گھر داماد شیف سے ’’جنگلی شیف‘‘ تک

کے ایم خالد  جمعـء 26 اپريل 2019
یوٹیوب کے خودساختہ ’’جنگلی شیف ‘‘ چینل پیسوں کی دوڑ میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یوٹیوب کے خودساختہ ’’جنگلی شیف ‘‘ چینل پیسوں کی دوڑ میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کوئی دور تھا کہ گھروں میں کھانا اکثر شوہر حضرات بنا تو لیتے تھے مگر ’’زن مریدی‘‘ کے الزام کے خوف سے اس کھانے کا کریڈٹ بھی اپنی زوجہ محترمہ کے کھاتے میں ڈال دیتے تھے۔ اس کام میں زیادہ طاق گھر داماد حضرات تھے کیونکہ انہیں سسرال میں سب کو خوش رکھنا پڑتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ زمانے کی ہوا ہی بدل گئی۔ کوئی گھر داماد نامی باورچی ’’شیف ‘‘ کے نک نیم سے مارکیٹ میں چھاتا چلا گیا اور یوں سارے ان مردوں پر ایک نئی دنیا آشکار ہوئی جو اس سے پہلے بیگم کے نام پر برسوں کھانے بناتے بوڑھے ہوچلے تھے۔ اور وہ اپنے اصل نام اور کام کے ساتھ خاندان میں ’’شیف ‘‘ کے نام سے جگہ بناتے چلے گئے ۔

انسان کسی بھی فیلڈ میں ہو، اس کے اندر ایک اداکار، گلوکار ضرور چھپا ہوتا ہے، حتیٰ کہ میڈیا کے خشک ترین شعبے نیوز اور حالات حاضرہ بھی اس سے قطعاً محفوظ نہیں۔ اس میں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں؛ صرف چند لمحے آنکھیں موندیں، میڈیا کی تقریباً ہر چینل چکھنے والی ایک ہمہ جہت شخصیت فوراً آپ کی آنکھوں کے سامنے مسکراتے ’’آم کھائے گا آم ‘‘ کہتے آموجود ہوگی۔ یہ ایسی شخصیت ہیں جن میں نہ صرف میڈیا کے تمام سیکشن بلکہ بونس میں فلم بھی، کہانی سے لے کر اداکاری، گلوکاری، ہدایتکاری، غرض فلم کے جو بھی لوازمات ہیں، وہ ان سب پر اپنے تئیں پورے اترتے ہیں۔ ’’ڈاکٹر‘‘ صاحب کے پاس کچھ کھانوں کی ریسپیز بھی ہیں، جن کو وہ عموماً رمضان المبارک کے دوران ہی دہرانا تو پسند فرماتے ہیں لیکن انہیں اپنی ریسپی سے بنے ہوئے کھانے کو چکھتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

سیٹلائٹ کوکنگ چینلز میں کیا خاتون اور کیا ہی کوئی مرد شیف آپ کو کھانے کے دوران اپنی اداکاری کے نام پر اپنی دلچسپ حرکات سے زبردستی لطف اندوز کروانے کی کوشش میں مصروف عمل نظر آئیں گے۔ اس میں زیادہ تر شیف تو ’’ڈاکٹر‘‘ صاحب کی طرح اپنی عجیب وغریب حرکات کو بھی اداکاری ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اس کا کریڈٹ بھی ناظرین سے لینا چاہتے ہیں، لیکن اگر چینلز کی اندھی دوڑ کو دیکھا جائے تو شائد یہ سب کچھ شیف نہیں بلکہ پروڈیوسر اور اس سے بھی بڑھ کر چینل انتظامیہ کی ریٹینگ ڈیمانڈ ہوگی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی سیٹلائٹ چینل کو شروع کرنا اربوں روپے کا مسلسل کام ہے۔ جسے یوٹیوب نے ’’کچھ دو، کچھ لو‘‘ کی پالیسی کے تحت پوری دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر ذوق کی پروڈکٹس کے لیے فری اوپن کردیا ہے۔ یوٹیوب پر دوسری پروڈکشن کے ساتھ ساتھ کوکنگ چینلز کی ایک نئی ’’کلک‘‘ کی دوڑ شروع ہوچکی ہے۔ ہر وہ شخص جسے صرف دلیہ ہی بنانا آتا ہے، وہ بھی ’’شیف‘‘ بنا ہوا ہے۔ عجیب و غریب علاقوں کے نام پر عجیب کھانے بنائے جارہے ہیں۔

یوٹیوب چینل پر وڈیوز اپ لوڈ اور ’’کلک‘‘ سے کمائی سمیٹنے کے لیے بہت سے ملکوں نے اپنے شہروں کے قریب ہی اپنے ہی ’’جنگل اور سمندر‘‘ آباد کرلیے ہیں۔ جہاں حسین و جمیل تازہ میک اپ زدہ خواتین ’’سمندر‘‘ سے مچھلیاں پکڑتی اور بھوک سے اپنے پیٹوں پر ہاتھ پھیرتے ’’جنگلی‘‘ چھوٹے بچے ’’جنگلی شیف‘‘ کے بہروپ میں دنیا کے جدید ترین کیمروں کے سامنے اداکاری کی آخیر کرتے ہوئے شکار کو پکڑنے اور پکانے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں اور حیرت کی بات وہ شکار کرنے اور پکانے میں بھی بہت جلد کامیاب ہوجاتے ہیں۔ انہیں شکار پکڑنے اور پکانے کے دنیا سے درآمد شدہ لوازمات پہلے سے ہی دستیاب ہیں۔

جیسے یوٹیوب کے خودساختہ ’’جنگلی شیف ‘‘ کے پکوان چینل پیسوں کی دوڑ میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، اب پاکستان کے سیٹلائٹ کوکنگ چینلز سے یہ بھی بعید نہیں کہ وہ بھی اپنے اپنے شیف دنیا کے دور افتادہ جنگلوں میں اتار دیں اور وہیں سے لائیو کوکنگ کے پروگرام آن ایئر کریں اور پاکستان کے کوکنگ شوز کے شوقین ناظرین ان شیف حضرات کو کیلوں کے پتوں کا تہبند اٹکائے، کمر پر مور کے پروں کے رنگ برنگے پنکھ لگائے اور سر پر جنگلی پھولوں کا تاج پہنے، جنگل میں کسی شترمرغ کے پیچھے پہلے گھنٹوں بھاگنے اور خوار ہونے کے بعد اس کا بڑی مشکل سے شکار کرنے کے بعد شتر مرغ کی بھاری بھرکم سجی بنانے کی لائیو ریسپی دیکھیں۔ اس شکار کے دوران شیف پر ایک دو گانے بھی پکچرائز کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے جنگل سے کسی خوبصورت سی ہیروئن کو ’’اچانک‘‘ بھی دریافت کیا جاسکتا ہے۔ اس لمبے فلم نما کوکنگ شو کی بدولت شیف کی زندگی میں رہ جانے والی فلمی اداکاری کی کمی کو بھی کماحقہ پورا کیا جاسکتا ہے۔ شیف حضرات کے علاوہ کوکنگ چینل کی شیف آنٹیاں جنگل میں پھرتے پھراتے اچانک ہی جنگل میں موجود ’’قبیلے‘‘ کے لوگوں کے ہاتھوں گرفتار ہوکر یرغمال بنیں اور پھر کچا کھانے والے ’’قبیلے‘‘ کے باسیوں کو اپنے ’’مشہور زمانہ‘‘ چینلز پر پیش کیے جانے والے مزیدار قسم کے کھانوں کو بنا کر کھلائیں۔ اس عمل سے وہ جنگلی لوگ نہ صرف شیف آنٹیوں کو آزاد کردیں بلکہ ان سے کھانا بنانا بھی سیکھیں گے۔ جسے ’’سوپ ڈراموں‘‘ کی طرح سیکڑوں قسطوں تک طوالت دی جاسکتی ہے۔ اس سے ان کوکنگ پروگرامز کی ریٹنگ میں تو خاطر خواہ اضافہ ہوگا ہی، چینل کا گراف بھی دوسرے چینلز کے مقابلے میں بلند ہوگا۔

ابھی تک تو یوٹیوب پر دکھائی جانے والی کوکنگ ویڈیوز میں جنگل اور سمندر کا ماحول اور جنگلی اسٹائل میں شکار پکانا دکھایا جارہا ہے اور شائد سنسر کی پالیسیوں کا خیال رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن باباجی کا فرمانا ہے ’’پتر ’کلک‘ کی دوڑ ان شکار کی کوکنگ وڈیوز بنانے والے شوقین حضرات کو کہیں ازمنہ قدیم دور کے اصل جنگل اور اسٹائل میں نہ لے جائے‘‘۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔