سسکتا ہوا بچپن!!

شیریں حیدر  اتوار 28 اپريل 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ نگی جا… ووہٹی اور لاڑے کی فوٹو قریب سے کھینچ کر لا!! ‘‘ اپنا قیمتی اسمارٹ فون انھوں نے اس دس بارہ سالہ بچی کے ہاتھ میں تھمایا جو کسی صورت اس میز کا حصہ نہیں لگ رہی تھی۔ لاہور میں، میں ایک ایسی بیگانی شادی کی تقریب میں شریک تھی جہاں کوئی مجھے جانتا تک نہ تھا۔ یہ تقریب ایک بڑے ہوٹل میں تھی، رنگ و بو کا طوفان تھا، قہقہے اور مسکراہٹیں، قیمتی زیورات اور ملبوسات کی نمائش تھی۔ میں نے بڑے سے ہال میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلی میز پر سلام کر کے ایک خالی نشست سنبھال لی، وہاں کسی بھی میز پر ہونا میرے لیے برابر تھا مگر اس میز سے کم از کم نکلنا آسان ہو گا۔

اس کے والدین نے تو شاید اس کا نام نغمانہ رکھا ہوگا، نگینہ، نگہت، نگار یا ایساکوئی اور نام۔ جس ماحول میں بچوں کے نام غلام اور کنیز نما ہوتے ہیں، اس کے والدین کو شاید اس بات میں شک ہو گا کہ ان کی بیٹی کسی کی کنیز نہیں بنے گی، اس کے بھاگ شاید ان کے طبقے کی باقی لڑکیوں سے مختلف ہوں گے۔ مگر وہ کنیز ہی بنی اور اس کا اصل نام پکارا جانا تویوں ہی تھا گویا اس کے ’’مالک‘‘ اسے عزت دے رہے ہوں ۔ وہ جلد ہی معلومات اور تصاویر کے ساتھ واپس لوٹی، اس کی آنکھیں دلہن کو قریب سے دیکھ کر خیرہ ہو رہی تھیں۔

’’ اتنی پیاری ووہٹی باجی جی… اتنا زیادہ سونے کا زیور پہن رکھا ہے اس نے اور بھاری جوڑا، لاکھوں کا ہوگا!!‘‘ اس کے نزدیک لاکھوں کی وہ رقم تھی جسے وہ گن تک نہیں سکتی ہو گی مگر ظاہر ہے کہ اسے معلوم تھا کہ بڑے لوگوں کی شادیوں میں دلہنوں کے جوڑے اور زیور لاکھوں میں ہوتے ہیں، کتنے لاکھوں کے، اس کا اسے علم ہو تو وہ حیرت سے مر ہی جائے۔ اس کے تو والدین کی کئی نسلوں کی زندگیاں لاکھوں نہیں ، ہزاروں کے عوض ان بڑے لوگوں کے پاس گروی ہوتی ہیں ۔ ’’ فوٹو کلیئر نہیں ہے نگی، دوبارہ جا!! ‘‘ اس کی مالکن نے اسے گھرکا اور مسکرا کر اپنے لہجے کی گرمی کو چھپانے کی کوشش کی، ’’ فلیش آن کیے بغیر فوٹو بنا کر لاؤ! ‘‘ وہ حکم کی تعمیل میں دوبارہ اسٹیج کی طرف چل دی۔ میں اسے اسٹیج پر چڑھنے کی کاوش میں دھکے کھاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

جن فوٹو گرافروں کو اس تقریب کی کوریج کے لیے بھاری عوضانے ملنے تھے وہ اسے بار بار پیچھے کی طرف انتہائی غیر مہذب انداز سے دھکیل رہے تھے ۔ اس اہم اسٹیج پر اس غیر اہم سی، سادہ سے حلیے والی لڑکی کو کون آگے بڑھنے دیتا۔ وہ فون کو احتیاط اور مضبوطی سے تھامے ہوئے تھی، جانتی ہو گی کہ اس فون کا سلامت اور محفوظ رہنا کتنا اہم تھا۔ مزید تصاویر کھینچ کر وہ لوٹی تو اس کے بال یوں ہو رہے تھے جیسے مرغوں کی لڑائی کے دوران ہوجاتے ہیں۔ اس کا سستا اور سادہ سا لباس بھی سلوٹ زدہ ہو گیا تھا اور اس کے کندھوں پر سیاہ پڑے ہوئے گوٹے والا دوپٹہ مسکا ہوا تھا، وہ گویا ایک مشکل مہم سے لوٹی تھی۔ کم از کم یہ شکر ہے کہ اس بار اس کی مالکن کو وہ تصاویر پسند آ گئی تھیں۔ مالکن یوں تو اچھے خاصے حلیے والی، قیمتی لباس اور زیورات سے سجی بنی، مہذب اور پڑھی لکھی خاتون تھیں، اپنے ہاتھ پیر بھی سلامت تھے مگر وہ اپنے پاس جو ’’ سہولت ‘‘ میسر تھی، اسے پوری طرح مالکانہ حقوق کے ساتھ استعمال کرنا چاہتی تھیں ۔

سجی بنی نوجوان لڑکیاں ہر ہر میز پر جا کر، تہذیب سے مہمانوں سے درخواست کر رہی تھیں کہ اٹھ کر کھانا لے لیں ۔ ہم دو تین خواتین اس میز سے اٹھیں کہ باری سے کھانا لے لیتے ہیں ۔ ’’ نگی!! جا کھانا لے کر آ!!‘‘ انھوںنے اپنی ملازمہ سے کہا، ’’ دو تین لوگوں کے لیے لے کر آنا ! ‘‘ انھوں نے مجھ سے پہلے ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی دو اور خواتین کو اٹھنے سے روکا، وہ غالباً ان کی سہیلیاں یا رشتہ دار ہوں گی۔ وہ بیٹھی ہوئی تھیں تو میں نے ان سے اپنے پرس اور سیٹ کا خیال رکھنے کو کہا ۔

کھانا لے کر لوٹی تو اس وقت تک نگی آدھی میز سجا چکی تھی۔ کھانا سنگل ڈش تھا، پلاؤ اور چھوٹے گوشت کا قورمہ ۔ بڑی تین بھری ہوئی پلیٹیں پلاؤ اور تین ہی پلیٹیں قورمے کی رکھ کر وہ کھڑی تھی کہ اگلا حکم ملے۔ انھوںنے قورمے میں سے چمچوںکے ساتھ بوٹیوں کو چاولوں پر انڈیلا اور اسے مزید قورمہ لانے کا حکم صادر کیا۔ میری پلیٹ کی طرف دیکھا، ’’ سلاد بھی لے کر آنا نگی! ‘‘ مزید قورمہ بھی آیا تو اس میں سے بوٹیوں کی چھانٹی کرنا شروع ہوئی، ہلکی سی ندامت کے ساتھ میری طرف دیکھ کر انھوں نے مجھے بھی پیش کش کی، میں نے مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ہم ایسے کیوں ہیں، جتنے بھی ترقی یافتہ ہوں یا جتنے بھی بھرے پیٹ سے ہوں ، مفت کا کھانا پاتے ہی ہم رزق کا زیاں شروع کر دیتے ہیں ۔ وہ سلاد کی تین پلیٹیں لے کر آئی جو کہ انھوں نے ہلکی سی چھوئیں ، باقی یوں ہی دھری رہ گئیں۔

نگی نے ابھی میٹھا بھی لانا تھا… سو ایک بار پھر وہ پیالوں کو انتہا تک بھر کر میٹھا لے کر آئی، اپنے مالکوں کو اس سے بڑھ کر کون جان سکتا تھا۔ میٹھا ڈھوتے ہوئے اس نے آ کر اطلاع کی کہ کھانے کی طرف سے بتیاں گل کر دی گئی تھیں ۔

’’ چل جا جلدی سے اب خود بھی کھانا کھا لے!! ‘‘ انھوں نے فیاضی کا مظاہرہ کیا ۔

’’ کھانا تو وہ اٹھانا شروع ہو گئے ہیں ! ‘‘ نگی نے اطلاع دی۔ اس کی نظر میز پر فالتو پڑے اس کھانے پر تھی جو اس کی مالکن کو کھانے کی سکت نہ رہی تھی، بعد ازاں اس کھانے کو کوڑے کے ڈرموں میں جانا تھا غالبا۔

’’ چھیتی جا… کچھ نہ کچھ تو مل جائے گا تجھے!! ‘‘ انھوں نے اس کی نظر کا مطلب سمجھ لیا تھا مگر اسے اس کے مقام پر ہی رکھنا مقصود تھا، وہ کیونکر ان کے برابر بیٹھ کر کھانا کھا سکتی تھی۔ وہ اس کھانے پر حسرت کی نظر ڈال کر چلی گئی اور تھوڑی دیر کے بعد ایک پلیٹ لیے لوٹی جس میں چاول اور سلاد تھا۔ یقینا کھانا اٹھایا جا چکا تھا اور اسے فقط یہی کچھ ملا تھا۔ ’’ کچھ اور چاہئے؟ ‘‘ مالکن نے اس سے پوچھا تھا۔ ’’نہیں… ‘‘ اس نے دل پر جبر کر کے کہا تھا۔

’’ جا ادھر نیچے قالین پر بیٹھ کر آرام سے کھانا کھا لے، جلدی کر، ساری بتیاں بند ہونے میں صرف دس منٹ رہ گئے ہیں، پھر باہر گاڑیوں کا رش ہو جائے گا! ‘‘ اسے ہدایات دے کر انھوں نے فون اٹھایا اور نمبر ڈائل کر کے ہدایات دینے لگیں کہ گاڑی لگوا دی جائے۔

شادی کا مطلب ، خوشی کی تقریب ہوتی ہے ، اگرچہ بیگانی شادی تھی اور مجھے اس کی زیادہ خوشی ہونے کا کوئی جواز نہ تھا، خوشی تو دور کی بات، مجھے اس سارے قصے نے دل سے مغموم کر دیا اور میں باقی کے پندرہ منٹ خود کو نگی کے وجود میں جیتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ وہ کیا سوچ رہی ہوگی، کیسا محسوس کر رہی ہو گی، کس اذیت سے گزر رہی ہو گی؟ ہم لوگ توپھر بھی ہر روز نہ سہی تو اکثر اچھا کھانا کھا ہی لیتے ہیں ، یہ لوگ غریب گھروں سے آتی ہیں جہاں اچھا کھانا تو دور کی بات، پیٹ بھر کر کھانا ہی نصیب نہیں ہوتا اسی لیے تو یہ تیرے میرے گھروں کی غلامی کرتی ہیں ۔ اس وقت اتنے لوگوں کی موجودگی اور اس تقریب میں ان کا رویہ اس چھوٹی سی ملازمہ کے ساتھ دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ گھر پر ان کا رویہ اس کے ساتھ کیسا ہوتا ہو گا۔

کیا ان بچیوں کے وجود میں آپ یا آپ کے بچوں سے مختلف دل ہوتا ہے؟ کیا ان کی رگوں میں کسی اور رنگ کا خون ہوتا ہے؟ کیا آپ کو اللہ تعالی نے اور انھیں کسی اور نے بنایا ہے؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہر کسی کے ساتھ زندگی ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی، کبھی کسی پر عروج ہے تو اس پر زوال بھی آ سکتا ہے؟ کیا انسانیت سے افضل کوئی رشتہ ہے؟

خدارا یا تو ان ملازمین کو ان نمود و نمائش والی جگہوں سے دور رکھیں ، انھیں یہ مناظر نہ دکھائیں کہ جتنا وہ آ پ کے ہاں مشقت کر کے، اپنے گھر والوں سے جدائی کاٹ کر ، آپ کی تلخ اور ترش برداشت کر کے اور آپ کے بچوں کی بدتمیزیوں کا نشانہ بن کر ایک مہینے میں بھی اجرت کے طور پر نہیں کماتیں، اتنا آپ اپنے اہل خاندان کے ساتھ ایک وقت کے کھانے پر خرچ کر دیتے ہیں۔ آپ کا ایک لباس یا ایک جوڑا جوتوں کا بھی اس کی مہینے بھر کی تنخواہ سے زیادہ ہے۔ آپ کے بچے کی اسکول کی فیس اس رقم سے زیادہ ہے جو اس کے گھر کا ہر فرد مہینہ بھرمشقت کر کے بھی نہیں کماتا ہے۔

اپنے دل میں جھانکیں اور خود سے سوال کریں کہ آپ کی ان حرکتوں سے ان معصوموں کے دلوں پر کیا قیامتیں ٹوٹتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ آپ کی خدمت پر مامور ہیں تو آپ اس کے صلے میں انھیں ایسی محرومیاں اور حسرتیں دیتے ہیں۔ انھیں ملازمین ہی سمجھیں لیکن ان کی عمریں دیکھیں، آپ کے بچوں جیسے بچے ہی ہیں ، ان کے حقوق کا خیال رکھیں ۔ جہاں آپ انھیں اپنے ساتھ بٹھا نہیں سکتے، اسی کرسی پر بیٹھ کر وہ کھانا نہیں کھا سکتے جس پر آپ کے باقی بچے کھا سکتے ہیں، تو خدارا انھیں اپنے ساتھ نہ لے کر جائیں۔ ان کے دلوں میں ایسی حسرتوں کے انبار نہ اکٹھے کریں کہ روز قیامت… آپ ان کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہوں !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔