پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا شیڈول طے پاگیا

ویب ڈیسک  جمعـء 26 اپريل 2019
نئے پروگرام کے لیے 29 اپریل سے باضابطہ مذاکرات شروع ہوں گے۔

نئے پروگرام کے لیے 29 اپریل سے باضابطہ مذاکرات شروع ہوں گے۔

اسلام آباد: پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا شیڈول طے پاگیا جس کے تحت پیر سے باضابطہ مذاکرات شروع ہوں گے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا جائزہ مشن ڈائریکٹرارنسٹو رمیریزریگو کی سربراہی میں 29 اپریل کو پاکستان پہنچے گا اور 7 مئی تک پاکستان میں قیام کرے گا اس دوران آئی ایم ایف جائزہ مشن مختلف اداروں کا دورہ بھی کرے گا، نئے پروگرام کیلئے 29 اپریل سے باضابطہ مذاکرات شروع ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ نے تمام متعلقہ وزارتوں اور اداروں کو مراسلہ جاری کردیا اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کیلئے ایف بی آر سمیت متعلقہ وزارتوں سے ڈیٹا مانگ لیا اور جائزہ مشن کے ساتھ مذاکرات کے لیے 9 ماہ کے اقتصادی اعداد وشمار پر مشتمل ڈیٹا مرتب کرنے کی ہدایات بھی کردی ہے، وزارت خزانہ کی ہدایت پر ایف بی آر کے تمام متعلقہ ونگز نے ڈیٹا مرتب کرنا شروع کردیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی ٹیکس آمدنی جی ڈی پی کے 13.2 فیصد تک بڑھانے کا مطالبہ کررہا ہے، حکومت پاکستان نے 12.7 فیصد تک بڑھانے کی یقین دہانی کرائی ہے، آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات میں ریونیو فریم ورک پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوگا، ریونیو فریم ورک میں بجٹ میں 729 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجاویز زیرغور ہیں۔

ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف جائزہ مشن کے ساتھ وفاقی بجٹ کیلئے تجاویز اور بجٹ اسٹریٹجی پیپر پرتبادلہ خیال ہوگا، آئندہ بجٹ میں جی ڈی پی کے 1.4 فیصد کے برابر ٹیکس عائد کئے جانے کا امکان ہے، بجٹ میں برآمدی و مینوفیکچرنگ شعبہ کے لیے ٹیکس میں ریلیف بھی دیا جائے گا اور بجٹ میں 634 ارب روپے ان لینڈ ریونیواور 95 ارب روپے کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں جب کہ انکم ٹیکس کی مد میں 334ارب روپے، سیلز ٹیکس کی مد میں 150 ارب اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 150 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجاویز ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جائزہ مشن کو بجلی کے نرخ میں اضافہ، روپے کی قدر،موبائل فون کارڈ پر ٹیکس کی بحالی سے اضافی ریونیو، ایمنسٹی اسکیم اور قرضوں کی ایڈجسٹمنٹ سے متعلق شرائط پر پیشرفت سے آگاہ کیا جائے گا تاہم چین سے لئے جانیوالے قرضوں کے بارے آئی ایم ایف کو آگاہ کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔