اگر کچھ’’مک مکے‘‘ باہم نہ ہوں گے

سعد اللہ جان برق  جمعرات 25 اپريل 2019
barq@email.com

[email protected]

بکرے کی ماں آخر کب تک بکرے کی خیر مناتی۔ قصائی کی نگاہ اس پر پڑ ہی گئی۔غربت نے بھی اپنے ہاں بہت کھیل لیا مزے اڑائے گئے اور بہت ناچی بن گھنگرو۔ اب ذرا بچ کر تو دکھائے’’میرا لالا‘‘آگیا ہے وہ میرا لالا آگیا کا واقعہ اب یاد نہیں کہ ہم آپ کو سناچکے ہیں کہ نہیں لیکن پھر سہی کہ ہمارا بھی لالا آگیاہے۔

ہمارے محلے میں ایک نوجوان تھا جو نوجوان سے زیادہ نوجوانی تھا کیونکہ اس کی ساخت میں کچھ گڑبڑ ہوگئی تھی باقی سب کچھ مردانہ تھا لیکن ادائیں زنانہ تھیں، باتیں کرتے ہوئے بھی لچک مٹک کر تالیاں بجاکر اور انگلیوں کے کڑاکے نکال نکال کر نزاکت پیدا کرتاتھا۔ایک دن محلے کے ایک لڑکے نے جو عمر میں اس سے بڑا تھا کچھ مارا پیٹا،اس وقت تو وہ رو رو کر اور کوسنے دے دے کر گھر چلاگیا،لیکن جب اس کا بڑا بھائی گھر آگیا تو جاکر اس لڑکے کے دروازے میں کھڑا ہوگیا اور اپنے مخصوص انداز میں اسے دھمکانے لگا۔

اے بزدل اب ذرا نکل کر تو دکھا۔میرا لالا آگیاہے میں کوئی ایسا ویسا نہیں ہوں اب ذرا مارکر دکھاؤ کہاں چھپ کر بیٹھے ہو، اب میرا لالا آگیا ہے، بڑے پھنے خان بن کر مارا تھا اب مار کر دکھاؤ میرا لالا آگیاہے۔

اور یہی ہم اس غربت سے کہنا چاہتے ہیں کہ ذرا ’’لکیر‘‘ کو پھلانگ کر دکھا۔تم کیا اپنی لکیر کو روز روز اونچا کرتے تھے۔اب ایک انچ بھی اونچا کرکے دکھا۔ہمارا ’’لالا‘‘آگیاہے اسی لالا کانام’’غربت مٹاؤ‘‘ہے جسے حکومت نے غربت کی ایسی کی تیسی کرنے کے لیے لانچ کر دیا ہے۔اگرچہ فی الحال یہ سنگل ہے اور اس کے مطابق ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘جیسا ہم سنگ نہیں ہے وہ شاید اس لیے کہ اب صرف قرض اتارنا ہی نہیں ہے قرض لینا بھی ہے پھر اسے ٹھونسنے کے لیے’’منہ‘‘ بھی پیدا کرنے ہیں۔  انصاف بھی گھر گھر کی دہلیز تک پہنچانا ہے نیاپاکستان بھی بنانا ہے اس میں تبدیلیوں کی نرسریاں بھی اگانا ہیں اور سب سے بڑھ کریہ ریاست مدینہ میں صادق وامین اسکول بھی کھولنا ہیں، مطلب یہ کہ

خوں ہوکے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ

رہنے دو مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے

وقت آنے پر قرض اتارو کے ساتھ قرض چڑھاؤ کا محکمہ بھی قائم ہوجائے گا اور باقی کاموں کا بھی، کیونکہ غربت مٹاؤ کا محکمہ جب چلے گا تو باقی محکمے یہ خود ہی پیدا کرے گا۔

کیونکہ یہ کم بخت غربت ہی ’’ام الاقراض‘‘ ہے۔یہ ہی وہ عورت ہے جو ہر منٹ میں تین بچے پیدا کرتی ہے۔بہت پہلے کی بات ہے ایک استاد نے اپنے شاگردوں کو اقتصادیات ومعاشیات کا سبق پڑھاتے ہوئے کثرت آبادی کے ضمن میں بتایا تھا کہ پاکستان میں ایک عورت ایک منٹ میں تین بچے جنم دیتی ہے، بتاؤ اس کے لیے ہمیں کیاکرنا چاہیے۔ ایک شاگرد نے اٹھ کر بتایا۔سر ہمیں پہلے اس ’’عورت‘‘ کو ڈھونڈ کر کیفرکردار تک پہنچانا چاہیے۔ چنانچہ اس ڈھونڈ کا سلسلہ چلا، درمیان میں اگرچہ اس عورت کے جلوہ نے  کثرت اولاد دکھاکر آبادی یعنی غربت بہت بڑھائی لیکن شکر ہے پکڑ میں آہی گئی،کیونکہ ماہرین،محققین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک کوششوں سے اس کی کامیاب اور جان پر کھیل کر ڈرامائی انداز کی گرفتاری عمل میں آگئی، توقع ہے کہ اس سے تفتیش کی جائے گی تو بہت کچھ برآمد ہونے کا امکان ہے۔

اور اب اسے کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے’’غربت مٹاؤ‘‘کا خصوصی محکمہ بھی وجود میں آگیاہے،ویسے تو ہمیں اپنے یہاں کی حکومت پر پورا بھروسہ ہے کہ جس طرح اس سے پہلے قرض اتارو محکمے نے اپنی ’’ قابل رشک واشک‘‘ کارکردگی دکھائی ہے۔جس طرح نیب وریب نے ’’لاریب‘‘ کرپشن کا نام ونشان مٹاکر رکھ دیاہے،نیومحکمہ تعمیرات نے پرانے بوسیدہ اور گلے سڑے پاکستان کو ڈی مالش کرکے نیاپاکستان تعمیر کردیا جس طرح سعودی عرب سے درآمد کردہ ریاستیں بنانے والی کمپنی نے نئی ریاست بناکر دکھا دی۔جس طرح محکمہ اٹھائی نے تبدیلیوں کی فصل اگائی اسی طرح یہ محکمہ غربت مٹاؤ بھی اپنے’’ہدف‘‘ تک پہنچ جائے گی جس کا خفیہ سرکاری نام’’غربت‘‘ معلوم ہوا ہے اور جس کی عادت ہے کہ

کیوں نہ ٹھہریں ’’ہدف ناوک بیداد‘‘کہ ہم

آپ اٹھالاتے ہیں جو ’’تیر‘‘خطا ہوتا ہے

اور تیریاتیراندازوںکے بارے میں آپ خوب جانتے ہیں اوگرا، چوگرا،جمرا،ٹیچرا،اور کیرا کے نام سے مشہور ہیں۔ایسے تیر چلاتے ہیں ایسے تیر چلاتے ہیں کہ بندہ تیر کے پہنچنے سے پہلے ہی’’ٹیں‘‘ ہوجاتاہے۔لیکن اس نئے محکمے کا نام ہمیں کچھ زیادہ’’جچا‘‘نہیں۔اس لیے ہمارا فرض بنتاہے کہ جہاں حکومت اور اس کی تھیلی کے چٹے بٹے یعنی محکمے وزیر لیڈر منتخب نمایندے اور افسران عالی ہمارے لیے اتنا کررہے ہیں تو ہمیں بھی توکچھ ان کا ہاتھ ’’دامے درمے‘‘ نہ سہی’’سخنے قلمے‘‘ تو بٹانا چاہیے اور اچھے اچھے مشورے بالکل مفت دینے چاہئیں۔

اور اسی کام کی ابتدا ہم آج سے بلکہ ابھی سے کررہے ہیں۔اور اس نام کے سلسلے میں اپنا مشورہ عرض کررہے ہیں۔سب سے پہلے تو اس’’مٹاؤ‘‘ لفظ سے ’’مٹی‘‘ کی بوآتی ہے کیونکہ خاک کو مٹی کہتے ہیں اور اسی کے تعلق سے مٹانے کا مطلب مٹی کرنا یا مٹی میں ملانا ہے لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ ہمارے دیس کی مٹی نہ صرف سونا اگلتی ہے اور بہت اگلتی ہے کیونکہ دیسی استعمال سے فالتو ہونے والے ہیرے موتی ہم دساور بھی بھیجتے ہیں۔ اب اگر غربت کو مٹا یعنی اس مٹی میں ملایا گیا تو اس کی زرخیزی بھی اس منحوس غربت سے ’’غیر زرخیز‘‘ یا زہریلی ہوسکتی ہے۔

اور پھر عوام کے آنسوؤں اور پسینے سے بھی ’’نم‘‘ نہیں ہوپائے گی اس لیے غربت کو مٹانے یعنی مٹی کرنے کے بجائے کچھ اور کیاجائے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اسے پکڑکر جہاز میں ڈالا جائے اور سمندر برد کردیاجائے لیکن ہم نہ تو امریکا ہیں نہ ہمارے پاس اتنے تیز جہاز ہیں اور نہ لوگ کہ راتوں رات’’غربت بن راون‘‘ کو لاد کر یہ کام کر دکھائے۔

اس لیے ہماری تجویز یہ ہے کہ غربت کو مٹانے کے بجائے ’’مکانے‘‘ کا محکمہ یعنی ’’غربت مکاؤ‘‘ کردیا جائے۔ کیونکہ مکانے میں ایک تو ’’مک‘‘ کی بھی گنجائش بلکہ ’’مک‘‘ اس کا ساجھے دار ہے، اس لیے مک اور مکا۔مک مکاؤ اچھی طرح کردیں گے اور پھر ہمارے ہاں ہر کسی  کو ’’مک مکا‘‘ کرنے میں بے پناہ تجربہ اور مہارت بھی حاصل ہے خاص طور پر سرکاری محکموں میں تو مک مکا کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت مہارت اور ٹیلنٹ موجود ہے۔بلکہ ہمارا تو یہاں تک اندازہ ہے کہ اس ملک کا اناڑی سے اناڑی یہاں تک کہ گریڈ چہارم پنجم کے اہل کار بھی مک مکا کے ماہر ہوتے ہیں اور یوں چٹکی بجاکر مک مکا کرتے ہیں کہ خود مک مکا نے بھی حیران ہوکر پوچھا۔مجھے کب اور کیسے مک مکا کیا گیا؟

تو ایک تو یہ مہارت کی بات ہوگی اس لیے غربت مکاؤ محکمے کے لیے جہاں کہیں سے بھی اینٹ روڑے آئیں گے وہ ’’مک مکا‘‘سے بھرپور ہوں گے اور اگر اکا دکا نہ بھی ہو تو ہوجائے گا جیسے وزیر لوگ ہوجاتے ہیں اور پھر ایک شاعر نے بھی کہاہے کہ

’’بلوں‘‘ کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی

اگر کچھ’’مک مکے‘‘باہم نہ ہوں گے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔