قومی موسیقی میلہ

قیصر افتخار  اتوار 28 اپريل 2019
پی این سی اے کے زیراہتمام اسلام آباد میں سچے سُروں کی سات روزہ محفلوں کا اختتام۔ فوٹو: فائل

پی این سی اے کے زیراہتمام اسلام آباد میں سچے سُروں کی سات روزہ محفلوں کا اختتام۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے ذیلی ادارے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے زیراہتمام سات روزہ قومی موسیقی میلہ بھرپور انداز میں پی این سی اے کے اوپن ایئرتھیٹر میں شروع ہوا تو کسی کویہ اندازہ نہ تھا کہ موسیقی کی مختلف اصناف میں مہارت رکھنے والے اساتذہ جب یہاں پرفارم کریں گے توسماں یادگاربن جائے گا۔

ویسے توہمارے ملک کے نامورگائیک، سازندے دنیا بھرمیں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں لیکن جس انداز میں اس بار قومی موسیقی میلہ سجایا گیا، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کلاسیکل، غزل، لوک، گیت، صوفی، قوالی، جدید موسیقی سمیت فلمی گیتوں پر کی ان محفلوں نے شائقین کے دل جیت لئے۔

قومی میلے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ ملک کے تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے نامور فنکاروں نے اس میں شرکت کی۔ اس میں موسیقی کی تمام اصناف پیش کی گئیں ۔ ان میں فلمی نغموں کی شام جہاں نغمہ نگار، گلو کار اور ہدایتکار کو خراج تحسین پیش کیا گیا، اس موقع پر جہاں گلوکارہ سائرہ نسیم، حمیراچنا، انور رفیع، سائرہ طاہر اور دیگرنے پرفارم کیا، وہیں مشہو ر علاقائی گلوکار اور سازندے اپنے اپنے فن کے جوہر دکھاتے نظر آئے، جس سے علاقائی ثقافت کی بھر پور عکاسی دیکھنے میں آئی۔ کلاسیکل گلوکاروں نے خیال، ٹھمری اور دادر ا انتہائی فنی مہارت سے گا کر موسیقی کے شائقین کو محظوظ کیا۔

جن گلو کاروں نے اس موقع پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا ان میں استاد قادر شگن اور مسلم شگن جن کا تعلق گوالیار گھرانہ سے ہے، انہوں نے خیال گائیکی میں اپنا کلام پیش کیا اور سننے والوں کو محظوظ کیا۔ استاد شاہد حامد نے خیال میں،مینا سید نے ٹھمری، ولی فتح علی نے خیال میں ،اْستاد فتح علی خان حیدر آبادی نے خیال اور ٹھمری سے لوگوں کے دلوں کو لبھایا۔ استاد نفیس احمدخان ستار نواز اوراستاد اجمل طبلہ نواز نے جگل بندی سے لوگوں کو محظوظ ہونے کا موقع فراہم کیا۔ فوک میں مسیط گل (کے پی کے)، ناصر علی( جھنگ)، عاصمہ راجپوت(راولپنڈی)  عمران راجہ (کشمیر)، قربان نیازی(اسلام آباد)، لیلیٰ جٹی(پنجاب)، انور خیال (کے پی کے)، نعیم الحسن (سرائیگی)، فضل عباس جٹ (فیصل آباد)، زرسانگا(کے پی کے) اور اختر چنال (بلوچستان) نے اپنی علاقائی گائیگی کے جوہر دکھائے۔

صوفیانہ کلام کی محفل میں عارف لوہار نے پنجابی صوفیانہ کلام اور جگنی، نیاز خان نے (لال میری پت)، سائیں ظہور نے (بلھے شاہ) وقار علی نے (ماہی یار دی گھڑولی بھر دی)جاوید نیازی اور بابر نیازی نے (میں نہی جاناں جوگی دے نال)احمد گل نے ( پشتو ٹپے اور نوی دل بری نہ دلداری ہو کا) موبشرہ حفیظ نے(چھتی بول وے تبیباں) حمیرا چنا نے(تیرا سہون رہے آباد اور یار ڈاڈی عشق) سائرہ پیٹرنے (ساکوں یار مناوناں اے) ، غلام عباس نے (کی جاناں میں کون، مائی نیں میں کنہوں آکھاں) اسحاق چنیوٹی نے (ولڑی لٹی تیں یار سجناں اورڈھول مینڈا نیں) اوراسد مبارک علی نے(گھونگٹ چک لے سجناں توں کی شرمانا) پیش کیا ۔

جدید میوزک کی محفل میں پاپ میوزیک گروپ راگا بوائز نے ’’ مینوں تیرا جیا سونیا‘‘ ،’’ من کمتم مولا‘‘، ’’نین سے نین ملائے رکھنا‘‘ پرفارم کیا اور لوگوں سے داد حاصل کی ۔ سائرہ پیٹر نے سن وے بلیوری اکھ والیا، وعدہ کرو ساجنا، نعمان لاشاری ’’کہے دینا اور یاروں یہی دوستی ہے‘‘، اس کے علاوہ مشہور پاپ سنگر جیا نعمان کے ساتھ دو گانا، ہونا تھا پیار، اور ڈسکو دیوانے پیش کیا۔ اویس اقبال نیازی ، عثمان رائیس نے بھی اپنے مدحو ر گیتوں سے لوگوں کے دلوں کو لبایا۔

سات روز تک جاری رہنے والے قومی موسیقی میلہ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعدادشریک ہوئی جبکہ وزیراعظم پاکستان کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بھی خصوصی شرکت کی اور گرینڈ ایونٹ کے انعقاد پر جہاں پی این سی اے کی مینجمنٹ کو مبارکباد پیش کی، وہیں ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی سرگرمیاں پاکستان کا سافٹ امیج دنیا بھرمیں متعارف کروانے میں اہم کردارادا کرتی ہیں۔ دوسری جانب اسلام آباد میں خوشگوارموسم کا لطف دوبالا کرنے کیلئے محفل موسیقی کی محفلوں کا کردار نمایاں ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس طرح کی تقریبات کا انعقاد جاری رہنا چاہئے۔

پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے ڈائر یکٹر جنرل سید جمال شاہ نے کہا کہ کلاسیکل موسیقی کی بقاء در اصل ہر طرح کی موسیقی کی حیات ہے۔ پی این سی اے کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کے ہر گوشہ کی ثقافت کی نمائندگی ہو۔ ا س سلسلے میں پی این سی اے اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف ہے۔ ادارے کو جو اغراض و مقاصد تفویض کئے گئے ہیں ان میں دوردراز کے فنکاروں کو سامنے لانا اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ زرسانگا اس کی ایک نمایاں مثال ہیں۔ ادارے نے ان کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے فنکار جو پاکستان کی پہچان بنے وہ بھی پی این سی اے کے پلیٹ فارم کی بدولت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نیشنل کونسل آدی آرٹس کے زیر اہتمام منعقد کردہ سات روزہ موسیقی میلہ میں پاکستان کے معروف حکومتی اداروں کو کلاسیکی گلوکاروں کی ہر ممکن حوصلہ افزائی اور اس فن کی ترویج کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے گلوکاروں کو چاہیے کہ وہ نوجوان گلوکاروں کو اس طرف راغب کریں اور انہیں کلاسیکی موسیقی کی تربیت دیں تا کہ آنے والی نسلیں بھی اس فن کو زندہ رکھ سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے اس بات کا تہہ دل سے یقین ہے کہ جدید موسیقی کوئی سازش نہیں بلکہ یہ حقیقت اور فن موسیقی کا ربط ہے جو سچے موسیقی پسند کرنے والوں کا شعار ہے۔ پاپ سنگرز دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے۔ ہمیں پاکستانی فنکاروں کی قدر کرنی چاہیے۔

پاکستان کی پہلی اوپیراسنگر سائرہ پیٹر کا کہنا تھا کہ صوفی موسیقی ایک ایسی صنف ہے جس کا تعلق ایک صوفی کی روح سے ہوتا ہے جیسے رومی، وارث شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی، بلھے شاہ اور خواجہ غلام فرید کا کلام جب قوالی کی صورت میں پیش ہوتا ہے تو ایک الگ ہی سماع بندھ جاتا ہے ، اسی طرح جب میں اپنے اوپیرا سٹائل میں صوفی رنگ پیش کرتی ہوں تولوگ بہت محظوظ ہوتے ہیں۔ اسلام آبادمیں ہونے والی سات روزہ میوزک محفلوں میں مجھے دوبار پرفارم کرنے کا موقع ملا، جس میں میری پرفارمنس کوبے حد سراہا گیا۔

دوسری جانب گلوکارہ حمیراچنا، عارف لوہار، سائرہ نسیم اورغلام عباس کا کہنا تھا کہ کلاسیکی موسیقی، شام غزل، گیت، نوجوانوں کی ماڈرن موسیقی، فلمی نغموں کی شام اور شب قوالی اور اس قومی موسیقی میلے کی آخری نشست صوفیانہ موسیقی کے لیے مخصوص کی گئی تھیں۔ اس میلے میں 150 فنکاروں نے اپنے فن کا جادو جگایا اس کے علاوہ 5 قوال گروپز نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ان فنکاروں میں 25 ایسے نابغۂ روزگار فنکار بھی شامل تھے جو اپنی فنی عظمت کے اعتراف میں پاکستان کی دنیائے فن کا سب سے بڑا اعزاز صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی وصول کر چکے ہیں۔

یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد میلہ تھا جس کا حصہ بن کر ہمیں بے حد خوشی ہوئی ہے کیونکہ اس وقت ہمارے ملک میں موسیقی کا شعبہ بڑی تیزی کے ساتھ نیچے کی طرف جارہا ہے لیکن پی این سی اے نے اسلام آباد میں اس بڑے پیمانے پرمحفل سجا کر یہ احساس دلایا کہ ابھی بھی اچھی موسیقی سننے والے موجود ہیں اوریہ سلسلہ اگراسی طرح جاری رہا تو آئندہ اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد توقعات سے بہت زیادہ ہوگی۔

پاکستان میں اس طرح کے ایونٹس اسلام آباد کے ساتھ ساتھ لاہور، کراچی، فیصل آباد، گوجرانوالہ، پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں منعقد کئے جائیں تاکہ معروف گلوکاروں کے ساتھ ساتھ علاقائی فنکار بھی اپنے فن کو بڑے پلیٹ فارم پرمتعارف کروائیں، یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے فنکاروں اور ثقافت کوبین الاقوامی سطح پر متعارف کروا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔