پنجاب لوکل گورنمنٹ بل منظور کرانے کے لئے حکومتی کوششیں

شہباز انور خان  منگل 20 اگست 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

لاہور: پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 ء حتمی منظوری کے لیے پنجاب اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے۔

توقع ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے بھرپور مزاحمت کے باوجود اس کی منظوری دے دی جائے گی ۔ قبل ازیں مسودہ بل پر پنجاب اسمبلی میں کئی روز تک بحث جاری رہی ۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی بنچوں پر بیٹھے بعض ارکان نے بھی اپنی اپنی فہم کے مطابق نظام کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں ۔ اس کے علاوہ وزیر قانون و بلدیات رانا ثناء اﷲ خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس نے پنجاب اسمبلی میں موجود تمام ارکان سے بلا امتیاز جماعت و گروپ بل پر تجاویزاور آراء طلب کیں تاکہ اس پر اتفاق رائے حاصل کیاجا سکے اور ایوان سے اسے متفقہ طورپر منظور کروایا جاسکے۔

مسلم لیگ ن کے سربراہ وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے لاہور میں گزشتہ دنوں اپنے قیام کے دوران ایک اجلاس میں بل کے مسودہ پر بریفنگ لی ۔ سیکرٹری بلدیات جواد رفیق ملک ، چیف سیکرٹری جاوید اسلم اوروزیر قانون وبلدیات رانا ثناء اﷲ خان نے وزیر اعظم کو بِل کے حوالے سے بریفنگ دی اور مکمل تفصیلات کے ساتھ اس پر روشنی ڈالی ۔ وزیر اعظم نے ان کوششوں کو سراہا جو بِل کو (ان کی نظر میں ) فول پروف بنانے کے لیے سرکاری سطح پر کی گئیں اور پارٹی کی طرف سے اس کی منظوری دے دی ۔ اب یہ بل منظوری کے لیے پنجاب اسمبلی میں ہے ۔

اگرچہ حکومت کی طرف سے اس بل کو متفقہ طورپر منظور کروانے کی آخری وقت تک کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن اس کا قطعی امکان دکھائی نہیں دیتا ۔ اس لیے کہ اس بل میں متعدد شقیں ایسی ہیں جن پر اپوزیشن ہی نہیں خود حکومتی ارکان بھی تحفظات رکھتے ہیں ۔ ان میں بلدیاتی انتخابات کا غیر جماعتی بنیادوں پر انعقاد ،ووٹرزکے لیے عمر کی حد کا تعین ، اختیارات کا مقامی سطح پر منتقل کرنے کے بجائے ان کا صوبائی حکومت ہی کے زیر کنٹرول رکھنا، شہری اور دیہاتی علاقوں میں تفریق وغیرہ خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔کوئی بھی جمہوریت پسند شہری اس تجویز کی حمایت نہیں کرسکتا۔

وزیر اعظم نے اگرچہ یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں اورعوامی مسائل کے لیے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے حق میں ہیں جو ان کی حکومت کا ایجنڈا بھی ہے لیکن عملاً ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔ بلاشبہ بلدیاتی انتخابات جمہوریت کی نرسری ہونے کے ناطے نچلی سطح پر مسائل کے حل کا واحد اور موثر ذریعہ ہوتے ہیں لیکن ان کا غیر جماعتی بنیادوں پر انعقاد سمجھ سے بالا تر ہے ۔ ماضی میں غیر جماعتی انتخابات کا تجربہ کیا جا چکا ہے جو یکسر ناکام ثابت ہوا ہے۔ وہ لوگ جو غیر جماعتی یا غیر سیاسی بنیادوں پر انتخاب لڑتے ہیں بالآخر کسی نہ کسی جماعت کا حصہ بن جاتے ہیں اور ان کی غیر جماعتی یا غیر سیاسی حیثیت برقرارنہیں رہتی ۔ پھر اس کا بڑا نقصان یہ بھی خیال کیاجاتا ہے کہ غیر جماعتی ارکان کا کوئی قبلہ نہیں ہوتا ۔

ایسے ارکان کو باآسانی خریدا جاسکتا ہے ( بے شک اس میں استثنیٰ بھی ہے )دوسرے ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے عمر کی حد 25 سال مقرر کی گئی ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اٹھارہ سا ل سے پچیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کو فیصلے کے حق سے محروم کیا جارہا ہے جو بجائے خود غیر منصفانہ اور بنیادی حقوق کے منافی بات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف اور مسلم لیگ قائدا عظم نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے اور بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروانے پر زوردیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی جماعت اس کے خلاف عدالت میں چلی جائے ۔ جب کہ دوسری طرف بعض سیاسی حلقے اسے ن لیگ کی اپنی حریف جماعت تحریک انصاف کے خلاف اس حکمت عملی کا نتیجہ قراردے رہے ہیں ۔

جس کے تحت وہ اس جماعت کو سیاست میں شکست دینے کا ارادہ کیے ہوئے ہے ۔ عمر کی حد اکیس سال سے بڑھا کر پچیس سال کرنے سے سب سے زیادہ زد تحریک انصاف پر ہی پڑے گی جس کے ووٹرز کی اکثریت عمر کے اسی درجے میں آتی ہے اور یہ یوتھ ہی دراصل تحریک انصاف کی ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے۔ چنانچہ اس بل کی سب سے بڑی ناقد بھی فطری طورپر تحریک انصاف ہی ہے جس کے پنجاب اسمبلی میں معقول تعداد میں ارکان موجود ہیں جو ظاہر ہے اسے متفقہ طورپر منظور نہیں ہونے دیں گے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت چونکہ اس صورت حال کا پوری طرح ادراک رکھتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ بل کی منظوری کے لیے زیادہ سے زیادہ ارکان کی حمایت حاصل کی جائے سو اس مقصد کے حصول کے لیے وہ پارلیمنٹ سے باہر بھی ارکان کے ساتھ رابطوں میں مصروف ہے اس کے لیے وہ کچھ لچک بھی دکھانے کو تیار ہے اور بل میں اپوزیشن سمیت بعض ارکان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی جارہی ہے ۔

لیکن اپوزیشن کو اب حکومتی وعدوں اور یقین دہانیوں پر کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ قائد حزب اختلاف محمودالرشید کا کہنا ہے کہ وہ اس خوش فہمی ہی میں تھے کہ حکومت انہیں ساتھ لے کر چلے گی کیونکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں محض ’’آئی واش ‘‘ ہے ۔ انہوںنے اس بل کو آئین اور عوامی خواہشات کے منافی قراردیا ہے اور اس کے خلاف اختلافی نوٹ بھی حکومت کے پاس جمع کروا دیا ہے۔ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ق اور جماعت اسلامی پر مشتمل مشترکہ اپوزیشن نے بل کے حوالے سے قائم کردہ پنجاب اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا اوراعلان کیا ہے کہ وہ اس بل کے خلاف اسمبلی کے اندر اورباہر بھرپور احتجاج کریں گے، جبکہ رانا ثناء اﷲ خان کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے غیر سیاسی بنیادوں پر منعقد کیے جانے کے حق میں 67فیصد ارکان ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی ٹیم مذکورہ بل کی منظوری کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتی اور اس کے ناقدین کو شیشے میں اتارنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔