ایک اور نشوہ کے لیے تیار رہیں

اقبال خورشید  جمعرات 25 اپريل 2019

جیسے آپ روز سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، ٹھیک ویسے ہی ۔۔۔یہ واقعہ پھر ہو گا۔

تیار رہیں۔ یہ لکھا جا چکا۔ جلد یا بدیر، نشوہ ہی کی طرح پھرایک معصوم بچی غلط انجکشن کا نشانہ بنے گی، ایک اور باپ کو اپنی بیٹی سے محروم ہونا پڑے گا، ایک بار پھر میڈیا کے پاس ایک گرما گرم خبر ہو گی۔ اخبارات کے صفحات پھر بھر جائیں گے۔

ٹھیک ویسے ہی، جسے دن کے بعد رات آتی ہے، اسی طرح یہ مناظر آپ پھر دیکھیں گے۔ پھر ایک نشوہ سامنے آئے گی۔ ایک بار پھر کسی مظلوم کا نام ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنے گا۔ ایک بار پر پھر کسی آبدیدہ باپ اور ادھ موئی بچی کی تصاویر فیس بک پر گرد ش کریں گی۔ ایک بار پھر وزیر، مشیر فوٹو سیشن کو اسپتال پہنچیں گے۔ ایک بار پھر بیانات داغے جائیں گے، ایک بار پھر کوئی نفیس سیاسی شخصیت معاملات طے کرنے کے لیے ثالث بنے گی، ایک بار پھر کمیشن تشکیل پائیں گے، ایک بار پھر اسٹیٹس لگائے جائیں گے۔۔۔ ایک بار پھر گریہ ہو گا۔گریہ، جس کی عمر اب ستر برس ہو چکی ہے۔

مشورہ ہے، نشوہ کی تصویر فریم کر کے گھر میںآویزاں کر لیں۔ وہ تصویر، جس میں اس معصوم بچی کی آنکھ میں ایک آنسو اٹکا ہے۔ اس کے باپ کی گریہ کرتی ویڈیوز اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ میں محفوظ کر لیں۔ روز صبح اٹھ کر اس بچی کے آنسوؤں کو دل میں اتار یں، اور اس باپ کے ساتھ گریہ کریں کہ یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔ یہ رک ہی نہیں سکتا، آپ اور ہم اپنے بچوں سے محروم ہوتے رہیں گے۔

کبھی غلط انجکشن ہمارے بچے چھین لے گا، کبھی کوئی درندہ ہماری بیٹیوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دے گا، کبھی کوئی اندھی گولی ہمارے بھائی کا سینہ چھلنی کر دے گی، کبھی کوئی بے قابو گاڑی ہمارے ماں باپ کو کچل دے گی۔

اس مکروہ سلسلے کو روکنا ہے، تو نظام بدلیں، ریفارمز لائیں۔ انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کریں۔ ایسا نظام، جہاں خطاوار کو خبر ہو کہ اسے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا، اس سے سوال ہو گا، اور اگر وہ قصور وار پایا گیا، تو سزا اُس کا مقدر بنے گی۔

ایسا نظام لائیں، جہاں امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہو یا فقیر، داروغہ ہو یا دکان دار، سب سے ایک سا سلوک ہو، جہاں سب کے لیے ایک سے اصول ہوں، ایک سا قانون ہو، جس کی پاس داری سب پر لازم ہو۔ ایسا نظام، جہاں سب برابر ہوں، سب کے یکساں حقوق ہوں، سب کو یکساں سہولتیں حاصل ہوں، سب کو ایک نظر سے دیکھا جائے۔

مگر پاکستان کی سیاہ سیاست، تاریک نظام حکمرانی میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ یہاں خیر کی کوئی خبر نہیں، روشنی کی کوئی کرن نہیں، بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ یہاں عمارت کی تعمیر میں بنیاد کو نظر انداز کرنے کی روایت ہے، خستہ حال دیواروں پر خوش نما رنگ کرنے کا چلن ہے، روشن کینوس پر تاریکی پینٹ کرنے کا رواج ہے۔

کسی سے کوئی امید مت رکھیں، سب کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔ وزیر، سفیر، مشیر؛ وہ جو آج حکومت میں ہیں، وہ جو کل حکومت میں تھے، اور وہ، جو آنے والے کل مسند اقتدار سنبھالیں گے، سب کو فقط مفادات کی پروا۔ ان مفادات کی راہ میں عام آدمی کی کیا وقعت۔ راستے میں آئے گا، تو ٹھوکر کھائے گا، کچلا جائے گا۔ روند دیا جائے گا۔

یہاں سب کو کھانے سے مطلب ہے۔ سب کے پیٹ میں پراسرار گنجائش ہے۔ انھیں کچھ نہیں ملے گا، تو آپ کے اور ہمارے بچوں کو کھا جائیں گے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ اس منحوس سلسلے سے محفوظ رہیں، اگر آپ اپنی بچوں کو اس عفریت سے بچانا چاہتے ہیں، اپنی بیٹیوں، بھائیوں کا تحفظ چاہتے ہیں، اپنے ماں باپ کی حفاظت کے خواہش مند ہیں، تو ایک ہی کلیہ ہے، ایک ہی نسخہ ہے۔۔۔

دولت کمائیں، طاقت حاصل کریں، ایک بااثر شخص بن جائیں۔ ایک بارسوخ، پرقوت، رئیس شخص۔ جو خرید سکتا ہے۔علاج کی سہولت کو، قانون کو، انصاف کو، یہاں تک کہ سچ کو بھی۔

تو دولت اور طاقت کو مقصد زیست بنا لیں۔ یہ ہی اس معاشرے میں زندہ رہنے کا اکلوتا طریقہ ہے۔ یہی جادوئی اصول ہے، یہی اکلوتا فارمولا ہے۔اب سب ٹھیک ہے۔ کوئی اسپتال ہو، کوئی ادارہ ہو، پولیس اسٹیشن ہو، کٹہرا ہو؛ آپ سب کچھ سنبھال سکتے ہیں، خرید سکتے ہیں کہ آپ بارسوخ ہیں، باثروت ہیں۔

اگر آپ بارسوخ، باثروت ہیں،تو سزا یافتہ ہونے کے باوجود علاج کے لیے آپ کی ضمانت ہوجائے گی۔اگر آپ کے پاس دولت اور طاقت ہے، تو کابینہ سے نکالنے جانے کے چند ماہ بعد آپ پھر وزیر بن جائیں گے، اگر آپ کا سیاسی اثر ہے، تعلقات ہیں، تو دروازے پر موجود نیب اہل کار بھی آپ کو گرفتار کرنے میں ناکام رہیں گے، اور خاموشی سے لوٹ جائیں گے۔ درجنوں قتل کرنے کے باوجود آزادی کا بادل آ پ پر سایہ کرے گا،آپ بیرون ملک اطمینان سے زندگی گزاریں گے، لندن، نیویارک اور پیرس میں رہیں گے۔ایک میٹر ریڈر سے، ایک کالج لیکچرر سے کروڑ پتی بننے کا سفر روشنی کی رفتار سے طے کریں گے۔

اگر آپ دولت مند ہیں، طاقتور ہیں، تو آپ کے قہقہے جان دار ہوں گے، آپ کا اعتماد آہنی ہو گا۔ زمانہ آپ کے سامنے ڈھیر ہو جائے گا۔ ہوا اور ہیلی کاپٹر پر آپ کا اختیار ہو گا۔ ذرایع آمدن نہ ہونے کے باوجود آپ کے پاس کروڑوں کی زمینیں ہوں گی، آپ کی بہنیں، بیٹیاں اور بھائی ارب پتی ہوں گے۔

اگر آپ اس سماج میں، اس خستہ حال، زوال کی جانب گام زن، سیاہ، تاریک سماج میں زندہ رہنا چاہتے ہیں، تو آپ کو دولت اور طاقت کے حصول کے لیے زور مارنا چاہیے۔ اور اس دوران جتنی بھی رکاوٹیں آئیں، انھیں کچلتے، روندتے چلے جائیں، آگے بڑھتے جائیں۔

لائسنس لیے بغیر کوئی اسپتال کھول لیں، جہاں زمین دکھائی دے، قبضہ کر کے ہاؤسنگ اسکیم بنا دیں۔ نا اہل افراد جمع کر کے ایک اسکول شروع کر دیں، جرم چھپانے کو کوئی این جی او بنا لیں، پانی میں دودھ ملا کر بیچیں، ادویہ کی قیمتیں بڑھا دیں، دو نمبر تیل اور گھی کا کاروبار شروع کر دیں، الغرض ہر وہ کام کریں، جسے نہ کرنے کی بزرگوں نے نصیحت کی تھی۔ بزرگ ویسے ہی اپنے دقیانوسی خیالات کی وجہ سے قصہ ماضی ہوئے۔ آپ مستقبل ہیں۔

اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے، دولت اور طاقت کے حصول کے لیے زور نہیں مارتے، با رسوخ، با ثروت نہیں بنتے، تو پھر تیار رہیں۔

جیسے آپ روز سورج کو طلوع ہوتے دیکھتے ہیں، ٹھیک ویسے ہی یہ واقعہ پھر ہو گا۔ جلد یا بدیر، نشوہ ہی کی طرح ایک اور معصوم بچی غلط انجکشن کا نشانہ بنے گی، ایک اور باپ کو اپنی بیٹی سے محروم ہونے پڑے گا، ایک بار پھر میڈیا کے پاس گرما گرم خبر ہوگی۔ اخبارات کے صفحات بھر جائیں گے۔

یاد رکھیں، ایسا ہی ہو گا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔