- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
بی این پی کی عوام میں مقبولیت کا سیاسی گراف بڑھنے لگا
کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کا لہجہ آہستہ آہستہ تلخ ہوتا جا رہا ہے۔
وفاق میں بی این پی اور تحریک انصاف کے مابین6 نکاتی معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی بی این پی کی قیادت کو تحفظات ہیں جبکہ سردار اختر مینگل اب کھل کر صوبائی مخلوط حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں بی این پی اور تحریک انصاف کے مابین مرکز میں6 نکاتی معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک بیٹھک بھی ہوئی جس میں بی این پی کے وفد کی قیادت سردار اختر مینگل نے کی جبکہ تحریک انصاف کے جہانگیر ترین اور دیگر نے شرکت کی۔ تحریک انصاف کی قیادت نے بی این پی کے وفد کو ایک بار پھر 6 نکات پر من و عن عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ رواں وفاقی پی ایس ڈی پی میں ڈیمز، بجلی، سڑکوں کی تعمیر سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں کیلئے بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ فنڈز فراہم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بی این پی وفاق میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت اور صوبے میں باپ پارٹی کی اپوزیشن ہونے کے ناطے جس طرح سے سیاسی پتے کھیل رہی ہے وہ بی این پی کی سیاسی قیادت کی صلاحیتوں کی بھرپور عکاسی کر رہی ہے جس سے عوام میں اُس کا گراف بہتری کی جانب جا رہا ہے۔ وفاقی کابینہ میں شامل نہ ہو کر بھی بی این پی نے ایک اچھا سیاسی فیصلہ کیا ہے جبکہ بلوچستان میں اُس کا مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنا بھی پلس پوائنٹ میں جا رہا ہے۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کی سیاست میں بھی اُتار چڑھاؤ دکھائی دے رہا ہے جس میں یقیناً بی این پی کی موجودہ پوزیشن اپوزیشن میں ہوتے ہوئے دن بدن مضبوط ہو رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی پی ایس ڈی پی پر جس طرح سے موقف اختیار کیا وہ بھی مستقبل قریب میں بی این پی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کیلئے کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’جام حکومت عید قرباں سے پہلے ہی قربان ہوجائے گی‘‘۔ اُنہوں نے واضح طور پر یہ بھی کہا ہے کہ بلوچستان میں اپوزیشن کو حکومت بنانے کیلئے کسی کے اشارے کی ضرورت نہیں وہ مرکز میں اپنے تحفظات پر عملدرآمد کیلئے مزید 4 ماہ انتظار کریں گے۔
بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی موجودہ حکومت کیلئے سردار اختر مینگل کا لہجہ دن بدن تلخ ہونے اور عید قرباں پر جام حکومت کی قربانی کا اشارہ’’دال میں کچھ کالا‘‘ ہونے کا واضح عندیہ ہے۔ یعنی بجٹ2019-20 کے فوراً بعد بلوچستان میں بھی سیاسی کھیل شروع ہو سکتا ہے؟۔ جس کی باز گشت بعض سیاسی محفلوں میں بھی کافی عرصے سے سنائی دے رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق حالات کا تقاضا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کو بھی وزیراعظم عمران خان کی طرح اپنی ٹیم میں فوری طور پر ردوبدل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ جام کمال کی ٹیم بھی سیاسی لحاظ سے ’’ماٹھی‘‘ ہے گو کہ ٹیم کا کپتان تو وکٹ پر اچھا کھیل رہا ہے لیکن ٹیم کے دیگر کھلاڑی اُس طرح اس کا ساتھ نہیں دے پارہے جس طرح موجودہ حالات میں کپتان کو ضرورت ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق صرف کپتان پر ہی اکتفا کرنے سے ٹیم کو کامیابی نہیں مل سکتی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کپتان کو اپنی ٹیم کے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کرنا ہوگی ورنہ ٹیم کے بعض کھلاڑی اُسے مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ اُن کی اس خراب پرفارمنس کا فائدہ یقیناً مخالف ٹیم کو ہو رہا ہے جو کہ بہت ہی پر اُمید ہے کہ جلد ہی جام کمال کی ٹیم پویلین کا راستہ اختیار کرے گی اسی لئے اپوزیشن جماعتوں خصوصاً بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے عید قرباں تک جام حکومت کو وقت دے دیا ہے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ جام کمال بھی بڑے پُر اعتماد دکھائی دیتے ہیں اور اُنہوں نے اپوزیشن کو سیاسی طور پر ناک آؤٹ کرنے کیلئے نہ صرف اپنی سطح پر کارکردگی کو بہتر بنانے کی حکمت عملی اپنائی ہے بلکہ اتحادی جماعتوں کو بھی بعض معاملات میں اعتماد میں لینا شروع کردیا ہے اور اُن کی کوشش ہے کہ وہ کچھ ڈیلیور کریں اور حکومت کی کارکردگی زمین پر بھی دکھائی دے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال جہاں حکومتی سطح پر مختلف کارنرز پر نبرد آزما ہیں وہاں انہیں اپنی جماعت’’باپ‘‘ کے اندر بھی کچھ مشکلات کا سامنا ہے جس کے وہ مرکزی صدر ہیں ۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق پارٹی کے اندر گروپنگ اس وقت کھل کر نظر آگئی جب پارٹی کا یوم تاسیس 29 مارچ اور پھر12 اپریل کو منانے کے فیصلے کئے گئے۔
جس سے پارٹی کے اندر گروپنگ کی باتیں جو کہ اس سے قبل دبے الفاظ میں کی جا رہی تھیں وہ کھل کر سامنے آگئیں۔29 مارچ کو پارٹی کے دفتر میں یوم تاسیس کی تقریب میں اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کھل کر بولے اور اپنے وزیراعلیٰ اور پارٹی کے مرکزی صدر کے رویئے پر نالاں دکھائی دیئے۔ اس تقریب میں پارٹی کے بانی سعید احمد ہاشمی بھی موجود تھے جس کے بعد پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل منظور کاکڑ نے12 اپریل کو پارٹی کے یوم تاسیس کے حوالے سے الگ جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا جس کی تیاریاں بھی زور و شور سے کی گئیں لیکن ہزار گنجی کوئٹہ میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے بعد اسے ملتوی کردیا گیا۔
سیاسی حلقوں میں آج کل حکمران جماعت ’’باپ‘‘ پارٹی میں اندرونی اختلافات کی باتیں زبان زد عام ہیں جبکہ اس پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے کارکنوں میں مایوسی بڑھ گئی ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت کی عام انتخابات میں جو اُٹھان تھی لوگ جوق در جوق اس جماعت میں آرہے تھے اُسی طرح اگر باپ پارٹی کی قیادت نے اپنے رویئے میں بہتری نہیں لائی تو اب بلدیاتی انتخابات میں باپ پارٹی کے کارکن جوق در جوق دوسری سیاسی جماعتوں کا رخ کریں گے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی میں وفاقی وزراء کیلئے بھی زبردست لابنگ ہو رہی ہے جس کیلئے پارٹی کے تین سینٹرز اپنے طور پر کوشاں ہیں اور اُن کی کوشش ہے کہ پارٹی کے مرکزی صدر اور وزیراعلیٰ جام کمال اُن کا نام وزیراعظم عمران خان کو دیں تاکہ وہ وفاقی کابینہ کا حصہ بن جائیں تاہم لگتا یوں ہے کہ ان تین کے بجائے قرعہ چوتھے کا نکل آئے جو کہ سینٹر بھی نہیں ہیں،ایم این اے ہونے کے ناطے فل منسٹری ہی نہ لے جائیں گو کہ ایسی صورت میں پارٹی کے سربراہ و وزیراعلیٰ جام کمال کیلئے فیصلہ کرنا مشکل ضرورت ہے لیکن جام کمال بھی اس امتحان میں پاس ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔