار عثمان بزدار کو مہلت مل گئی ہے اب وزیر اعلی پنجاب کو اپنے طرز حکمرانی میں تبدیلی کرنا چاہیئے، کچھ وزراء کے ساتھ ذاتی دوستی اور کچھ کی خوشامد کو بالائے طاق رکھ کر وزراء کی حقیقی کارکردگی کے مطابق کابینہ میں تبدیلیوں کی سفارشات تیار کر کے وزیر اعظم سے منظوری لیں، سرکاری اجلاسوں کی صدارت کرنے سے قبل ایجنڈے کی خوب تیاری کریں، فائلوں کو بغور پڑھنا شروع کریں اور اجلاس کے دوران متعلقہ حکام سے بامعنی اور غیر معمولی سوالات کریں تا کہ بیوروکریسی جو کہ ابتک وزیر اعلی کو سنجیدگی سے ڈیل نہیںکر رہی اسکو بھی خبر ہو جائے کہ وزیر اعلی پنجاب کو چکمہ دینا ممکن نہیں رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔