پولیو مہم کے خلاف افسوس ناک واقعات

ایڈیٹوریل  جمعرات 25 اپريل 2019
 بہت جلد مجرموں کو عوام کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ فوٹو: فائل

بہت جلد مجرموں کو عوام کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں پولیومہم ہر بار خطرات سے دوچار رہی ہے،پولیوویکسین کے بارے میں بعض مخصوص سوچ کے حامل گروہ منفی پروپیگنڈا کرتے چلے آرہے ہیں جس پرپولیوٹیموں پر حملے بھی ہوتے رہے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا بلکہ ماضی سے مختلف ہوا۔ پشاور میں انسداد پولیو مہم کا پہلا دن افواہوں کی زد میں رہا۔ غیر مصدقہ اطلاعات پر یقین کرتے ہوئے لوگ اپنے صحت مند بچوں کو اسپتال دوڑاتے رہے‘ خیبرپختونخوا کے علاقے ماشو خیل میں رجسٹر پولیو سے انکاری ایک نجی اسکول نے شہر بھر کے لوگوں کی دوڑیں لگوا دیں۔ ہزاروں کی تعداد میں شہری اپنے بچوں کو لے کر اسپتالوں میں پہنچ گئے جس سے اسپتالوں کے شعبہ ایمرجنسی شدید مشکلات کا شکار ہو گئے، پولیو مخالف ایک فراڈی شخص نے بچوں کے پولیو کے قطرے پینے کے بعد بیہوش ہونے کا جعلی ڈرامہ رچایا پھر گرفتار بھی ہوا ۔ صورتحال اس قدر گھمبیر ہوگئی کہ اسپتالوں کی انتظامیہ نے شہریوں سے اپیل کی کہ بلاضرورت اپنے بچوں کو اسپتالوں میں نہ لائیں۔

بلاشبہ افراتفری اور جہالت پر مبنی یہ بلاجواز افسوسناک حالات پولیو جیسی خطرناک بیماری کی ناگزیر مہم روکنے کے لیے پیدا کیے گئے۔ ان عناصر نے طبی اور مذہبی بنیادوں پر نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پورے ملک میں گمراہ کن تصورات کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی ہے اور خاصے پڑھے لکھے گھرانے بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے گریزاں رہتے ہیں، اس ڈس انفارمیشن کا خاتمہ ضروری ہے، دوسری طرف پولیو ورکرز ملک بھر میں اس مہم کی تکمیل کے لیے جان ہتھیلیوں پر رکھے ہوئے ہیں، کئی ورکرز اور سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں چنانچہ لازم ہے کہ پولیو مہم پرامن ماحول میں مکمل کی جائے، کسی کو گمراہ کن اطلاعات پھیلانے اور ماس ہسٹیریا پیدا کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

پیر کو صوبہ خیبر پختون خوا میں محکمہ صحت کے زیراہتمام انسداد پولیو مہم شروع کی گئی جس میں 76 لاکھ بچوں کا ٹارگٹ مقرر تھا، گزشتہ روز مہم کا پہلا روز محکمہ صحت سمیت شہریوں کے لیے اس وقت آزمائش بن گیا جب کہ بڈھ بیر کے علاقہ ماشوخیل کے نجی اسکول سے 25بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے ہونے والے مبینہ ری ایکشن کے باعث حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں لایا گیا۔ مذکورہ اسکول محکمہ صحت کے پاس انکاری کیس کے طور پر رجسٹرہے، اسپتال انتظامیہ کی جانب سے بچوں کے پولیو سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین پلانے سے متعدد بار انکار کیا گیا تھا۔

ماشو خیل اسکول کے بچوں کی خبر سامنے آنے پر مشتعل شہریوں کی بڑی تعداد ہاتھوں میں ڈنڈے لیے سڑکوں پر نکل آئی جب کہ مشتعل شہری ماشوخیل بی ایچ یو میں گھس گئے اور بی ایچ یوکے تمام دروازے توڑ دیے اور تمام آلات کو بھی نذر آتش کردیا اور سولر پینل بھی توڑ دیے۔ اس موقع پر بی ایچ یو کے اہلکاروں نے مشتعل افراد سے خود کو بمشکل بچایا، ابتدائی طور پر حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ہی شہریوں کی لائنیں لگ گئیں جو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے بعد لائے گئے تھے، شعبہ ایمرجنسی میں لائے بچوں کے بارے میں ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کو کوئی سیریس ایشو نہیں تھا اور بچوں کو ابتدائی علاج کی فراہمی کے بعد فارغ کر دیا گیا ، بتایا جارہا تھا کہ بچے نفسیاتی طور پر خوف کا شکار تھے۔

وزیر صحت خیبر پختونخوا ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے پولیو بابر بن عطا کے ساتھ پشاور میں پولیو مہم کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسے پولیو ویکسین کے خلاف منفی پروپیگنڈاقرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیو کے قطرے بالکل محفوظ ہیں اور ان سے بچوں کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ، چند منفی عناصر اس کے خلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں جو ملک دشمن ہیں۔ صوبائی وزیر صحت نے مزید کہا کہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا قانوناً جرم ہے۔ میں نے پولیو مہم کا آغاز اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر کیا۔ سی پی پی او پشاور نے کہا کہ بہت جلد مجرموں کو عوام کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیو کی قومی مہم کو ناکام بنانے اور بچوں کو اس خطرناک بیماری سے بچانے کے لیے مستند اور تصدیق شدہ ویکسین کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے، پاکستان کو پولیو فری ملک بنانا عالمی ادارہ صحت کے تحت بین الاقوامی کمٹمنٹ ہے۔ حکومت بیداری مہم کا بھی آغاز کرے تاکہ سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے والوں کے عزائم ناکام بنائے جاسکیں۔ خیبر پختونخوا میں جو کچھ ہوا اس پر سرکاری سطح پر معذرت، افسوس اور شرمندگی کے سوا بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیو کی قومی مہم کو کوئی نقصان نہیں پہنچناچاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔