عمران خان ناکام ہورہے ہیں؟

تصور حسین شہزاد  ہفتہ 27 اپريل 2019
عمران خان ناکام ہوگئے تو کیا ہوگا؟(فوٹو: انٹرنیٹ)

عمران خان ناکام ہوگئے تو کیا ہوگا؟(فوٹو: انٹرنیٹ)

عمران خان کے حوالے سے بہت سے حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ اگر عمران خان ناکام ہوگئے تو کیا ہوگا؟ یہ بحث یا ایسی باتیں میڈیا اور سوشل میڈیا پر دو طبقے پھیلا رہے ہیں۔ ایک طبقہ سیاسی ہے۔ ظاہر ہے عمران خان نے آکر جن سے اقتدار چھینا، جنہیں جیلیں دکھائیں یا جن کو قید ہونے کے خواب آرہے ہیں، وہ چین سے تھوڑی بیٹھیں گے۔ ان کی طرف سے یہ بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں کہ کسی طرح عمران خان اقتدار سے باہر ہوجائیں اور وہ دوبارہ حکومت میں آکر لوٹ مار کا سلسلہ شروع کرسکیں۔ دوسرا طبقہ میڈیا ہے۔ میڈیا مالکان کو ماضی میں اندھادھند نوازا جارہا تھا تاکہ وہ حکومت کی بڑی بڑی کرپشن، منی لانڈرنگ اور دیگر کرتوتوں سے صرفِ نظر کرتے رہیں اور ماضی میں یہی کچھ ہوتا بھی رہا۔ آج بھی ’’پٹواری‘‘ مزاج لوگ یہی کہتے ہیں کہ اگر نواز شریف اور زرداری نے کرپشن کی ہے تو ثبوت دیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ سائیکل پر پھرنے والوں کے پاس لینڈ کروزر کیسے آگئیں۔ لاہور کی شاہدرہ جیسی آبادی کے مکین بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس میں کیسے پہنچ گئے؟

اب یہ دونوں طبقے (سیاسی و صحافتی) مل کر زور لگا رہے ہیں۔ ان کے شور شرابے کے برعکس، حکومت بہت کچھ بہتر کرچکی ہے۔ مگر ان کی یہی رٹ ہے کہ ’’عمران خان نے ابھی تک کیا ڈیلیور کیا ہے؟‘‘ یہ طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ عمران خان نے آکر مہنگائی میں اضافہ کیا ہے۔ عوام کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ ڈاؤن ہے، وغیرہ۔

ہماری معیشت کے ساتھ ہوتا کیا رہا ہے، اس کی مثال میں اس واقعے سے دوں گا۔ ایک صاحب ہمارے محلے میں کرائے دار آئے۔ لیسکو کا میٹر ریڈر ان کا قریبی عزیز تھا۔ کرائے دار نے میٹر ریڈر کو کہا کہ میں نے 6 سے 7 ماہ اس گھر میں رہنا ہے، میرا بل 200 روپے سے زیادہ نہیں آنا چاہیے۔ میٹر ریڈر نے ’’جی بہتر‘‘ کہہ کر ریڈنگ کرنا شروع کردی۔ ہر ماہ 200 سے زائد یونٹ استعمال ہوتے، میٹر ریڈر ریڈنگ میں چند یونٹ ڈال کر بل کی قیمت 200 روپے تک ہی رکھتا۔ میٹر پر یونٹ کی تعداد بڑھتی رہی، مگر ریڈنگ بک میں اندراج چند یونٹس کا ہی ہوتا رہا۔ کرائے دار کو ہر ماہ صرف 200 روپے ہی بل آتا۔ 7 ماہ بعد کرائے دار نے گھر چھوڑ دیا۔ میٹر ریڈ نے ایک ماہ تو بل 200 ہی بھجوایا، جب اسے پتہ چلا کہ مکان کا مکین بدل چکا ہے، اس نے میٹر کی اصل ریڈنگ کے مطابق بل ڈال دیا۔ اب 200 روپے ماہانہ آنے والا بل اچانک 20 ہزار سے بھی تجاوز کرگیا۔ نئے کرائے دار نے تو سر پکڑ لیا۔ میٹر ریڈر نے میٹر دکھایا، ریڈنگ درست تھی۔ میٹر بتا رہا تھا کہ اتنے ہی یونٹ خرچ ہو چکے ہیں، جتنے ریڈنگ بک میں میٹر ریڈر نے درج کیے ہیں۔ یوں نئے کرائے دار پر یہ افتاد آن پڑی کہ جیسے بھی ہو، یہ بل تو دینا ہی ہے۔

ماضی میں پاکستانی معیشت کے ’’میٹر‘‘ کے ساتھ اسحاق ڈار جیسا میٹر ریڈر یہی سلوک کرتا رہا ہے۔ اب چیخیں عمران خان اور عوام کی نکل رہی ہیں، اور شور یہ مچایا جارہا ہے کہ حکومت ناکام ہوگئی۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ نواز شریف کو یقین ہوگیا تھا کہ آئندہ انہیں حکومت نہیں ملے گی۔ انہوں نے ملکی معیشت کو اس انداز میں تباہ کیا کہ رہے نام اللہ کا۔ اتنے زیادہ قرضے لیے گئے، اور اتنی زیادہ شرح سود پر لیے گئے کہ اب ان کی ادائیگی کا معاملہ ایک بڑا مسئلہ بن کر حکومت کے سامنے کھڑا ہوگیا ہے۔ عمران خان تو کیا، کوئی بھی اقتدار میں آجاتا اس کے لیے یہ مسائل لازمی تھے۔ اب ان مسائل کے پیش نظر ہی اسد عمر نے ہاتھ اٹھا لیے۔ ظاہر ہے اتنے کم عرصے میں اتنے زیادہ مسائل کو حل کرنا آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود کو بے بس دیکھ کر اسد عمر نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ بھی ایک اچھی روایت ہے کہ اگر کام نہیں ہورہا تو الگ ہوجاؤ، بجائے اس کے کہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عہدے سے چمٹے رہو اور ملکی معیشت کا کباڑا کردو۔ اسد عمر نے مستعفی ہو کر اچھی مثال قائم کی ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عمران خان ناکام ہوگئے تو کیا ہوگا؟ اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو اس کے انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ عمران خان کی ناکامی کی صورت میں وہی کرپٹ طبقہ دوبارہ اقتدار میں آجائے گا اور پھر وہ جی بھر کر بغیر کسی خوف کے لوٹ مار کریں گے۔ انہیں پتہ ہوگا کہ ان کے سوا پاکستان کے پاس کوئی اور حکمران نہیں، اس لیے وہ کرپشن میں اور شیر ہوجائیں گے اور جی بھر کر کرپشن کریں گے۔ ان کے تیور ہی تبدیل ہوجائیں گے۔ اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ دوسری جانب یہ اقدامات بھی کیے جارہے ہیں کہ اگر عمران خان ناکام ہوتے ہیں تو ایک نئی سیاسی جماعت میدان میں اتار دی جائے، جو پی پی پی اور پی ایم ایل این کا متبادل ہو۔ اس کاز کے لیے محمد علی درانی فعال ہوچکے ہیں۔ محمد علی درانی پی ایم ایل این اور پی پی پی کے ارکان کے ساتھ رابطے کررہے ہیں۔ محمد علی درانی انہیں یہ کہہ کر قائل کررہے ہیں کہ زرداری اور نواز شریف کا شو ختم ہوچکا ہے، دونوں پر کریشن کے الزامات ہیں اور دونوں ہی ملکی سیاست سے آؤٹ ہونے جارہے ہیں۔ نواز شریف اگر عدالتوں سے بچ بھی جاتے ہیں تو وہ بیمار ہیں اور اپنی جسمانی حالت کے باعث وہ ملک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے جبکہ شہباز شریف پر بھی کرپشن کے کیسز ہیں، پی ایم ایل این کی قیادت مریم نواز کی گود میں آجائے گی جو پی ایم ایل این کے بہت سے ارکان کو پسند نہیں، کیونکہ لاہوری ارکان کے علاوہ کوئی لیگی رہنما نہیں چاہتا کہ پارٹی کی قیادت مریم نواز کو ملے۔

چوہدری نثار کی نوازشریف سے دوری اور پارٹی سے علیحدگی کی وجہ بھی مریم نواز کی فعالیت ہی تھی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان بھی موروثی سیاست سے جان چھڑوانے کے لیے کوشاں ہیں۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے ایسے ارکان جو موروثیت کے خلاف ہیں انہیں محمد علی درانی ایک پلیٹ فارم پر جمع کررہے ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ وہ قوتیں جو پاکستان میں اقتدار کے فیصلے کرتی ہیں، ان کی حمایت بھی محمد علی درانی کے ساتھ ہے۔ یہ تیسری سیاسی قوت عمران خان کے متبادل کے طور پر بہرحال تیار ہورہی ہے، مگر یہ صرف امکانی صورت میں ہی فعال ہوگی، اگر عمران خان ناکام ہوگئے تو۔

اب عمران خان کی پوزیشن دیکھیں، عمران نے عالمی سطح پر پاکستان کی حیثیت کو تسلیم کروا لیا ہے۔ سعودی عرب، ملائیشیا، ترکی، یو اے ای، ایران اور چین سمیت دیگر ممالک عمران خان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اب تک جتنے غیر ملکی حکمران پاکستان آئے ہیں یا عمران خان نے اب تک جتنے بھی غیر ملکی حکمرانوں سے رابطے کیے ہیں، وہ حوصلہ افزا رہے ہیں۔

پاکستان کا امت مسلمہ میں جو مصالحانہ اور مثبت کردار ہے، وہ اجاگر ہورہا ہے۔ اس امر کے بھی مثبت نتائج ہی برآمد ہوں گے۔ جہاں تک اندرونی مسائل کی بات ہے تو پاکستانی قوم کے لیے ابھی کچھ ماہ سخت ضرور ہوں گے، مگر بہتری کی امید ابھی بھی موجود ہے۔ جیسے ایک مریض کو تندرستی کے لیے انجکشن کی تکلیف سہنا پڑتی ہے، اسی طرح پاکستانی عوام کو بھی یہ درد سہنا ہی پڑے گا۔ اس درد کا کریڈٹ بھی ماضی کے حکمرانوں کو ہی جاتا ہے۔ عمران خان کا مضبوط ارادہ بتا رہا ہے کہ وہ ناکام نہیں ہوں گے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جس کو، آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

پاکستان کے عوام اب طے کرچکے ہیں کہ انہوں نے اپنی حالت بدلنی ہے، اور ملک کی مقتدر قوتیں بھی جانتی ہیں کہ اگر اب حالات تبدیل نہ ہوئے تو پھر کبھی بھی حالت تبدیل نہیں ہوگی۔ اس لیے وہ نہیں چاہیں گے کہ عمران خان ناکام ہو اور مرادیں نیتوں کی بل بوتے پر ہی ملتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تصور حسین شہزاد

تصور حسین شہزاد

بلاگر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرچکے ہیں۔ آج کل لاہور کے ایک مقامی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں اور متواتر بلاگ لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔