پاکستان ہاکی ٹوٹ گئی

میاں اصغر سلیمی  اتوار 28 اپريل 2019
اولمپئنز کے مابین الزامات کا میچ جاری۔ فوٹو: فائل

اولمپئنز کے مابین الزامات کا میچ جاری۔ فوٹو: فائل

ہاکی پاکستان کا شاید وہ واحد کھیل رہ گیا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر نت نئی خبریں سننے کو ملتی ہیں، اگر قارئین یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ کسی اچھائی کا پیغام دیتی ہیں تو وہ غلط سو چ رہے ہیں،ان دنوں گرراؤنڈز کے اندر اتنی ہاکی نہیں کھیلی جا رہی جتنی پاکستان ہاکی فیڈریشن کے حامی اور مخالف اولمپئنز کے درمیان جا رہی ہے۔

پی ایچ ایف فنڈز نہ ہونے کا رونا رو رہی ہے تو سابق اولمپئنز کی بڑی تعداد ماضی میں ملنے والی گرانٹ کو درست انداز میں استعمال نہ کرنے کے طعنے دے رہی ہے۔قومی کھیل کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ورلڈ کپ کے بعد پاکستان اولمپکس کی دوڑ سے بھی تقریبا باہر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ورلڈ ہاکی لیگ نہ کھیلے کی وجہ سے ایف آئی ایچ کی طرف سے ڈھائی کروڑ روپے کا جرمانہ کیا جا چکا ہے۔ نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں موجود پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ہیڈ کوارٹر کی صورتحال یہ ہے کہ صدر اور سیکرٹری صاحبان کئی کئی ہفتے اپنے دفاتر کا رخ نہیں کرتے جس کی وجہ سے یہاں پر دن کے اوقات میں بھی ہو کا عالم ہوتا ہے۔

وہ قومیں، حکومتیں،کھیلوں کی تنظیمیں، عہدیدار اور پلیئرز جو بے حس ہو جاتے ہیں، وہاں پر انقلاب نہیں عذاب آتے ہیں، بیشتر ملکی محکموں کی طرح ہماری کھیلوں کا بھی اللہ ہی حافظ ہے لیکن یہ ہاکی کا کھیل ہی ہے جس نے ماضی میں ملک و قوم کی خوب لاج رکھی، ہمارے کھلاڑیوں نے دنیا بھر میں اپنے کھیل کی ایسی دھاک بٹھائی کہ گرین شرٹس انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے جاتے تو شریک ٹیموں کے پلیئرزکے ہاتھ پاؤں گراؤنڈ میں اترنے سے قبل ہی پھول جاتے۔

شائقین ابھی بھی وہ لمحات فراموش نہیں کر پائے جب قطرایشین گیمز1962ء کے فائنل مقابلے کے دوران بریگیڈیرعاطف کی تیز ترین ہٹوں سے بھارتی گول کیپر لکشمن کا پورا جسم نیلا، پیلا ہو گیا تھا، جب گولی کی رفتار سے بھی تیز آنے والی گیند لگنے سے چرن سنگھ وہیں ڈھیر ہو گیا اور جب ایک پاکستانی کھلاڑی کی ہٹ نے بھارتی گورونجش کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا اور اسے15 ٹانکے لگے۔

قومی ٹیم کے 1952ء کے دورئہ انگلینڈ کے دوران میزبان پلیئرکونرائے نے نجی تقریب میں پاکستان کے خلاف نازیبا الفاظ کہے تو اگلے ہی روز گرین شرٹس نے اس سے ایسا انتقام لیا کہ زخموں سے چور کونرائے کو میچ کے ابتدائی 15 منٹوں میں ہی اٹھا کر گراؤنڈ سے باہر لے جانا پڑا۔ پرستاروں کو اب بھی وہ چھوٹی ٹانگ اورٹیرھی بازو والے کھلاڑی محمد اشفاق اور رشید جونیئر یاد ہیں، جنہوں نے جسمانی معذوریوں کے باوجود میکسیکو اولمپکس1968ء کا طلائی میڈل قومی ٹیم کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ قوم وہ دن بھی نہیں بھولے ہوں گے جب میونخ اولمپکس 1972ء میں چاندی کا تمغہ جیتنے کے باوجود ناخوش قومی کھلاڑیوں نے میڈلز وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

وہ سنہری لمحات اب بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جب قومی ٹیم نے تہران ایشین گیمز کے فائنل میں روایتی حریف بھارت کا غرور خاک میں ملا کر سقوط ڈھاکہ کے بعد پہلی بار عالمی سطح پر قوم کوخوشخبری دی تھی،شائقین ہاکی وہ دن بھی فراموش نہیں کر پائیں ہوں گے جب گرین شرٹس نے1994ء میں آسٹریلیا میں گوروں کا غرور خاک میں ملا کر چوتھی بار عالمی کپ کا میلہ لوٹا تھا۔

پی ایچ ایف کے سابق و موجودہ عہدیدار اورسابق اولمپئنز اس حقیقت سے کیوں نظریں چرائے بیٹھے ہیں کہ یہ ہاکی کا کھیل ہی تھا جس نے آپ سب کو معاشرے میں بلند مقام دیا، کروڑوں روپے کے بینک بیلنس اور قیمتوں پلاٹس کا مالک بنایا، رہنے کیلئے باعزت روزگار دیا، پھر بھی آپ سب نے اس کھیل کی حقیقی معنوں میں خدمت کرنے کی بجائے اپنے ذاتی فائدوں کو ترجیح دینے کی پالیسی کو کیوں اپنا لیا۔

ملکی کھیلوں کا جو حال ہے وہ تو سب کے سامنے ہے، کتنے افسوس کی بات ہے کہ 20 کروڑ افراد کی سرزمین باصلاحیت کھلاڑ ی پیدا کرنے میں بانجھ دکھائی دیتی ہے جبکہ 50 ،60 اور ایک کروڑ تک کے آبادی کے بیشتر ممالک اولمپکس سمیت دنیا کے بڑے ایونٹس میں میڈلز جیت کر اپنا پرچم بلند کرتے ہیں، واحد گیم ہاکی ہی بچتی تھی جس سے قوم کو عالمی ایونٹس میں میڈلز کی امید ہوتی تھی، سو اس کا بھی بیڑہ غرق کر دیا گیا، شائقین کھیل پوچھتے ہیں کہ دیوار چین، فلائنگ ہارس کے القاب سے پکارے جانے والے کھلاڑی کہاں گئے۔

کہاں ہیں وہ اے جی خان، شاہ رخ، بریگیڈیئر حمیدی، ڈاکٹر غلام رسول چوہدری، نصیر بندہ، انوار خان، منیر ڈار، ذاکر سید، خالد محمود، استاد سعید انور، اشفاق احمد، رشید جونیئر، شہناز شیخ، منظورالحسن، اختر رسول، منظورجونیئر، سمیع اللہ، حسن سردار، شاہد علی خان، حنیف خان، اصلاح الدیں صدیقی، شہباز سینئر،سہیل عباس، کہاں گئے وہ دن جب میچ کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے اللہ اکبر کے نعرے سٹیڈیم میں موجود ہزاروں تماشائیوں اور ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھے کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کو گرما دیتے تھے۔

کہاں گئے وہ دن جب مخالف ٹیموں کے کھلاڑی تمہارا رعب ودبدبہ دیکھ کر مقابلے سے پہلے ہی ہمت ہار بیٹھتے تھے، کہاں گئے وہ دن جب دنیا فخر سے کہتی تھی کہ اگر ہاکی سیکھنی ہو تو پاکستان جاؤ۔جب نیتوں میں ہی کھوٹ ہو، جب اولین مقصد ہی دنیا بھر کے سیر سپاٹے کرنا ، ڈالرز اور پاؤنڈز کمانا ہو تو وہ ابابیل کے لشکر اور بدر کے فرشتے کیونکر کر ہماری مدد کے لئے آئیں گے، قومی کھیل کا بھی اس وقت کوئی والی وارث نہیں ہے، لیکن یہ سلسلہ کب تک، آخر کب تک چلے گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔