عمران ، مراد علی شاہ کا منتظر لیاری

نادر شاہ عادل  جمعرات 25 اپريل 2019

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

مرزا غالب تو تماشائے اہل کرم دلی،آگرہ اور لکھنو میں دیکھتے رہے ہونگے مگر ہم سیاست کی کچلی مقدر کی ماری لیاری میں تماشائے اہل ’’ستم‘‘دیکھتے ہوئے جوان ہوئے۔ جب لڑکپن میں زندگی شعور کی منزلیں طے کررہی تھی تو ایک درد انگیز نظم کانوں کے راستے دل کی گہرائیوں میں نشتر چبھوتی محسوس ہوئی تھی۔نظم کے بند کچھ اس طرح تھے۔

یہ بستی جو لیڈر اگلتی رہی ہے

جفا کے جہنم میں جلتی رہی ہے

جہالت اور افلاس انعام پاکر

جرائم کے سانچوں میں ڈھلتی رہی ہے

مگر پھر بھی ہے راہ حق کی پجاری

یہ لاکھوں غریبوں کی بستی لیاری

یہ مچھلی یہ چمڑے کے گودام دیکھو

گٹر بہہ رہے ہیں سر عام دیکھو

بنی نوع انساں کا نیلام دیکھو

تعفن کے چشمے ہیں ہر سمت جاری

یہ لاکھوں غریبوں کی بستی لیاری

یہ پرجا نگر جس کے باسی عوامی

یہاں ہوتی ہے لیڈروں کی سلامی

وہ لیڈر وہ عیار نامی گرامی

بدلتی ہے دنیا نہ بدلی لیاری

یہ لاکھوں غریبوں کی بستی لیاری

جمعدار لیڈر یہ وحشی وڈیرے

یہ خدمت کی جالی میں فصلی بٹیرے

ہیں قائم یہاں  جب تلک ان کے ڈیرے

تو سورج اگلتا رہے گا اندھیرے

نہ جانے غریبوں کی کب آئے باری

یہ لاکھوں غریبوں کی بستی لیاری

یہ 1960 میں لکھی گئی طویل نظم ہے۔ جب 70 کا عشرہ آیا تو پاکستان پیپلز پارٹی نے روٹی کپڑا مکان کے پر کشش نعرہ پر ملک کے پہلے عوامی انتخابات میں پانسہ پلٹ دیا، چشم تصور سے یقین کریں ، تخت بھی گرے اور تاج بھی اچھلے، بھٹو نے محلاتی سیاست اور اقتدار کی اشرافیائی اور جاگیردارانہ غلام گردشوں میں تہلکہ مچادیا۔ ہاہا کار مچی، پی پی نے عوام کی بے نام امنگوں کے دیپ جلائے، قمیض شلوار والے انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل میں گھس گئے، نوکرشاہی کے مسلط شدہ حفظ مراتب زمیں بوس تھے۔

غریبوں نے الیکشن میں دھڑا دھڑ ووٹ ڈالے ، بیلٹ کی جمہوری قوت سے جمود زدہ سیاست کا گلیشیئر ٹوٹا ، قانون سے بالاتر طبقات (ان ٹچ ایبلز) کے مضبوط برج الٹ گئے، لب بستگان لیاری نے یہی نظم سنا سنا کر انتخابی میلہ لوٹ لیا۔ جو بات چند روز قبل کوئٹہ میں وزیراعظم عمران خان نے کہی کہ ایک علاقے نہیں پورے پاکستان کو اٹھانا ہے، نچلے طبقے کو اوپر لانا ہے۔ یہی کام پیپلز پارٹی کرچکی ہے۔ بھٹو سے اختلاف اپنی جگہ ، وہ نظریاتی پیپلز پارٹی نہیں رہی مگر ملک کی کون سی مین اسٹریم سیاسی جماعت کسی تاریخی نظریے کی علمبردار ہے۔ مجھے یاد ہے آرٹس کونسل کی تقریب میں سید محمد تقی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ موجودہ صدی نظریہ کی موت کی صدی ہے، فرانسس فوکویاما نے تو کئی سال بعد تاریخ کے خاتمہ پر بات کی۔

بہرحال آج لیاری کے سماجی، معاشی اور انسانی دکھوں کے پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے، لیاری کو ام البلاد کہتے ہیں، پندرہ لاکھ سے زائد آبادی والے اس علاقے نے جمہوریت سے اپنی کمٹمنٹ پوری کی، یہ بندہ نواز ٹاؤن ہے۔ وطن عزیز کا کوئی نہ کوئی خاندان لیاری کا مکین ضرور ہوگا، اس کی سیاسی شناخت ناقابل شکست رہی، یہاں فٹبال کا برازیل موجود ہے اور کرکٹ کا ویسٹ انڈیز۔ پورے ملک میں آپ کو بلیک فورس اگر کہیں وافر تعداد میں دستیاب ہے تو وہ لیاری ہے، سیاہ فاموں سے یورپین فٹبال لیگ جگمگاتی ہے۔

سیکڑوںسیاہ فام کھلاڑی اپنے کھیل سے شائقین کو حیرت زدہ کردیتے ہیں، لیکن پاکستان کے سیاہ فام محض اس لیے گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں کہ ان کا تعلق لیاری سے ہے۔باکسر مہراللہ کہاں ہے؟اسے دو کروڑ روپے کی انعامی رقم ملی تھی۔ لیاری کا ظاہر آج بربریت سے نجات پاچکا ہے مگراس کی روح گھائل ہے، المیہ یہ ہے کہ اسے اپنی امن پسندی کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔

اس کے عوام محنت کش اور امن دوست تھے لیکن گینگ وار کی کالی آندھی نے سب کو روند ڈالا۔ہزاروں گھرانے اور علاقے کا کاروبار تباہ ہوا، قتل وغارت گری ایسی جو پاکستان کی جرائم کی تاریخ میں کسی نے نہ سنی اور نہ دیکھی، بدترین ریاستی دہشتگردی بھی اس کے سامنے ہیچ تھی۔ گینگسٹر ارشد پپو گروپ کے ساتھ کیا ہوا، ارشد پپو اور یاسرعرفات کی لاش کے ٹکڑے کیے گئے،  ارشد پپو کا سرکاٹ کر اس سے فٹبال کھیلی گئی، پھر لاشوں کو جلاکر اس کی خاک گٹرمیں بہا دی گئی۔ پیپلز پارٹی کے بانی کارکن شفیع جاوید کے گھرانے کے لڑکوں کوشیدی ولیج روڈ پر زندہ جلادیا گیا ۔ جی ہاں یہ لیاری کی لرزہ خیز الم ناک داستان ہے۔ یہ قیاس آرائی پر مبنیspeculative fiction   نہیں ہے۔ اس بربریت کا کیس ابھی تک چل رہا ہے۔ تماشائے اہل ستم  وقفہ وقفہ سے جاری ہے ۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ  لیاری کے غریب الوطن عوام 2001 ء سے 2018 ء تک گینگ وار کے زہریلے اثرات سے بے دم ہوتے رہے۔ اس لیے پی ٹی آئی اور پی پی کے ارباب بست وکشاد سے کچھ کہنے کی آج ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ آج کچھ درد دل میں سوا ہوتا ہے ۔ میڈیا کی آزادی کا روز سنتا ہوں، خود بھی میڈیا انڈسٹری کے رگڑے کھا رہا ہوں، آزادی اظہار کے مشنری جذبہ کی قندیل تلے آج بھی سوچتا ہوں کہ سچ سے دور بھاگتا پاکستان اور کتنا نیا ہوگا۔ بہیمانہ جرائم آسیب بن چکے ،کیوں ہم ان کو گلیمرائز کرتے ہیں، ایک سانحہ کئی روز تک ذہن پر ہتھوڑے کی طرح برستا ہے، صوتی اور بصری اثرات سے چینلز کے ناظرین کو ذہنی ، اعصابی اور نفسیاتی عذابوں کے طمانچے لگتے ہیں۔

اگر حقیقت اور اطلاعات کے جاننے کا حق اتنی متاع عزیز از جان ہے تو گینگ وار پرتحقیقاتی کمیشن کیوں نہیں؟ کیا وہ کیڑے مکوڑے بھیڑ بکریوں کا ریوڑ تھا جو مارا گیا۔ لیاری سے انصاف کا چیپٹر کھلنے میں کیا قباحت ہے، نیلسن منڈیلا جیسا مصالحتی تفتیشی شفاف کمیشن کیوں قائم نہیں ہو سکتا۔ مجھے 2018  ء کے الیکشن میں شکور شاد کی جیت پر جو ایس ایم ایس ملا وہ یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار شکور شاد  نے لیاری کے سیاسی سومنات پر فتح پالی۔ایم این اے شکور شاد  PTI کا بارہواں کھلاڑی نہیں ہے، اس نے پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے بازی جیتی ہے، یہ سیاسی شکست وفتح کا تکاّ نہیں تھا ،کسی پرانے پارٹی رازداں نے لیاری سے پی پی کو تین عشروں میں پہلا دھوبی پاٹ مارا۔ آگے بڑھئے ۔ کس نے لیاری میں روزگار دینے کے بجائے گینگ وار کے انگارے بانٹے۔ یہ کون سی مخلوق تھی جو لیاری کو لہو میں ڈبو گئی۔

وزیر اعظم صاحب !آپ کا جذبہ قابل قدر ہے،کوئٹہ میں آپ نے کہا کہ پسے ہوئے طبقات کو اوپر اٹھانا چاہتا ہوں، wellآئیے پیپلز پارٹی سے مل کر لیاری کو اوپر اٹھائیے، ان دل فگاروں ، سوختہ سامانوں کا ہاتھ تھامیے، یہ افتادگان خاک آپ سے اور پیپلز پارٹی سے مشترکہ میثاق کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ گریٹ سوشل الائنس غیر روایتی ہوگا۔ آپ نے ’’میجر ڈنڈی‘‘ مووی دیکھی ہوگی جس میں چارلٹن ہیسٹن اور رچرڈ ہیرس آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے ہیں مگر دشمن کے خلاف مل کر جنگ کرتے ہیں۔ پی پی ، پی ٹی آئی سیاسی جنگ جاری رہے ،Don’t worryکرپشن کے خلاف نیب کو فری ہینڈ دیجیے ،احتساب ضرور انتقام ہرگز نہ ہو، مگر لیاری کو کراچی کے 162 ارب کے پیکیج سے کیا ملے گا۔

گل اوروں کی طرف پھینکئے مگر کچھ لیاری پر بھی نظر کرم کیجیے۔ کپتان ، سید مراد علی شاہ سے مل کر لی مارکیٹ میں ایک چھوٹا سا فلائی اوور بنوادیجیے، حضور یہ کون لوگ ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ کراچی پیکیج سے ایک پیسہ سندھ حکومت کو نہیں دیں گے، گورنر سندھ عمران اسماعیل سے استدعا ہے کہ آپ گریٹ اسپورٹس مین شپ رکھتے ہیں،کیا آپ لیاری سے  محبت نہیں کرتے؟ مائی ڈیئر گورنر صاحب لیاری کا نپولین شکور شاد آپ کے ساتھ چلتے ہوئے لیاری میں کچھ کرنا چاہتا ہے۔

اس کی فتح کا کچھ تو بھرم رکھئے۔ کیا اہل اقتدار نہیں سن رہے کہ پاکستان میں شدید ساختیاتی دراڑوں کی گڑگڑاہٹ سے عوام کے دل دہل رہے ہیں، حکومت اور اپوزیشن میں رواداری کا اسپیڈ بریکر مٹتا جارہا ہے، تصادم کو خطرہ ہے، وقت کرتا پرورش برسوں ۔حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ کپتان نے شکوہ کیا کہ حکومت گرانے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ اس لیے پی پی اور پی ٹی آئی کی وار آف دی ٹائی ٹینز the Titans  War ofشروع ہوگئی ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ لیاری  کے غریبوں کی باری آگئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ٹربل شوٹر سردار نبیل گبول،خلیل ہوت، ناز بلوچ ، شہلا رضا اور جاوید ناگوری کو لے کر شکور شاد، شمیم فردوس،حلیم عادل شیخ، خرم شیرزمان، شبیر صدیقی کے ہمراہ لیاری میں داخل ہوں، پہلے کچھی برادری سے مفاہمت اور مصالحت کرائی جائے اور پھر ملک فیاض کو ہدایت کی جائے کہ لیاری ماسٹر پلان سامنے لائیں۔ سب ممکن ہے۔کپتان جی ، شاہ صاحب!!! بس دعا ہے اے لیاری کی شب ہجراں ! سب کی عاقبت سنور جائے ۔باقی خیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔