باتیں واقعی سچ ہیں

خرم علی راؤ  ہفتہ 27 اپريل 2019

کہتے ہیں کہ جیسے دنیا میں معاملات کو چلانے کے لیے، انتظامی امورکو نپٹانے کے لیے، مختلف نظام ہائے کار وضع کیے گئے ہیں اور جیسے کہ اپنی طرف انتظامیہ میں نیچے سے اوپر تک عہدے ہوتے ہیں یعنی پیون سے لے کر پی ایم تک بالکل ویسے ہی ایک اور چھپا ہوا عظیم الشان نظام بھی کام کر رہا ہے جو عام افراد کی آنکھوں سے پوشیدہ رہتا ہے، اسے قدرت کا غیبی نظام یا تکوینی نظام کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی بے سروپا یا خیالی بات نہیں بلکہ اس کے ٹھوس شواہد دینی علوم و معلومات میں ملتے ہیں ۔

یہ تکوینی یا غیبی نظام قدرت کے قضا و قدر کے فیصلوں کا اطلاق کرتا اور دیگرکئی ذمے داریاں انجام دیتا ہے۔ اس کے بھی باقاعدہ کارکن موجود ہوتے ہیں۔ علمائے ربانی اور اولیائے امت کی کتابوں میں جا بجا اس نظام کے واقعات اور اس کے کارکنوں کے بارے میں کچھ تھوڑی بہت تفصیلات ملتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن پاک میں بیان کردہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کی ملاقات کے مشہور واقعے میں بھی اسی نظام کی تصریح ہے۔

اس نظام کے کارکن بھی درجہ بدرجہ ہوتے ہیں جن میں مجذوب ، اوتاد ، اخیار ، ابدال، اقطاب کے علاوہ اور بھی کئی عہدے پائے جاتے ہیں ۔ اپنے اپنے زمانے میں اس سارے نظام کے موجود سربراہ کو قطب الاقطاب کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں بھی ٹرانسفرز اور پوسٹنگ بالکل دنیاوی نظام کی طرح ہوتی ہے اور مختلف عہدے داران جنھیں صاحبِ خدمت بھی کہا جاتا ہے جگہیں اور علاقے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ یہ صاحبان خدمت بظاہر عام لوگوں کی طرح ہوتے اور زندگی گزارتے نظر آتے ہیں لیکن ان کے باطن بہت منور اور طاقتور ہوتے ہیں اوراعلیٰ تر روحانی مقامات کے حامل ہوتے ہیں ۔

اس تمہید کے بعد دورانِ مطالعہ ایک دلچسپ واقعہ اس تکوینی یا غیبی نظام کے حوالے سے نظر سے گزرا تو سوچا کہ آپ سے بھی شئیرکیا جائے اور فکرونظر کے کچھ نئے گوشے وا کیے جائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے روشن خیال لوگ اسے دلچسپ کہانی قرار دیں تو ایسے حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ اسے کہانی ہی سمجھ کر پڑھ لیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی ہندوستان میں ایک زبردست فقہیہ ، مفسر ، محدث مناظر اور صاحبِ معرفت ہستی تھے۔ مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ کے فرزند اکبر تھے اور آپ کو سراج الہند بھی کہا جاتا ہے۔

آپ بحر طریقت کے بھی شناور تھے اور اپنے زمانے کے اولیائے کبار میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنات بھی آپ سے مرید تھے۔ دلی میں آپ کی خانقاہ مرجع خلائق تھی ۔کتابوں میں درج ہے کہ ایک مرتبہ حضرت شاہ صاحب کے ایک لاڈلے مرید جو دلی کے نوابین میں شمار ہوتے تھے آپ سے شکایتا کہنے لگے کہ ’’حضرت ! جانے کیا بات ہے دلی میں بہت بگاڑ چل رہا ہے۔

چوری ، ڈاکہ ، لڑائی ، فساد اور ابتری ونفسانفسی کی سی کیفت ہے۔‘‘ حضرت شاہ صاحب کسی روحانی کیفیت میں تھے یکلخت آپ کی زبان سے نکلا کہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دلی کے صاحب خدمت یعنی غیبی نظام کے سربراہِ دہلی بہت نرم مزاج ہیں اور بہت سی باتوں کو نظر اندازکردیتے ہیں۔ اس لیے شیطانی طاقتیں منہ زور ہوکر فتنہ و فساد پھیلا رہی ہیں ۔‘‘ مرید چونکے اور بڑے اشتیاق سے پوچھا کہ ’’حضرت وہ کون ہیں ؟ کہاں ہیں ؟ مجھے بتائیں ، میں ان کی زیارت کروں گا۔‘‘ شاہ صاحب نے فرمایا کہ ’’ نہیں میاں ! وہ الگ نظام ہے پردہ غیب میں ہوتا ہے ، ہم لوگ اس میں دخل نہیں دیتے نقصان ہوسکتا ہے۔‘‘ مرید لاڈلے تھے ضد کرنے لگے کہ ’’ نہیں ! حضرت بتا دیں میں زیارت کرنا چاہتا ہوں ان کی ۔‘‘ آخر بہت مجبور کرنے پر حضرت نے فرمایا کہ ’’میاں وہ دلی کی جامع مسجد کے پاس خربوزے کی چھابڑی لگائے ہوئے ہیں یعنی خربوزے والے بنے ہوئے ہیں۔‘‘ مرید چند مزید نشانیاں پوچھ کر دوڑے ہوئے جامع مسجد پہنچے تو دیکھا کہ ایک سفید ریش بزرگ خربوزوں کی چھابڑی لگائے بیٹھے ہیں۔

وہ ان بزرگ کے پاس گئے اور تحکمانہ انداز میں کہا کہ ’’ بڑے میاں ! خربوزے کیا حساب بیچ رہے ہو ۔‘‘ جواب ملا کہ ’’روپے کے پانچ سیر‘‘ کہا ’’یہ لو روپیہ پانچ سیر تول دو‘‘ انھوں نے تول کر دے دیے۔ مرید نے ایک خربوزہ کی وہیں قاش کاٹ کر چکھی اور میٹھا ہونے کے باوجود جان بوجھ کر مصنوعی غصے سے ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا کہ ’’ ہیں ، ہیں! یہ تو پھیکا ہے، کیسے خربوزے بیچ رہے ہو؟‘‘ پھر دوسرے کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی کیا اور بڑبڑاتے ہوئے اسے بھی پھینکا۔ خربوزے والے بزرگ نے نرمی سے کہا کہ ’’جناب میرے پاس تو ایسے ہی ہیں آپ مجھے واپس کر دیجیے اور اپنا روپیہ لے لیجیے۔‘‘ وہ روپیہ واپس لے کے حضرت شاہ صاحب کے پاس آئے اورعرض کیا کہ پیر و مرشد آپ نے درست فرمایا تھا وہ واقعی بہت نرم مزاج ہیں میں نے غصہ دلانے کی کوشش بھی کی مگر وہ غصہ نہیں ہوئے۔ شاہ صاحب نے انھیں دوبارہ وہاں جانے کی ممانعت کرتے ہوئے اس بات کو یہیں ختم کرنے کا کہا۔

کچھ وقت گزرا دلی کا نظام ایک دم چوکس طریقے سے چلنے لگا۔ بد امنی اور فتنہ وفساد بالکل تھم گیا ۔ مرید دوبارہ حضرت کے پاس آئے اور تعجب کا اظہارکیا تو حضرت نے فرمایا کہ ’’ ہاں جی ! ان کی بدلی ہوگئی ہے اور ان کی جگہ دوسرے آگئے ہیں جو بہت جلالی ہیں اور اسی لیے شیطانی طاقتیں سہم اور تھم گئی ہیں‘‘ مرید پھر ان سے ملنے کے متمنی ہوئے تو شاہ صاحب نے پہلے سے زیادہ شد و مد سے منع کیا کہ ان چکروں میں مت پڑو، وہ نہ مانے اور لاڈ میں ضد کرتے گئے تو حضرت نے فرمایا کہ ’’ اچھا بھئی وہ بھی وہیں جامع مسجد کے پاس ملیں گے، وہ ماشکی بنے ہوئے ہیں لوگوں کوپیسوں کے عوض پانی پلاتے ہیں۔‘‘ یہ فورا وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک بزرگ چمڑے کی مشک سامنے رکھے ہوئے لوگوں کو پانی پلا رہے ہیں۔

مرید بھی انھیں اکیلا دیکھ کر ان کے پاس گئے اور جان بوجھ کر ذرا غصے سے کہا کہ ’’ بڑے میاں ، پانی کس حساب سے پلا رہے ہو ؟‘‘ انھوں نے تیز نظروں سے دیکھ کر جواب دیا کہ ’’دمڑی کا پیالہ‘‘ مرید نے دمڑی نکال کردی اور ایک پیالہ طلب کیا انھوں نے دے دیا ۔مرید پیالہ منہ کے پاس لائے اور یہ کہتے ہوئے سارا پانی پھینک دیا کہ ’’ارے رے! اس میں تو بال ہے۔ کیسا پانی پلارہے ہو؟‘‘ ماشکی کھڑے ہوئے پیالہ ان کے ہاتھ سے چھینا اور دوسرے ہاتھ سے زوردار تھپڑ ان کے منہ پر مار کر بولے۔ ’’ کیا ہمیں خربوزے والا سمجھ رکھا ہے؟ جاؤ بھاگو یہاں سے اور اپنے پیر سے کہہ دینا کہ وہ زیادہ دخل دے رہے ہیں ہمارے معاملات میں ۔ چلو جاؤ!‘‘ وہ لرزتے ہوئے شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری بات عرض کی۔ حضرت شاہ صاحب نے تاسف سے فرمایا کہ ’’ دیکھا منع کیا تھا نا‘‘ اور چہرہ زرد ہوگیا۔ چند دن کے بعد کسی نے زہردے دیا اور حضرت شاہ صاحب کا انتقال ہوگیا۔

تو جناب یہ معرفت طریقت و روحانیت کی باتیں ہیں اور ان شعبوں کے ماہرین اور اہل اللہ ہی ان باتوں پر بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں ہم گناہ گار دنیا دارکیا جانیں۔ بس جو پڑھا وہ لکھ ڈالا۔ بس ایک عرض التجا اور خواہش ہے کہ یہ باتیں واقعی سچ ہیں اور کوئی ایسا غیبی و تکوینی نظام کام کر رہا ہے تو برائے کرم وطن عزیز کے صاحبِ خدمت حضرات اور اس نظام کے پاکستان میں کام کر رہے صاحبان باطن سے پاکستان کی بھلائی بہتری اور ترقی کے لیے مزید توجہ فرمانے کی ڈرتے ڈرتے مودبانہ درخواست ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔