اکیسویں صدی کا اچھوتا انکشاف؛ ججوں نے سپرپاور کو ’’معصوم‘‘بنا دیا

سید عاصم محمود  اتوار 28 اپريل 2019
عالمی عدالت جرائم میں بیٹھے جج طاقتور کے سامنے بے بس ،افغان عوام کو انصاف نہ مل سکا۔ فوٹو: فائل

عالمی عدالت جرائم میں بیٹھے جج طاقتور کے سامنے بے بس ،افغان عوام کو انصاف نہ مل سکا۔ فوٹو: فائل

اناطول فرانس کا شمار مشہور فرانسیسی ادبا میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ایملی زولا اور وکٹرہیوگو کے مانند انسانی فطرت کا بڑی گہرائی میں مطالعہ کیا۔ اناطول فرانس کا انوکھا قول ہے: ’’انصاف وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے ناانصافی کی جاتی ہے۔‘‘ یہ قول  منفی طرزفکر کی ترجمانی کرتاہے۔مگر یہ دور جدید کی مغربی حکومتوں خصوصاً امریکی حکومت کے رویّے پر پورا بھی اترسکتا ہے۔

امریکا سیاسی، معاشی اور عسکری لحاظ سے دنیا میںسپرپاور کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکی حکمران اکثر آزادی، حقوق انسانی، جمہوریت، انسان دوستی اور مساوات کی باتیں کرتے ہیں۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ اپنی قوت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی حکمران دنیا بھر میں ظالموں کو ظلم کرنے سے روکتے۔دنیا میں قانون وانصاف کا عالمی نظام رائج کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن خاص طور پہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی حکمرانوں کے اندازواطوار بالکل بدل گئے۔وہ اکثر معاملات میں ظالم کے ساتھی بلکہ سرپرست بن بیٹھے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ  جب اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی بات آئے، تو امریکی حکومت قانون و انصاف کو بھی دھڑلے سے پامال کر ڈالتی ہے۔ اسی قسم کی  غنڈہ گردی کا مظاہرہ پچھلے دنوں دیکھنے کو ملا۔

ہوا یہ کہ اکتوبر 2017ء میں عالمی عدالت جرائم کی پراسکیوٹر، فاتو بنسودہ نے اپنے ججوں کو  درخواست دی: ’’یہ تفتیش کرنے کا حکم دیا جائے کہ کیا افغانستان میں امریکی و اتحادی فوج اور مغربی خفیہ ایجنسیوں نے جنگی جرائم انجام دیئے؟‘‘ یہ درخواست بھجوانا تھی کہ امریکی حکومت غصّے سے پیچ و تاب کھانے لگی۔ امریکی صدر ٹرمپ اٹھتے بیٹھتے فاتو بنسودہ پر تنقید کرنے لگے کیونکہ وہ گیمبیا سے تعلق رکھنے والی ایک مسلمان وکیل ہیں۔ عالمی عدالت جرائم بھی امریکی حکومت کی سخت تنقید کا نشانہ بن گئی حالانکہ اس بین الاقوامی ادارے کی بنیاد ڈالتے ہوئے امریکا پیش پیش رہا ہے۔

جنگ…تاریخ بنی نوع انساں

تاریخ پہ نگاہ دوڑٓئی جائے تو یہ افسوس ناک انکشاف ہوتا ہے کہ طاقت کے نشے میں بدمست انسان زمانہ قدیم سے اپنے معاشی، سیاسی، نسلی یا مذہبی مفادات کی خاطر کمزوروں پر ظلم ڈھارہے ہیں۔ قبیلوں سے لے کر ممالک تک کے آمروں اور سرداروں نے خوفناک جنگیں چھیڑ کر اپنے پرائے… لاکھوں انسانوں کو زندگی کی نعمت سے محروم کردیا۔ اسی لیے بعض مورخین جنگ کی تاریخ کو ’’تاریخ بنی نوع انساں‘‘ اور انسانی تاریخ کو ’’جنگی تاریخ‘‘ قرار دیتے ہیں۔امریکی قوم بھی اپنی تاریخ میں بے در پے جنگوں سے گزری۔ جنگوں کے خوفناک تجربات سے گذر کر ہی بانیانِ امریکا نے ایسا آئین تیار کیا۔

جس میں انسان کی آزادی، عزت، مساوات، انصاف اور قانون کو فوقیت دی گئی۔ بیسویں صدی میں دو عظیم جنگوں کی خوفناکی دیکھنے کے بعد بھی اس اجتماعی سوچ نے جنم لیا کہ عوام پر ظلم و ستم کرنے والے حکمرانوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ ان پر مقدمے چلا کر انہیں سزا دینی چاہیے۔ اسی سوچ کے باعث اقوام متحدہ اور انصاف و قانون پر مبنی مختلف عالمی ادارے وجود میں آئے۔ لیکن صد افسوس کہ بیسویںصدی شروع ہوتے ہی امریکی حکمرانوں نے اپنے قول وفعل سے خصوصاً ان عالمی اداروں کی تضحیک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جو امریکا کی غیرقانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کے آگے بند باندھنے کی سعی کرتے۔ چونکہ امریکا سیاسی، معاشی اور عسکری طور پر طاقتور تھا، اس لیے عالمی ادارے بھی اس کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوگئے۔

طاقتور کی چلتی ہے

1945ء کے بعد ایسے واقعات بہت کم رونما ہوئے جب قانون و انصاف فراہم کرنے والے عالمی ادارے بنی نوع انسان کی امیدوں اور توقعات پر پورے اترے۔ ایک نمایاں مثال ’’انٹرنیشنل کرمنل ٹربیونل فار دی فارمر یوگوسلاویہ‘‘ کی ہے۔ اس عدالت کی بنیاد اقوام متحدہ نے 1993ء میں رکھی تاکہ یوگوسلاوی جنگوں میں جنگی جرائم کرنے والے افراد پر مقدمے چل سکیں۔ اس عدالت نے ظالم سرب رہنمائوں دوران کارازیچ، راٹکومالدک وغیرہ کو کڑی سزائیں دیں جنہوں نے بوسنیائی مسلمانوں پر خوفناک مظالم ڈھائے تھے۔ یوں بوسنیائی باشندوں کو کسی حد تک انصاف مل گیا۔

عالمی عدالت جرائم جولائی 2002ء میں قائم کی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرم اور تشدد کے واقعات میں ملوث طاقتور افراد کو عدالتی کٹہرے میں لایا جاسکے۔ ایک سو پچیس ممالک اس عالمی عدالت کے رکن ہیں۔ عدالت اب تک ’’44‘‘ افراد کو سزائیں دے چکی جن میں لیبیا کے مقتول صدر معمر قذافی، کینین صدر اوہورد کینیاتا، سابق سوڈانی صدر، عمرالبشیر اور سابق آئیوری کوسٹ صدر لورنت گیابگو شامل ہیں۔یہ تمام ’’مجرم‘‘ مگر کمزور و غریب افریقی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔

عالمی عدالت جرائم کے جج آج تک کسی طاقتور ملک کی مجرم شخصیت کو عدالتی کٹہرے میں لانے کی ہمت نہیں کرسکے۔ مثال کے طور پر طویل عرصے سے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ عالمی عدالت جرائم سابق صدر بش جونیئر پر جنگی جرائم انجام دینے پر مقدمہ چلائے۔ موصوف کی زیر قیادت امریکی فوج نے افغانستان، عراق اور عالم اسلام کے دیگر علاقوں میں جنگیں چھیڑیں۔ ان کی ایما پر ہی گوانتانامو جیل اور افغان جیلوں میں مسلمان قیدیوں سے وحشیانہ سلوک ہوا۔ تاہم بش جونیئر عیش و آرام سے اپنے محل نما فارم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ممکن ہے، مسلمانوں سے تعصب اور تنگ نظری برتنے پر وہ پچھتاتے ہوں مگر اب اس کا کیا فائدہ؟

افغانستان کی داستان ِغم

صدر ٹرمپ تو مسلم دشمنی میں اپنے پیش روئوں سے دو ہاتھ آگے نکلے۔ صدارتی کرسی سنبھالتے ہی وہ کوشش کرنے لگے کہ مسلمان امریکا میں نہ بس پائیں اور جب فاتو بنسودہ نے عالمی عدالت جرائم میں امریکا کے گناہوں کی  فائل کھولنے کے سلسلے میں درخواست دی، تو ٹرمپ کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

امریکی حکمران طبقے کا دعویٰ ہے کہ جمہوریت پروان چڑھانے اور افغانستان کو ترقی یافتہ و خوشحال بنانے کی خاطر 2001ء میں انہوں نے سرزمین افغاناں پر حملہ کیا۔ تب سے امریکا افغانستان پر قابض چلا آرہا ہے۔ وہاں کے حکمران امریکا کی کٹھ پتلی ہیں۔اس دوران امریکی فوج نے افغانستان میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے۔ سکول و ہسپتال کھولے۔ ڈیم اور سڑکیں بنائیں لیکن اس ساری سرگرمی کے بہت کم اثرات ہی افغان عوام  تک پہنچ سکے۔ وجہ یہ ہے کہ امریکا اور دیگر ممالک نے افغانستان میں جو اربوں ڈالر خرچ کیے، اس کا بیشتر حصہ کرپشن کی نذر ہوگیا۔ اس بات کا اقرار امریکی حکومت کے اپنے احتسابی ادارے بھی کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے، آج بھی افغان عوام کی اکثریت غربت، بیماری اور جہالت کا شکار ہے۔ امریکی ڈالر ان کی قسمت تبدیل نہ کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی جنگ نے افغانستان کو پہلے سے زیادہ تباہ و برباد کردیا۔ معاشرے میں افغانوں اور غیر افغانوں کے مابین نسلی، لسانی، معاشی، سیاسی اور مذہبی اختلافات میں بھی شدت آگئی۔ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ غرض کامیاب اور بارآور ثابت نہیں ہوسکی۔

2001ء سے 2019ء کے مابین اٹھارہ سالہ طویل جنگ میں امریکی و اتحادی فوجیوں نے وقتاً فوقتاً ’’فرینڈلی فائر‘‘ کی بدولت ہزاروں بے گناہ اور معصوم افغان مردوں، عورتوں اور بچوں کو شہید کردیا گیا۔ بے سوچے سمجھے مدارس، ہسپتالوں اور دیگر عوامی مقامات پر بم باری کی گئی۔ بعدازاں جانی و مالی نقصان کو ’’کولیٹرل ڈمیج‘‘ کی بے حس اصطلاح کے پردے تلے چھپا دیا جاتا۔امریکی و یورپی اتحادی افواج میں متعصب فوجی بھی شامل تھے۔ اسی لیے امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے اور ٹھیکے دار کمپنیوں کے اہل کار بھی دل میں مسلمانوں کے لیے نفرت چھپائے ہوئے تھے۔

یہی وجہ ہے، جب کوئی افغان یا مسلمان قیدی ان کے ہاتھ آتا، تو وہ اس پر تشدد کرتے۔ قیدی سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا۔ حتیٰ کہ امریکی حکمران طبقے نے اپنی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ انجام دیتے ہوئے قانون و انصاف کے وہ بین الاقوامی اصول بھی توڑ ڈالے جو مختلف معاہدوں مثلاً جنیوا کنونشن کے تحت عالمی برادری نے بنائے تھے۔حد یہ ہے کہ امریکی عدالتیں بھی انتقام کی آگ میں جلتے اپنے حکمرانوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں بلکہ ان کی سرگرمیوں میں ممدد معاون بن گئیں۔ 2006ء میں امریکی سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ بھی ایک قسم کا مسلح تنازع ہے۔ یوں امریکی سکیورٹی فورسز کو کھلی چھٹی مل گئی کہ وہ مخالفین کے خلاف ہر قسم کا غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی قدم اٹھالیں۔ اس دوران دنیا کے سبھی طاقتور ممالک بھی امریکی حکومت کے سامنے صم بکم کی تصویر بنے رہے۔

عالمی عدالت جرائم کو دھمکیاں

عالمی برادری کی خاموشی کے باعث ہی امریکی حکمرانوں کی دیدہ دلیری بڑھ گئی اور وہ اپنے آپ کو قانون سے ماورا سمجھنے لگے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان، عراق، یمن، صومالیہ، شام وغیرہ میں امریکی فوج کی ناکامی پر ان سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ ان سے یہ بھی نہ پوچھا جائے کہ ڈرون حملوں سے شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ہنستے کھیلتے، بولتے چالتے معصوم بچے کیسے مارے گئے؟ ان کی نظر میں درج بالا اسلامی ممالک کے عوام کیڑے مکوڑے ہیں، اسی لیے کوئی وقعت نہیں رکھتے۔

یہی وجہ ہے، جب فاتو بنسودہ نے امریکی حکمرانوں کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی مہم چلائی، تو وہ تائو کھاگئے۔ انہیں یقین نہیں آیا کہ گیمبیا جیسے غریب ملک کی ایک غیر معروف وکیل نے ان کی حاکمیت و طاقت کو چیلنج کردیا۔ امریکی حکومت پھر علی الاعلان عالمی عدالت جرائم کو دھمکیاں دینے لگی کہ اگر امریکا کے خلاف مقدمہ چلایا گیا، تو اچھا نہیں ہوگا۔

امریکی وزیر خارجہ، مائیک پومپیو نے دھمکی دی کہ اگر امریکا کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ ہوا تو ان کی حکومت عالمی عدالت جرائم پر معاشی پابندیاں عائد کردے گی۔ امریکا میں مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے بیان دیا کہ اگر عالمی عدالت جرائم نے افغانستان میں امریکی فوج کے جرائم کی چھان بین کا آغاز کیا، تو عدالت کا کوئی ملازم امریکی سرزمین پر قدم نہیں دھرسکتا۔ چناں چہ عالمی عدالت کی پراسیکیوٹر،فاتو بنسودہ کو امریکا آنے سے روک دیا گیا۔

ان زبانی کلامی دھمکیوں سے عیاں ہے کہ امریکی حکمران طبقہ خوف کا شکار ہوگیا… یہ خوف کہ عالمی عدالت جرائم امریکی جرنیلوں اور لیڈروں کو سزا سناسکتی ہے۔ ظاہر ہے، ان سے افغانستان میں جرائم سرزد ہوئے تھے جو تحقیق و تفتیش سے سامنے آجاتے۔افسوس کہ عالمی عدالت جرائم کے جج سپرپاور کی دھمکیوں سے ڈرگئے۔ یہ ممکن ہے کہ معاشی پابندیوں سے انہیں اپنی نوکری ختم ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ لہٰذا 17 اپریل کو انہوں نے فیصلہ سنایا کہ افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم انجام دینے کے سلسلے میں امریکا پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔ اس فیصلے پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے شدید مایوسی کا اظہار کیا۔

عالمی عدالت جرائم کے ججوں نے قرار دیا کہ امریکی حکومت دوران مقدمہ تعاون نہیں کرے گی…اس لیے مقدمہ چلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن غیر جانب دار قانونی ماہرین کے نزدیک یہ بودی دلیل ہے۔ ان کی رائے میں عالمی عدالت کو مقدمہ چلانے کی اجازت دینی چاہیے تھی۔اگر امریکی حکمران فیصلہ تسلیم نہ کرتے تب بھی ان  کے کرتوت دنیا والوں پر آشکارا ہوجاتے۔

فیصلے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا ’’عالمی عدالت جرائم کو امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں پر کسی قسم کا مقدمہ نہیں چلانا چاہیے۔‘‘ یاد رہے، عالمی عدالت اسرائیل پر بھی مقدمات چلانا چاہتی ہے۔ اسرائیل پر الزام ہے کہ اس نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی مسلمانوں پر ظلم ڈھائے اور ان کے گھر بار تباہ کردیئے۔صدر ٹرمپ کی منطق سے عیاں ہے کہ انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کی تمام تر باتوں کے باوجود عملی طور پر آج بھی دنیا میں دو قسم کے قانون رائج ہیں… ایک کمزور بے بس کے لیے اور دوسرا طاقتور کے لیے۔ یہ نظام کمزور و غریب کو تو معمولی جرائم انجام دینے پر بھی سخت سزائیں دیتا ہے جبکہ طاقتور گھنائونے جرائم کرنے پر بھی سزا سے بچ نکلتا ہے۔

عالمی عدالت جرائم پر زبردست دبائو ڈال کر امریکی حکمرانوں نے ایک اور ’’انوکھی روایت ‘‘ ڈال دی۔ یہ کہ کوئی بھی ملک بیرون ممالک ہر قسم کے جنگی جرائم اور گناہ کرے مگر وہ قانون کی گرفت میں آنے سے بچ نکلے گا۔ عالمی عدالت جرائم کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں وہ بھی یہ دعویٰ کرکے اپنے کرتوتوں اور گناہوں سے بری الذمہ ہوجائے گا کہ وہ تو عالمی قوانین اور اصول تسلیم ہی نہیں کرتا۔

اسی منطق کے تحت بھارت میں انتہا پسند نریندر مودی اور امیت شاہ بھارتی مسلمانوں کو خلیج بنگال میں پھینک دینا چاہتے ہیں کیونکہ عالمی برادری میں کوئی نہیں جو ان سے پوچھ گچھ کرسکے۔درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ عالمی عدالت جرائم کے ججوں نے امریکی سپرپاور کو افغانستان میں جنگی جرائم سے ’’بری الذمہ‘‘ اور ’’معصوم‘‘ قرار دے کر  خطرناک روایت ڈال دی ہے۔ جب انصاف دینے والے ہی جانب دار اور کمزور ہوجائیں، تو پھردنیا میں ظلم بڑھ جاتا ہے۔ یہ صورت حال مستقبل میں مزید قتل و غارت کو جنم دے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔