کابینہ میں ردوبدل، نئی ٹیم وزیر اعظم کی توقعات پر پورا اتر سکے گی؟

ارشاد انصاری  بدھ 24 اپريل 2019
پچھلے نو ماہ کے دوران کارکردگی سے ایک جانب عوامی میدان میں کپتان اور اس کی ٹیم کے کھلاڑیوں کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ فوٹو: فائل

پچھلے نو ماہ کے دوران کارکردگی سے ایک جانب عوامی میدان میں کپتان اور اس کی ٹیم کے کھلاڑیوں کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: کپتان نے پہلی اننگ میں کارکردگی نہ دکھانے پر ٹیم میں بڑی پیمانے پر ردوبدل کرکے نئی ٹیم میدان میں اتار دی ہے اور کپتان کی ٹیم کے اوپنر بلے باز اسد عمر جس برے طریقے سے آوٹ ہوئے ہیں اس نے کپتان سمیت پوری ٹیم کودباؤ کا شکار کردیا ہے اورسیاسی و اقتصادی حلقوں میں یہی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا کپتان کا ون ڈاون کھلاڑی حفیظ شیخ ٹیم کو دباو سے نکال سکے گا۔

اگرچہ کپتان کی میدان میں اتاری جانیوالی نئی ٹیم نے نئے جذبے اور لگن کے ساتھ بیٹنگ شروع کردی ہے مگر اس ٹیم کی کامیابی کیلئے کپتان کو بھی دبنگ کردار ادا کرنا ہوگا اور ٹیم کے آپسی اختلافات کو سمندر برد کرنا ہوگا کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کے وجود میں آتے ہی ٹیم آپسی اختلافات کا شکار ہے اور اس سارے کھیل میں کپتان کو مسند اقتدار پر بٹھانے کیلئے اراکین پارلیمنٹ کی عددی برتری حاصل کرنے کیلئے سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے آزاد اراکین کو طیارے میں بھر بھر کر لانے والے کپتان کے ساتھی جہانگیر ترین کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

شائد یہی وجہ ہے کہ یوٹرن کے فلسفہ پر عمل پیرا کپتان نے نا اہل نوازشریف بارے چلائے جانیوالے تنقید کے تمام تر نشتر بالائے طاق رکھتے ہوئے اس معاملے میں بھی یوٹرن لینا ضروری سمجھا اور بھنور میں پھنسی حکومتی ناؤ کو بھنور سے نکالنے کیلئے ایک نااہل کا انتخاب کرنا پڑا اور آج پاکستان تحریک انصاف میںطاقت کا محور ملک کی سب سے بڑی عدالت سے نااہل قرار پانے والے جہانگیر ترین کو تصور کیا جاتا ہے۔

سُپریم کورٹ سے نااہلی کے باوجود کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت ہو یا پارٹی معاملات ہو ہر جگہ جہانگیر ترین کا طوطی بولتا ہے۔ واقفان حال کا خیال ہے کہ کپتان پر جہانگیر ترین کا رنگ خوب جما ہے اور فیصلہ سازی میں بھی جہانگیر ترین کی رائے کو معتبر جانا جاتا ہے اور بعض حلقوں کا خیال ہے کہ کپتان کی ٹیم کے اہم کھلاڑی اسد عمر کی وکٹ گرانے والے باولر بھی جہانگیر ترین ہی ہیں اس سے پہلے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی لڑائی سب دیکھ چکے اور پھر پنجاب میں بھی جہانگیر ترین کا اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ گورنر پنجاب چوہدری سرو ر ہوں یا حکومت کی اہم اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ(ق) کے کھلاڑی ہوں سب کو جہانگیر ترین سے شکوہ ہے ۔

یہی نہیں کپتان کی ٹیم کے نئے کھلاڑیوں کی سلیکشن بارے مختلف حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور کپتان کی ٹیم کے سولہ کھلاڑی آوٹ سائیڈر ہیں جس پر سب سے زیادہ تنقید ہو رہی ہے اسی بناء پر اپوزیشن کی جانب سے عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم کا طعنہ سُننے کو مل رہا ہے اور حکومت پر تنقید ہو رہی ہے کہ فیصلے کہیں اور سے ہو رہے ہیں۔اعظم سواتی کی کپتاں کی ٹیم میں شمولیت پر بھی خوب لے دے ہو رہی ہے کپتان کی جانب سے ٹیم میں حالیہ تبدیلیوں پر تو بہت ہی زیادہ تنقید ہو رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ٹیم کی تبدیلی سے پہلے تک خود کپتان بھی لاعلم تھے۔

یہی نہیں کپتان کی منتخب کردہ ٹیم کو لے کر کپتان کی بائیس سالہ جدجہد کو بھی ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے کبھی کپتان کو پورے کھلاڑی مشرف ٹیم کے لینے کا طعنہ دیا جاتا تھا اور اب نئی ٹیم کے اعلان کے بعد اپوزیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت کی ٹیم اپنی کابینہ میں لینے کا طعنہ دیا جا رہا ہے اور عمران خان کے پرانے بیانات کو لے کر کپتان کی ٹیم کے سب سے اہم کھلاڑی ڈاکٹر حفیظ شیخ پر تنقید کی جا رہی ہے کہ جس کرپش اور لوٹ مار و معیشت کو تباہ کرنے کی گردان کپتان کیا کرتے تھے۔

اس وقت کی معاشی ٹیم کے کپتان یہی حفیظ شیخ تھے۔ اپوزیشن کی تنقید اپنی جگہ مگر اسد عمر کے مستعفی ہونے کے ٹویٹ کے بعد سے نئے وزیر خزانہ کے ناموں بارے قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں اور کبھی عمر ایوب کو یہ عہدہ دیے جانے کی خبریں گردش کرتی رہیں تو کبھی شوکت ترین کی جانب سے یہ عہدہ سنبھالنے سے انکار کی باتیں ہوئیں لیکن ان سب ناموں کے برعکس قرعہ فال عبدالحفیظ شیخ کے نام نکلا اور وہ وزیراعظم کے مشیر برائے مالیاتی امور بنا دیے گئے۔ حفیظ شیخ پیپلز پارٹی کے گذشتہ دورِ حکومت میں وفاقی وزیر خزانہ تھے جبکہ اس سے قبل مشرف دور میں سندھ کے وزیر خزانہ اور بعد میں نجکاری کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔

حفیظ شیخ کی تعیناتی کے ساتھ ہی میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس بحث کا آغاز بھی ہو گیا ہے کہ اس اہم عہدے کے لیے ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیوں کیا گیا جو عوامی ووٹ سے منتخب ہو کر نہیں آئے، مگر بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ نواز کے سوا پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں یہ ایک بڑا مسئلہ پایا جاتا ہے کہ ان کے پاس صف اول کے معاشی ماہرین نہیں ہوتے اور’اسی کمزوری کی وجہ سے ماضی کی حکومتوں کو بھی ’بریف کیس‘ وزیر خزانہ کی طرف دیکھنا پڑا اور اس دفعہ پھر وہی ہوا اور سیاسی بااثر حلقوں کا خیال ہے کہ نئے مشیرِ خزانہ کے نام کا انتخاب وزیر اعظم عمران خان کا نہیں بلکہ کسی اور‘ کا انتخاب ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ نئے مشیر خزانہ کے واشنگٹن میں مضبوط تعلقات بتائے جاتے ہیں۔

اسد عمر کے دور میں تیار کردہ ایمنسٹی سکیم مسترد کرکے نئی ایمنسٹی سکیم کا مسودہ تیار کرنے اور بجٹ سازی کا عمل تیز کرنے کی ہدایات جاری کر چکے ہیں۔ نئے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ میں اضافے سمیت مجموعی طور پر 729 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجاویز زیر غور ہیں جبکہ اطلاعات یہ ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اگلے بجٹ میں چھ سو ارب روپے کے لگ بھگ مالیت کے نئے ٹیکس لگانے پر اصولی اتفاق ہوا ہے جو کہ آئی ایم ایف سے نیا پروگرام لینے میں معاون ثابت ہونگے اس کے علاوہ بجلی،گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور سبسڈیز میں کمی کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔

جس سے عام آدمی کی مشکلات میں یقیناً اضافہ ہوگا مگر حکومت کے پاس اس کے سواء کوئی چارہ نہیں ہے اور ابھی بھی یکم مئی سے عوام کیلئے پٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی کئے جانے کی اطلاعات آرہی ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے کی بجائے برآمدات بڑھائی جائیں، سرمایہ کاری بڑھائی جائے اور ترسیلات زر بڑھانے کے ساتھ ساتھ غیر پیداواری اخراجات کم کرکے پیداواری وترقیاتی اخراجات بڑھائے جائیں تاکہ اقتصادی سرگرمیاں فروغ پائیں۔

دوسری جانب سیاسی فرنٹ پر کپتان کی ٹیم کی خاتون کھلاڑی فردوس عاشق اعوان نے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے اور پارلیمنٹ میں آئین سازی کیلئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کا پیغام دے کر اپنی اننگ کا آغاز بہتر انداز میں کیا ہے مگر وہیں نئی مشیر اطلاعات و نشریات نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اپوزیشن کو پارلیمنٹ کو ہائی جیک کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ملکی اور قومی معاملات پر مل کر مسائل کے حل کیلئے نظام کو کامیابی سے چلانے کا حکومتی ٹیم کی اہم کھلاڑی کا پیغام ملک کے جمہوری نظام کیلئے اچھا پیغام ہے۔

پچھلے نو ماہ کے دوران کارکردگی سے ایک جانب عوامی میدان میں کپتان اور اس کی ٹیم کے کھلاڑیوں کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے تو دوسری جانب کپتان اور اس کی ٹیم کے مدمقابل اپوزیشن کی ٹیم مضبوط ہوئی ہے اور پچھلے کچھ عرصے کے دوران ملک کے سیاسی میدان میں جس تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور حکومتی رویہ سے جس طرح اپوزیشن جماعتیں قریب آئی ہیں اس سے کپتان کی مد مقابل ٹیم کی باولنگ اورفیلڈنگ مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔